لاہور (جدوجہد رپورٹ) نیپال کے وزیر خارجہ پردیپ گیاولی نے گذشتہ روز کہا کہ سرحدی تنازعے پر ہم مذاکرات کے حوالے سے ابھی تک بھارتی جواب کے منتظر ہیں۔ ایسوسی ایٹڈ پریس کو انٹرویو دیتے ہوئے انہوں نے کہا نومبر، دسمبر اور پھر پچھلے مہینے ہندوستان کو مذاکرات کی دعوت دی گئی… ”ہم نے بار بار کہا ہے کہ ہم اس مسئلے کا حل مذاکرات کے ذریعے چاہتے ہیں تا کہ دونوں ممالک کے بیچ ایسا منفرد تعاون پنپ سکے جو اکیسویں صدی کے تقاضوں کے مطابق ہو۔ “
بھارت اور نیپال کے مابین موجودہ تنازعہ گذشتہ ماہ اس وقت شروع ہوا جب بھارت نے ہمالیہ میں ایک ایسی سڑک کا افتتاح کیا جو بھارت کو تبت اور چین سے ملاتی ہے۔ اسی کلومیٹر لمبی اس سڑک کا افتتاح بھارتی وزیر خارجہ راج ناتھ سنگھ نے کیا۔ لیپو لیکھ درے سے گزرتی ہوئی یہ سڑک چین اور بھارت کے مابین مختصر ترین تجارتی شاہراہ ہے۔
نیپال نے کھل کر اس سڑک کے افتتاح کی مخالفت کی اور اسے نیپال کی خود مختاری پر حملہ قرار دیا جس کی وجہ سے دونوں ممالک کے مابین ایک نیا تنازعہ کھڑا ہو گیا۔
نیپال کے وزیر اعظم کھڑگا پرساد شرما اُلی نے نیپال کا ایک نیا نقشہ بھی جاری کیا ہے جس کے مطابق یہ سڑک نیپال کے علاقے سے گزرتی ہے۔
نیپال کبھی کسی دوسرے ملک کی کالونی نہیں رہا۔ ایک لمبے عرصے تک لمپی یادھورا، کلاپنی اور لیپو لیکھ کے علاقوں پر برطانوی راج کے ساتھ 1816ء میں ہونے والے معاہدہ ساگولی کے تحت نیپال اپنا حق جتاتا آیا ہے۔
1962ء میں ہند چین جنگ کے بعد اس علاقے پر، خبر رساں ادارے ایسوسی ایٹڈ پریس کے مطابق، ہندوستانی فوج کا عملی قبضہ رہا ہے۔ بھارت کی طرف سے ایسی اطلاعات آئی ہیں کہ وہ نیپال سے مذاکرات کرونا بحران کے خاتمے کے بعد کرنا چاہتا ہے۔ نیپال البتہ جلد از جلد مذاکرات کا انعقاد چاہتا ہے۔
وزیر خارجہ گیاولی کا کہنا ہے کہ ”اگر کرونا مذاکرات کی راہ میں رکاوٹ ہے تو پھر یہ سڑک کا افتتاح کرنے میں بھی رکاوٹ بننا چاہئے تھا۔ بات یہ ہے کہ کچھ تضادات اور تنازعات ہیں“۔
اس سرحدی تنازعے نے دونوں ممالک کے تعلقات کو کشیدہ کر دیا ہے۔ دونوں جانب سے سخت بیانات داغے گئے ہیں۔
وزیر خارجہ گیاولی کا کہنا ہے ”مذاکرات اور بات چیت کے علاوہ کوئی حل نہیں مگر یہ مذاکرات اس نیت سے ہوں کہ مسئلے کا حل نکالنا ہے اور ایک ایسا ماحول بنانا ہے کہ جہاں دونوں ممالک ترقی کر سکیں اور دونوں ممالک مل کر ایک ایسے جنوبی ایشیا کی طرف سفر کر سکیں جو خاشحال ہو“۔