لاہور (جدوجہد رپورٹ) لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض علی چشتی سے متعلق انکشاف ہوا ہے کہ انہوں نے سابق وزیر اعظم پاکستان بے نظیر بھٹو سے بہت تگ و دو کے بعد ملاقات کر کے معافی مانگی اور وہ 1977ء میں بھٹو حکومت گرائے جانے کے وقت بھٹو خاندان کو قتل کرنے کے حامی تھے، تاہم جنرل ضیا الحق نے اس وقت ان کی بات نہیں مانی۔
یہ انکشافات معروف صحافیوں اعزاز سید اور عمر چیمہ نے اپنے ’وی لاگ‘ میں کئے ہیں۔ انکا کہنا تھا کہ ایکس سروس مین تنظیم کے بنیادی رکن اور پیٹرن ان چیف لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض علی چشتی 1977ء میں مارشل لا لگانے والے جرنیلوں میں شامل تھے۔ ضیا دور میں وہ باوردی وزیر رہے اور 4 وزارتیں بھی چلاتے رہے۔
اعزاز سید کا کہناتھا کہ 2007ء میں جب بینظیر بھٹو پاکستان واپس آئیں تو پیپلزپارٹی کے ایک سینیٹر انور بیگ کے ذریعے اسلام آبادمیں لیفٹیننٹ جنرل (ر) فیض علی چشتی نے ان سے ملاقات کی۔ وہ ایک عرصہ سے بینظیر بھٹو کے ساتھ ملاقات کروانے کیلئے سینیٹر انور بیگ پر زور دیتے رہے۔ تاہم پہلے بینظیر بھٹو ان سے ملاقات نہیں کرنا چاہتی تھیں، کیونکہ وہ سمجھتی تھیں کہ جنرل فیض علی چشتی ان کے والد کے قاتلوں میں سے ایک ہیں۔
اعزاز سید کا کہنا تھا کہ ان کے ساتھ گفتگومیں جنرل چشتی نے یہ اعتراف بھی کیا کہ انہوں نے بینظیر بھٹو سے ایک نہیں بلکہ کئی ملاقاتیں کیں۔ انکا کہنا تھا کہ بینظیر بھٹو نے ملاقات کے حوالے سے بتایا تھا کہ جنرل چشتی نے ان سے معافی مانگی اور ساتھ وضاحت بھی کی کہ وہ بھٹو کو پھانسی دینے والے کام میں شامل نہیں تھے۔
تاہم انکا یہ بھی کہنا تھا کہ ماضی میں مخدوم جاوید ہاشمی، جو ضیا دور میں حکومت میں بھی رہے، نے انہیں بتایا تھا کہ جنرل چشتی چاہتے تھے کہ 1977ء کا مارشل لا خون بہائے بغیر نہیں ہونا چاہیے اور بھٹو فیملی کو مار دیا جانا چاہیے۔ جاویدہاشمی نے ایک اورموقع پر بتایا کہ ایک دفعہ جنرل چشتی اور جنرل ضیا الحق کے درمیان گفتگو جاری تھی تو جنرل چشتی نے ضیا الحق سے کہا کہ میں نے آپ سے کہا تھا کہ ان کا علاج کریں، لیکن آپ مانے ہی نہیں۔ جواب میں جنرل ضیا نے کہا کہ میں یہ نہیں مانتا، اگر آئندہ بھی مجھے مارشل لا لگانے کا موقع ملا تو میں وہ بغیر خون بہائے ہیں لگاؤں گا۔