خبریں/تبصرے

اقوام متحدہ کی رپورٹ میں پسماندہ ملکوں سے متعلق کچھ اہم حقائق

عمران کامیانہ

اقوامِ متحدہ کے ادارہ برائے تجارت و ترقی کی تازہ رپورٹ کچھ اہم حقائق منظر عام پر لائی ہے جو عالمی سرمایہ دارانہ معیشت کی عمومی زوال پذیری اور بڑھتے ہوئے قرضوں کے پسماندہ اور ترقی پذیر ممالک پہ اثرات کا احاطہ کرتے ہیں۔

پہلا گراف: رپورٹ کے مطابق چین اور دوسرے ترقی پذیر ممالک سمیت عالمی معیشت کی شرح نمو لمبے عرصے میں کمی کا شکار ہے۔ 2003ء سے 2022ء تک عالمی معیشت کی شرح نمو 4 فیصد کی اوسط سے گر کے 1.9 فیصد پہ آ گئی ہے۔ اسی عرصے میں ترقی پذیر معیشتوں کی شرح نمو 5.8 فیصد سے کم ہو کے 1.9 فیصد جبکہ چینی معیشت کی شرح نمو 11.7 فیصد سے 4.5 فیصد پہ آ گئی ہے۔

دوسرا گراف: ترقی پذیر ممالک پر قرضوں کا بوجھ مسلسل بڑھ رہا ہے جس پہ سود کی ادائیگیاں ان ممالک کے پہلے سے قلیل وسائل کو چاٹتی جا رہی ہیں۔ 2022ء میں 81 ترقی پذیر ممالک (علاوہ چین) کے زرِ مبادلہ کے ذخائر میں 241 ارب ڈالر کی کمی ہوئی ہے۔ دنیا بھر میں شرح سود میں حالیہ اضافے سے یہ قرضے پہلے سے کہیں زیادہ مہنگے ہوتے جا رہے ہیں۔ پچھلی ایک دہائی کے دوران قرضوں کی ادائیگیوں کے اخراجات میں صحت اور تعلیم کے اخراجات کی نسبت اضافہ ہوا ہے۔ 2012ء تا 2014ء کے عرصے میں 9 ترقی پذیر ممالک تعلیم سے زیادہ قرضوں کی ادائیگیوں پہ خرچ کر رہے تھے۔ یہ تعداد اب 21 ہو چکی ہے۔ اسی طرح پہلے 34 ممالک صحت سے زیادہ قرضوں کی ادائیگیوں پہ خرچ کر رہے تھے جو اب 62 ہو گئے ہیں!

 

تیسرا گراف: دنیا بھر میں خوراک کی قیمتوں میں اضافہ مہنگائی کی اہم وجہ ہے جس سے خوراک کی تجارت سے وابستہ سرمایہ دار ہوشربا منافعے کما رہے ہیں۔ 2019ء میں ان اجارہ داریوں کا منافع اگر 100 روپے تھا تو آج یہ 168 روپے ہو چکا ہے۔

ایسے میں یہ رپورٹ واضح طور سے مزید معاشی بحران، قلت اور محرومی کی اس سمت کی نشاندہی کرتی ہے جس میں سرمایہ دارانہ نظام پوری دنیا کو اپنے ساتھ گھسیٹتے ہوئے لے جا رہا ہے۔

Imran Kamyana
Website | + posts

عمران کامیانہ گزشتہ کئی سالوں سے انقلابی سیاست اور صحافت سے وابستہ ہیں۔ سیاسی معاشیات اور تاریخ ان کی دلچسپی کے موضوعات ہیں۔