خبریں/تبصرے

افغانستان: 25 لاکھ لڑکیاں سکول سے باہر، 20 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار

لاہور (جدوجہد رپورٹ) اگست 2021ء میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد جماعت ششم سے اوپر کی لڑکیوں کو سکول جانے سے روک دیا گیا تھا۔ مجموعی طور پر 80 سے زائد حکم ناموں میں سے اکثریت خواتین کی سماج میں نمائندگی کو کم کرنے اور ان پر جبر میں اضافے سے متعلق تھے۔ یوں افغانستان کی 25 لاکھ لڑکیاں، یعنی سکول جانے کی عمر کی بچیوں اور نوجوان لڑکیوں کی کل تعداد کا 80 فیصد سکولوں سے باہر ہیں۔

ستمبر 2021ء میں ہی طالبان نے خواتین کے امور کی وزارت کو امر بالمعروف و نہی عن المنکر کی وزارت سے تبدیل کر دیا تھا۔

’الجزیرہ‘ پر شائع ہونے والے یو ایس آئی پی کے اعداد و شمار کے مطابق اگست 2021ء سے طالبان نے 80 سے زائد حکم نامے جارے کئے، جن میں سے اکثر نے افغان خواتین پر طالبان کی گرفت کو مضبوط کیا۔

ان احکامات میں سے کچھ میں لڑکیوں کے سکول بند کرنا، خواتین کی نقل و حرکت کی آزادی کو محدود کرنا اور خواتین کو عوامی سطح پر کام کرنے سے روکنا شامل ہے۔

بین الاقوامی لیبر آرگنائزیشن کے اندازوں کے مطابق اگست 2021ء میں صدر اشرف غنی کی مغرب نواز حکومت کے خاتمے کے بعد سے افغانستان میں خواتین کی ملازمتوں میں ایک چوتھائی کمی واقع ہوئی ہے۔

7 مارچ کو اپنی رپورٹ کے ساتھ ایک بیان میں آئی ایل او کے افغانستان کیلئے سینئر کوآرڈی نیٹر امین بہزاد نے کہا کہ ’لڑکیوں اور خواتین پر پابندیاں ان کی تعلیم اور لیبر مارکیٹ کے امکانات پر شدید اثرات مرتب کرتی ہیں۔‘

گزشتہ سال دسمبر میں طالبان نے ایک حکم نامے میں خواتین کو این جی اوز میں کام کرنے پر پابندی لگا دی تھی۔ یو این او سی ایچ اے کے مطابق ملک میں این جی اوز کی ورک فورس کا 35 سے 45 فیصد حصہ خواتین پر مشتمل ہے۔

گزشتہ سال مئی میں اقوام متحدہ نے اندازہ لگایا تھا کہ خواتین پر پابندیوں سے افغانستان کو ایک ارب ڈالر کا نقصان ہوا ہے، جو ملک کی جی ڈی پی کا تقریباً 5 فیصد بنتا ہے۔

یو این ایچ سی آر کے مطابق کم از کم 2.7 ملین افغان 2021ء میں ملک چھوڑ کر بھاگ گئے، جو دنیا کی تیسری بڑی بے گھر آبادی بن گئے ہیں۔

دیہی اور شہری افغانستان میں خوراک کا عدم تحفظ بلند ترین سطح پر ہے اور ورلڈ فوڈ پروگرام کے مطابق ہر تین میں سے ایک شخص بھوک کا شکار ہے۔ 20 لاکھ بچے غذائی قلت کا شکار ہیں۔

Roznama Jeddojehad
+ posts