عدنان فاروق
دیکھتی آنکھوں، سنتے کانوں، آپ کو طارق عزیز کا خدا حافظ!
مندرجہ بالا جملہ کل ان گنت فیس بک والز پر دکھائی دیا۔ یہ جملہ میرے کانوں میں بھی دیر تک گونجتا رہا۔ گذشتہ روز جب طارق عزیز کی وفات کی خبر عام ہوئی تو میری نسل کے لاکھوں لوگوں کے سامنے طارق عزیز کا چہرہ، اپنے تمام تر تضادات کے ساتھ، گھومنے لگا۔ مجھے’’نیلام گھر“ سے پہلے ”ہمزاد دا دکھ“ یاد آیا۔ کیا زندگی کی اسی رات کے لئے ہی طارق عزیز نے کہا تھا:
اج دی رات میں کلّا وَاں
کوئی نئیں میرے کول
اَج دی رات تے میریا ربّا
نیڑے ہو کے بول
سچ پوچھیں تو طارق عزیز کی موت آج سے کئی برس قبل ہو گئی تھی۔ کل تو ان کی طبعی موت ہوئی جس کا کارن ان کی بیماری تھی۔ کمرشلائزیشن کے ہاتھوں ان کی فنی موت کئی سال پہلے ہی ہو گئی تھی جب ان کے پروگرام نیلام گھر کو بند کر دیا گیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ طارق عزیز کی تیسری موت تھی۔
کسی آرٹسٹ کی موت تب ہی ہو جاتی ہے جب اس سے اس کا فن چھین لیا جاتا ہے۔ آج کے جدید دور میں اگر کسی سے اس کے فن کے اظہار کا ذریعہ چھین لیا جائے تو اسے بھی آرٹسٹ کو مار دینے کے مترادف ہی سمجھا جانا چاہیے۔ پرائیوٹ چینلز آنے کے بعد طارق عزیز کو کہیں بھی کام نہ دینا اس بات کا اعلان تھا کہ طارق عزیز ہم میں نہیں رہے۔ تجارتی چینل بھی کیا کرتے۔ طارق عزیز تہذیب، شستہ زبان، ادب، شاعری اور زبان و بیان میں ماہر تھے۔ تجارتی چینلز کو پھکڑ پن، بد تمیزی، چیخنا چلانا، بے ہودگی، بد تہذیبی اور سازشی نظریہ دانوں کی ضرورت تھی۔ تجارتی میڈیا پر طارق عزیز یا طارق عزیز جیسوں کی کوئی جگہ نہ تھی۔ ادھر میری نسل کے لوگ بھی اب کسی طارق عزیز کو بطور ناظرین میسر نہ تھے۔ اسکرین کے سامنے بیٹھی قوم یوتھ کو ”ہمزاد دا دکھ“ سنانا بھینس کے سامنے بین بجانے کے مترادف ہوتا۔ گویا کمرشلائزیشن کے ہاتھوں طارق عزیز کی پہلی موت واقع ہو گئی تھی۔
کل کچھ دوست تھے جو طارق عزیز کی سیاسی قلابازیوں پر گلہ کرتے بھی سنائے دئے۔ ان کا گلہ بھی بجا تھا۔
ستر کی دہائی میں وہ ایک ماؤوادی، ایک شاعر، ایک ادب اور ادیب دوست، ایک اداکار اور بھٹوکے ساتھی کے طور پر مشہور تھے۔
وہ ریڈیو پاکستان میں بطور اناؤنسر اپنی آواز کا جادو ٹیلی ویژن کی آمد سے پہلے سے جگا رہے تھے اور 1964ء میں ٹیلی ویژن کے آنے پر وہ پاکستان کے پہلے باشندے تھے جو پی ٹی وی کی سکرین پر نمودار ہوے۔
انہوں نے ٹیلی ویژن پر نمودار ہونے کے چار سال بعد ایک انقلابی فلم”انسانیت“ میں اداکاری کی۔ اس کے بعد بھی ترقی پسند فلموں جیسے کہ ”ہار گیا انسان“، ”چراغ کہاں روشنی کہاں“ وغیرہ میں کام کیا۔
غالباً یہی انقلابی روح ان کو سیاست میں لی گئی۔ انیس سو ستر میں وہ اپنے انقلابی نظریات کے باعث گرفتار بھی ہوئے۔ ذوالفقار علی بھٹو نے ان کی رہائی کا مطالبہ کیا۔
پھر ضیا دور آیا۔ بھٹو کا سپاہی ضیا کے ساتھ جا کھڑا ہوا۔ بہت سے لوگوں کا خیال تھا کہ بھٹو سے یہ غداری اسکرین پر نمودار ہونے کے لئے کی گئی۔ نیلام گھر میں جنرل ضیا کو بھی مدعو کیا گیا۔ ماؤ وادی طارق عزیز نے بھی نیلام گھر میں شاعری کے ساتھ ساتھ احادیث سنانی بھی شروع کر دیں۔
