فاروق سلہریا
(معروف کالم نگار وجاہت مسعود کے روز نامہ جنگ میں شائع ہونے والے کالم کے جواب میں فاروق سلہریا کے کالم کا پہلے اور دوسرے حصے کے بعد ذیل میں تیسرا حصہ پیش کیا جا رہا ہے)
معلوم نہیں وجاہت مسعود کو یہ اطلاع کہاں سے ملی کہ چے گویرا مخالفین کو ایٹم بم سے اڑا دینا چاہتا تھا۔ ’روزنامہ جدوجہد‘ نے وجاہت صاحب سے رابطہ کیا اور جاننا چاہا کہ وہ اپنے سورس بارے ہمیں بتا دیں۔ تا دم تحریر ان کا جواب موصول نہیں ہوا۔ اس امید کے ساتھ کہ اپنے ہر دعوے کا ماخذ وہ اپنے آئندہ کالم میں فراہم کریں گے، ہم ایٹم بم کے حوالے سے کیوبا کی پالیسی یہاں بیان کر رہے ہیں کیونکہ ان کے کالم میں یہ تاثر دیا گیا ہے کہ چے گویرا اپنے دشمنوں پر ایٹم بم گرانا چاہتا تھا۔
بات شروع کرنے سے پہلے دو اہم نکات پیش ِنظر رہیں۔ اؤل، ہیروشیما ناگا ساکی کے بعد اگر ایٹمی جنگ کا حقیقی خطرہ پیدا ہوا تو وہ کیوبا میں ہوا جب ’لبرل اسٹ امن کی ملکہ‘ امریکہ کیوبا پر ایٹم بم داغنے لگا تھا (یوکرین جنگ نے بھی ایٹمی خطرے کو ہوا دی ہے)۔ دوم، جب کیوبا کے انقلابی نمیبیا کی آزادی کے لئے جنوبی افریقہ کے خلاف گوریلا مزاحمت منظم کر رہے تھے تو امریکہ نے جنوبی افریقہ کو ایٹم بم فراہم کئے۔ جنوبی افریقہ کے پاس چھ ایٹم بم تھے۔ یہ سرد جنگ کا دور تھا۔ اُن دنوں فیدل کاسترو نے ماسکو سے کہنا تھا کہ ہمیں ایٹمی ٹیکنالوجی دے دو، ایٹم بم کیوبا پہنچ جاتے۔ اس کے باوجود کیوبا نے ایٹم بم یا ایٹمی ہتھیار بنانے کی پالیسی نہیں بنائی۔
’مائی لائف‘ کے عنوان سے شائع ہونے والی کاسترو کی بائیو گرافی کے فرنچ مصنف اگناسیو روما نے، جو ’لی ماند دپلاماتیک‘ کے مدیر بھی تھے، کو اپنے طویل انٹرویو میں بتایا: ”ہم نے کبھی ایٹمی ہتھیار بنانے بارے نہیں سوچا کیونکہ ہمیں ان کی ضرورت ہی نہیں۔ گو ایٹمی ٹیکنالوجی ہماری پہنچ میں تھی لیکن اس کی بھاری قیمت؟ پھر یہ کہ ایٹم بم بنانے کا مقصد کیا ہو گا اگر دشمن (مراد امریکہ) کے پاس ہزاروں ایٹمی ہتھیار ہیں؟“
وجاہت مسعودکا کالم پڑھ کر لگا کہ چے گویرا یا اور کیوبن قیادت کوئی جنونی، یا سیرئیل کلر قسم کے لوگ ہیں جو خون خرابے سے حظ اٹھاتے ہیں۔ مندرجہ بالا بیان پڑھ کر لبرل حضرات شائد حیران ہوں۔ دھیرج رکھئے۔ یہ بیان ابھی جاری ہے۔
