کراچی (جدوجہد رپورٹ) سندھ کی ساحلی پٹی کے ماہی گیروں نے وفاقی حکومت کی طرف سے ڈیپ سی فیشنگ ٹرالروں کے لائسنس جاری کرنے والے فیصلے کو رد کرتے ہوئے بھرپور جدوجہد کا اعلان کیا ہے۔
بدھ والے دن پاکستان فشرفوک فورم اور پاکستان بونافائیڈ فشرمین فورم کے مشترکہ اعلامیہ پر سینکڑوں ماہی گیروں نے آرٹس کونسل سے کراچی پریس کلب تک احتجاجی ریلی نکالی، جو کہ کراچی پریس کلب تک پہنچتے ہی ایک بہت بڑے جلسے میں تبدیل ہو گئی۔ ریلی میں شریک ہونے والوں کے پاس بینرز اور پلے کارڈ بھی موجود تھے، جن پر ڈیپ سی فیشنگ ٹرالروں کے خلاف نعرے درج تھے۔ ریلی میں عورتوں نے بھی بڑی تعداد میں شرکت کی۔
ریلی سے پاکستان فشر فوک فورم کے چیئرمین محمد علی شاہ، پاکستان بونافائیڈ فشرمین فورم کے صدر محمد حسین اور فاطمہ مجید نے خطاب کیا۔ جبکہ جنرل سیکریٹری پاکستان فشرفوک فورم سعید بلوچ، مجید موٹانی، سید علی اصغر شاہ، زاہد بھٹی اور دیگر رہنمابھی شریک تھے۔
محمد علی شاہ نے کہا کہ وفاقی حکومت ایک بار پھر سندھ اور بلوچستان کی ساحلی پٹی کے ساتھ ایک سو کلومیٹر اکنامک زون میں مچھلی مارنے کے لیئے ڈیپ سی فیشنگ ٹرالروں کو لائسنس دے رہی ہے۔ جبکہ تقریباً 12 ڈیپ سی فیشنگ ٹرالر کراچی پورٹ کے قریب کھڑے ہیں۔ ڈیپ سی میں مچھلی مارنے سے نہ صرف ماہی گیروں کے روزگار پر اثر پڑے گا بلکہ اس سے سمندری حیات بھی متاثر ہو گی۔
انہوں نے کہا کہ ڈیپ سی فیشنگ پالیسی ابھی تک منظور نہیں کی گئی، اس لیئے ڈیپ سی ٹرالروں کی پاکستانی سمندر میں کھڑے ہونے کی اجازت دینے کے خلاف اس کی جانچ پڑتال کروا کر کاروائی عمل میں لائی جائے۔
سابقہ حکومتوں کی طرف سے کتنی ہی مرتبہ ڈیپ سی فیشنگ کو رد کرنے کے باوجود اس عمل کو دوبارہ لانے پر ہمیں کافی پریشانی ہوئی ہے۔ حال ہی میں اقوام متحدہ کے فوڈ اینڈ ایگریکلچرل آرگنائزیشن کی طرف سے وفاقی حکومت کے ساتھ سمندری حیات کے کیے گئے سروے سے معلوم ہوا تھا کہ مچھلی کے ذخائر 72 فیصد کم ہوگئے ہیں۔
انہوں نے مزید کہا حکومت کے پاس ایکسکلوسو اکنامک زون، 12 ناٹیکل مائلز سے لیکر 200 ناٹیکل مائلز تک مچھلی کو ریگولیٹ کرنے کے اختیار ہوسکتے ہیں، مگر مچھلی کے معاملات ابھی صوبائی معاملا ت ہیں۔ ابھی یہ اختیار ات صوبوں کے پاس ہیں کہ وہ سمندر اور تازے پانی کی مچھلی کے انتظامی معاملات دیکھیں۔
دنیا میں 46 لاکھ چھوٹی بڑی کشتیاں موجود ہیں، جن سے ایک فیصد سے بھی کم یا 35 ہزار ڈیپ سی فیشنگ ٹرالرموجود ہیں مگر یہ 52 فیصد سمندری حیات کا شکار کرتے ہیں۔ ان ٹرالروں کے جال کی لمبائی کلومیٹروں میں ہوتی ہے اور یہ شکار کرنے کے دوران کتنی ہی سمندری حیات کو تباہ کرتے ہیں۔
یہ ٹرالر صرف وہ مچھلی پکڑتے ہیں جن کی انہیں ضرورت ہے، باقی غیرضروری مردہ مچھلی سمندر میں پھینکتے ہیں اور سمندری گندگی کا سبب بھی بن رہے ہیں۔
فشر فوک فورم کے جنرل سیکرٹری سعید بلوچ نے کہا کہ وفاقی حکومت، سندھ حکومت اور فشر مینز کوآپریٹو سوسائٹی کے جعلی و چور چیئرمین کو وارننگ جاری کرتے ہیں کہ اگر ڈیپ سی ٹرالرز کے لائیسنس ختم نا کئے گئے توماہی گیر ہزاروں کی تعداد میں فشر مینز کوآپریٹو سوسائٹی کے آفس کا گھیراؤ کریں گے۔ انھوں نے سندھ حکومت سے مطالبہ کیا کہ فشر مینز کوآپریٹو سوسائٹی کے نام نہاد اور جعلی چیئرمین جس کی مدت یکم مئی 2020ء کو ختم ہوچکی ہے کو فوری برطرف کیا جائے اور ڈیپ سی ٹرالرز کے لائیسنس منسوخ کیے جائیں۔
پاکستان بونافائیڈ فشرمین فورم کے صدر محمد حسین نے کہا کہ اگر ڈیپ سی فیشنگ پالیسی بناکر ڈیپ سی فیشنگ ٹرالروں کو لائسنس جاری کرتے ہیں تو اس سے پاکستان اقوام متحدہ کی معاشی، سماجی اور ثقافتی حقوق والے کنونشن کی خلاف ورزی کرے گا۔ کیونکہ اس سے ماہی گیروں کے خوراک والے حق متاثر ہونگے۔ حکومت کے ایسے ماہی گیر دشمن فیصلے کے خلاف ماہی گیروں کی طرف سے مرحلہ وار پر امن جدوجہد کی شروعات کی گئی ہے۔