جب 1988ء میں بے نظیر کی پہلی حکومت بنی تو طارق عزیز کا نیلام گھر بند کر دیا گیا۔
طارق عزیز کو نیلام گھر کے سوا کچھ آتا بھی نہیں تھا۔ وہ نواز شریف کے ساتھ مل گئے۔ نیلام گھر بھی بحال ہو گیا اور وہ مسلم لیگ نواز کی جانب سے رکن قومی اسمبلی بھی بن گئے۔ اس بات کی وضاحت وہ کبھی نہ کر سکے کہ ان کی مسلم لیگ کی سیاست میں داخلے کی وجوہات کیا تھیں۔ مشرف آمریت آئی تو ان کی بیوی حاجرہ طارق مسلم لیگ ق کی نشست پر 2002ء تا 2007ء قومی اسمبلی کی رکن رہیں۔
ان کی بے ذوق سیاسی قلابازیوں نے نیلام گھر کا حسن بھی پامال کر کے رکھ دیا۔ مجھ سمیت بے شمار لوگوں کے لئے یہ قلابازیاں ان کی دوسری موت ثابت ہوئیں۔
ان کی پہلی اور دوسری موت پر بھی دکھ ہوا مگر کل جب ان کی تیسری موت ہوئی تو اور لوگوں کی طرح مجھے بھی کچھ واقعات یاد آئے۔
طارق عزیز سے میری شناسائی کا سبب نیلام گھر تو تھا ہی لیکن ساہیوال سے ان کا تعلق بھی ایک وجہ تھی۔ وہ میرے والد کے ساتھ کالج میں پڑھتے تھے۔ ان کی ایک دوسرے کے ساتھ شناسائی اور والد صاحب کے چند مشترکہ دوست میرے لئے ایک کشش کا باعث تھے۔
مجھے یہ بھی یاد آیا کہ نیلام گھر وہ واحد پروگرام تھا جسے ہم بچے بے خوف ہو کر دیکھتے تھے کیونکہ تب والدین ہمیں یہ نہیں کہتے تھے کہ چلو ٹیلی ویژن بند کرو اور سکول کا کام کرو بلکہ نیلام گھر کو علم بڑھانے کا ذریعہ سمجھا جاتا تھا۔
ایک اور واقعہ بھی یاد آیا: میں قریب قریب آٹھ برس کا تھا۔ ہمارا خاندان سمن آباد کے این بلاک میں کرائے کے ایک گھر میں رہتا تھا۔ میں اپنے گھر کی دوسری منزل کی چھت پر کھڑا تھا۔ نیچے والی منزل کرائے کے لئے خالی تھی۔ اچانک میں نے دیکھا کہ طارق عزیز اس میں داخل ہوئے۔ میں بے اختیار چلایا: ”امی! امی! نیلام گھر والے انکل“۔
طارق عزیز نے سر اٹھایا اور میری طرف دیکھ کر مسکرائے۔ بعد میں معلوم ہوا کہ ا نہیں گھر پسند نہیں آیا۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ چند روز بعد جو لوگ وہاں آئے وہ تین بچوں والی ایک فیملی تھی۔ اس خاندان کے سربراہ اِنکم ٹیکس افسر آغا اکمل تھے۔ ان کی بیٹی بعد میں فلم سٹار ریما کے نام سے مشہور ہوئیں۔
گذشتہ روز فیس بک پر ایک دوست نے طارق عزیز کی پنجابی نظم ”کجھ ہون توں پہلاں“ پوسٹ کی تو دوبارہ”ہمزاد دا دکھ“ کھول کے بیٹھ گیا:
چھوٹیاں چھوٹیاں گلّاں اُتّے
اَینویں نہ تْوں لَڑیا کر
ایڈیاں سوھنیاں اَکھاں دے وِچ
ھنجو نہ تْوں بھریا کر
جیہڑے کَم نئیں تیرے چَناں
توں اوہ کَم نہ کریا کر۔
”اک حقیقی گل“ شائد انہوں نے ستر کی دہائی میں لکھی ہو:
مْڈھ قدیم توں دنیا اندر
دو قبیلے آئے نیں
اِک جنہاں نے زہر نیں پیتے
دوجے جنہاں پیائے نیں۔
ان کی یہ نظمیں پڑھتے ہوئے سوچ رہا تھا کہ بار بار مرنے والا یہ فنکار شائد کسی اور دور میں پیدا ہوا ہوتا تو اسے اتنے سمجھوتے نہ کرنا پڑتے۔ اسے یہ نظم نہ کہنا پڑتی:
قبرستاناں ورگا بندہ
بیٹھا سگٹاں پی رہیا سی
تیز دھوئیں دے چاقو نال
پھٹ جگر دے سی رہا سی۔
یہ شائد صرف طارق عزیز کی تیسری موت نہیں۔ ہم بطور معازرہ چپہ چپہ مر رہے ہیں۔ طارق عزیز کی موتیں بس اس اجتماعی موت کی تجسیم ہیں۔