کاسترو کا مزید کہنا ہے: ”ہم اس پاگل پن یا حماقت کا شکار ہونے نہیں جا رہے جس کے نتیجے میں ہم بائیولوجیکل ہتھیار بنانا شروع کر دیں۔ ہم نے اپنے لوگوں کو سکھایا ہے کہ ویکسین بنائیں اور بیمار ی اور موت کے خلاف لڑیں۔ ہم نے اپنے سائنس دانوں کو اخلاقیات سکھائی ہیں۔“
بیان ابھی بھی جاری ہے: ”ہم کوئی کیمیائی ہتھیار بھی نہیں بنانے جا رہے۔ ایسے ہتھیاروں کی ٹرانسپورٹ کا کیا بندوبست ہو گا؟ آپ یہ ہتھیار کس کے خلاف استعمال کریں گے؟ امریکی شہریوں کے خلاف؟ نہیں۔ یہ نا انصافی ہو گی، لایعنی بات ہو گی۔ کیا آپ ایٹم بم بنائیں گے؟ اس طرح تو آپ تباہ ہو جائیں گے۔ یہ خود کشی کا بہترین طریقہ ہے: ’حضرات وقت آ گیا ہے کہ ہم اجتماعی خود سوزی کر لیں۔ یہ خود سوزی ایٹم بم کی مدد سے کی جائے گی‘۔“
وجاہت صاحب اپنے کالم میں بضد ہیں کہ چے گویرا ایٹم بم کی مدد سے مخالفین کے چیتھڑے اڑا دینا چاہتے تھے۔ حقیقت یہ ہے کہ جنوبی امریکہ اور افریقہ دو ایسے براعظم ہیں جہاں کوئی ایٹمی قوت موجود نہیں۔ جنوبی افریقہ کی حد تک، کیوبا کا شکر گزار ہونا چاہئے۔ اگر بھٹو کی طرح کاسترو بھی کہتا کہ ”گھاس کھائیں گے، ایٹم بم بنائیں گے“ تو نتائج کا اندازہ لگانا وجاہت مسعود صاحب کے لئے زیادہ مشکل نہ ہو گا۔
وجاہت صاحب نے دعویٰ کر دیا کہ چے گویرا نے چودہ ہزار افراد کو پھانسی کے گھاٹ اتار دیا۔ اس طرح کے الزامات پہلے دن سے انقلاب کیوبا پر لگتے آئے ہیں۔ ’مائی لائف‘ میں کاسترو ان الزامات کا جواب دیتے ہوئے کہتے ہیں: ”(پندرہ سالہ گوریلا جنگ کے دوران) مجھے ایک ایسا کیس بتا دیں کہ جب کسی مخالف کو ٹارچر کیا گیا ہو یا پھانسی لگایا گیا ہو…کسی ایک قیدی کا نام بتا دیں اور میں اپنا منہ ہمیشہ کے لئے بند کر لوں گا“۔ سچ تو یہ ہے کہ کیوبن گوریلے، شدید قلت کے باوجود، قیدیوں کے ساتھ دوائی اور خوراک بانٹتے تھے۔
انقلاب کے بعد باتستا کی فوج کے ٹارچر سیل چلانے والے فوجیوں یا غیر عدالتی قتل کرنے والے فوجیوں کو پھانسی دی گئی۔ ان کی تعداد، جیسا کہ پچھلی قسط میں کہا گیا، پانچ سو سے زائد نہ تھی۔ بعد ازاں، پھانسیوں کا یہ سلسلہ روک دیا گیا (کیوبا کا دعویٰ ہے کہ یہ مقدمات نازیوں کے خلاف قائم کئے گئے نیورمبرگ ٹرائل کے اصولوں پر قائم کئے گئے)۔ اس کے بعد اَسی کی دہائی کے اواخر میں نصف درجن پھانسیاں دی گئیں۔ کیوبا میں پھانسی کی سزا ختم نہیں کی گئی لیکن ٹارچر پر پابندی ہے۔ پنجاب پولیس اور محکمہ زراعت والے ہتھکنڈے ممنوع ہیں۔
راقم پھانسی کی سزا کے خلاف ہے۔ انقلاب روس کے بعد پھانسی کی سزا ختم کی گئی تھی۔ بعد ازاں بحال ہو گئی۔ امید ہے امریکہ سے پہلے کیوبا کی قیادت ملک میں پھانسیوں پر پابندی لگا دے گی۔ پھانسی کیوبا میں لگے یا امریکہ میں، ایران لگائے یا سعودی عرب اور پاکستان، غلط ہے۔ جرائم روکنے کے لئے وحشیانہ سزائیں کام نہیں آتیں۔
یہاں یہ ذکر ایسا غیر ضروری نہیں ہو گا کہ نیشنل انڈاومنٹ فنڈ اور یو ایس ایڈ جیسی این جی اوز لاکھوں ڈالر خرچ کرتی ہیں تا کہ کیوبا کے خلاف پراپیگنڈہ کیا جا سکے جب کہ کیوبن جلا وطن گروپ آئے روز کیوبا پر دہشت گرد حملے کرتے ہیں۔ ایسے حملوں میں ساڑھے تین ہزار سے زائد لوگ ہلاک ہو چکے ہیں۔ دو ہزار سے زائد عمر بھر کے لئے اپاہج ہو گئے۔ اس کے باوجود کیوبا نے کبھی امریکہ کی سر زمین پر دہشت گردی کے لئے کسی کو نہیں بھیجا۔ کاسترو نے تو صدر بش کو مباحثے کے لئے ہوانا آنے کی دعوت دی تھی۔ امریکی صدور کو یہ جرات کبھی نہیں ہوئی۔
آخری بات: گوریلا جنگ اور دہشت گردی میں فرق ہوتاہے۔ اسی طرح مظلوم اور ظالم کے تشدد میں فرق ہوتا ہے۔ وجاہت مسعود صاحب نے تو اپنے کالم میں فرانز فینن کو بھی اسامہ بن لادن بنا کر پیش کر دیا۔
کہیں پر ایک الجزائری مجاہد آزادی کا پڑھا یہ بیان یاد آ رہا ہے جو اس نے ایک صحافی کو اس سوال کے جواب میں دیا کہ الجزائری مزاحمت کار فرنچ قابض فوج کے خلاف خود کش حملے کیوں کر رہے ہیں؟ مجاہد آزادی کا جواب تھا: جب ہمارے پاس ائر فورس ہو گی تو ہم خود کش حملے ترک کر دیں گے۔
گاندھی، جسے لیون ٹراٹسکی نے بجا طور پر ’جھوٹا پیغمبر‘ کہا تھا، جس پر امن جدوجہد کی بات کرتا ہے، سوائے منافقت کے کچھ نہیں۔ کشمیر پر قبضے کی جنگ شروع ہوئی تو گاندھی بھارت کے فوجی ایکشن کی حمایت کر رہا تھا۔ آزادی کے بعد فوج بنانے کا سوال اٹھا تو انڈین نیشنل کانگرس کو، درست طور پر، عدم تشدد کا سارا سبق بھول گیا۔ جب تک سرمایہ داری موجود ہے، سرمایہ دار سیاستدانوں اور دانشوروں کی جانب سے عدم تشدد کی بات عمومی طور پرمنافقت کے سوا کچھ نہیں۔ عدم تشدد مخصوص حالات میں ایک حکمت عملی تو ہو سکتی ہے، حتمی سچ نہیں۔ عمومی طور پر مزاحم کا طریقہ کار مزاحمت کاروں پر جابر قوتیں مسلط کرتی ہیں۔ مارکسزم انفرادی دہشت گردی کے خلاف ہے لیکن گوریلا جدوجہد اور انفرادی دہشت گردی یا ظالم کے تشدد اور مظلوم کے تشدد میں اگر فرق سمجھ نہ آ رہا ہو تو سیاست یا تاریخ پر رائے دینے سے گریز کرنا چاہئے۔
(جاری ہے)
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