فاروق سلہریا
اس سوال کا جواب دینے سے پہلے دو غلط فہمیوں کا ازالہ ضروری ہے۔
پہلی غلط فہمی
عام طور پر فلمی صنعت سے وابستہ سرمایہ دار یا سوچ سے عاری ہدایت کار،اداکار وغیرہ فارمولا فلموں یا غیر تخلیقی قسم کے ڈراموں کا جواز یہ پیش کرتے ہیں کہ لوگ یہی دیکھنا چاہتے ہیں۔
یہ سراسر جھوٹ ہے۔
آرٹ اور ادب کے ذوق کو جلا بخشنی پڑتی ہے۔انگریزی اصطلاح کے مطابق taste cultivate کرنا ہوتا ہے۔ با ذوق ناظرین وقارئین تب ہی وجود میں آئیں گے جب معیاری آرٹ تخلیق ہو گا۔ کمرشل آرٹ کے پیش نظر محض منافع ہوتا ہے۔انہیں با ذوق آڈینس سے غرض نہیں ہوتی۔
سر مایہ دارانہ منطق کے تحت تخلیقی فلمیں بنانا نہ صرف مہنگا بلکہ خطرے سے خالی نہیں ہوتا۔اگر فلم باکس آفس پر ناکام رہی یا ٹیلی ڈرامہ مطلوبہ ریٹنگز نہ لا سکا تو پیسہ ڈوب جائے گا۔
ذرا پاکستان ٹیلی ویژن (پی ٹی وی) کی مثال لیجئے۔ (کافی حد تک درست طور پر)کہا جاتا ہے کہ ستر اور اسی کی دہائی میں پی ٹی وی پر لازوال ڈرامے پیش کئے گئے۔ اس کی وجہ یہ تھی کی ڈارامہ پیش کرنے کا مقصد آرٹ تھا،ناظرین کی تربیت تھی۔۔۔ منافع نہیں۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ اس طرح کا ڈرامہ آج کسی کمرشل چینل سے پیش کیا جائے تو اسے شائد ہی کوئی دیکھے۔ ان دنوں اچھے ڈراموں کے لئے ایک آڈینس بھی موجود تھی۔ آج کل خلیل الرحمن قمر کے ڈرامے ہی کامیابی حاصل کریں گے(کیونکہ عمومی طور پر بھی سماج میں رائٹ ونگ سوچیں حاوی ہیں جبکہ کلچر عمومی زوال پزیری کا شکار ہے۔رائٹ ونگ سوچوں کے ہوتے عمومی ثقافتی بالیدگی مشکل ہوتی ہے)۔
قصہ مختصر، جب کمرشل میڈیا با ذوق آڈینس تشکیل دینے میں ناکام رہتا ہے تو وہ سفلی آرٹ تخلیق کرنے کے لئے یہ بہانہ بناتا ہے کہ لوگ دیکھنا ہی تشدد اور سیکس یا فارمولا قسم کی فلمیں چاہتے ہیں۔
دوسری غلط فہمی
دوسری اہم غلط فہمی یہ پھیلائی گئی کہ آڈینس بہت سمجھ دار ہوتی ہے۔ اس تھیوری یا نظرئے کو میڈیا سکالر شپ میں آڈینس تھیوری کا نام دیا گیا۔ یہ تھیوری پیش کرنے والے عام طور پر پوسٹ ماڈرنسٹ اور پوسٹ کلونیل سوچ رکھنے والے اکیڈیمکس تھے۔ اس نام نہاد تھیوری کا مقصد میڈیا سامراج بارے تحقیق اور جدوجہد کا توڑ کرنا تھا۔
یہ تھیوری سب سے پہلے، اسرائیل اور امریکہ سے تعلق رکھنے والے دو سکالرز نے پیش کی۔ ان کا کہنا تھا کہ ناظرین جو کچھ اسکرین پر دیکھتے ہیں،لازمی نہیں وہ اس پر یقین بھی کرتے یا رکھتے ہوں۔ گویا اگر امریکی فلمیں دنیا بھر میں دیکھی جاتی ہیں تو اس کو میڈیا یا کلچرل امپیریلزم کا نام نہیں دیا جا سکتا کیونکہ ہالی وڈ فلموں کے ناظرین لازمی نہیں کہ فلموں میں دئیے گئے پیغام کو من و عن قبول کر تے ہیں۔ یہ ایک بے کار تھیوری ہے جس پر آئندہ کبھی تفصیل سے لکھوں گا (کسی حد تک اس کا جواب میری کتاب ’میڈیا امپیریلزم ان انڈیا اینڈ پاکستان‘ میں موجود ہے)۔
فی الحال یہ کہنا کافی ہے کہ یہ تھیوری اس لئے بھی غلط ہے کہ میڈیا کے پاس جتنی طاقت ہوتی ہے وہ آڈینس کے پاس نہیں ہوتی کیونکہ آڈینس افراد میں تقسیم ہوتی ہے جبکہ میڈیا کے پاس ادارہ جاتی اور سٹرکچرل طاقت ہوتی ہے۔فرد اداروں اور سٹرکچرزکا مقابلہ نہیں کر سکتے۔مزید یہ کہ آڈینس کی عام طور پر کوئی میڈیاتربیت نہیں ہوتی۔
سب سے اہم یہ کہ: ممکن ہے ناطرین کسی فلم یا ڈرامے کے پیغام کر رد کر دیں لیکن عام طور پر میڈیا کا پیغام اثر رکھتا ہے۔ اس کا آسان سا ثبوت یہ ہے کہ ہر سال اربوں ڈالر کرمشلز یعنی اشتہارات پر خرچ کئے جاتے ہیں۔
ان دو غلط فہمیوں کے بعد ہم اس سوال کا جواب دے سکتے ہیں کہ کمرشل فلموں میں کامیابی کے لئے تشدد یا سیکس کا سہارا کیوں لیا جاتا ہے؟
تشدد اور سیکس
وجہ یہ ہے کہ سیکس کے مناظر دیکھنے کے لئے یا تشدد دیکھنے کے لئے کسی سوجھ بوجھ،علم اور سیاق و سباق جاننے کی ضرورت نہیں ہے۔
اگر آپ کو کبھی ترجمے کا کام کرنا پڑا ہو تو اندازہ ہو گا کہ شاعری اور لطیفے کو ترجمہ کرنا عام طور پر بہت مشکل ہوتا ہے کیونکہ شاعری اور مذاق سمجھنے کے لئے سیاق و سباق کا جاننا ضروری ہوتا ہے۔بعض اوقات سیاق و سباق سمیت بات دوسری زبان تک پہنچانا مکن ہی نہیں ہوتا۔
جب دسویں جماعت میں غالب کو پڑھایا جاتا ہے توعام طور پر اکثر طالب علم غالب کو بورنگ، مشکل،دقیق، اور نا قابل فہم سمجھ کر یہ سمجھنے سے قاصر رہتے ہیں کہ غالب کو اتنا بڑا شاعر کیوں مانا جاتا ہے۔ شیکسپئیر سے گوئٹے تک، ہر بڑے نام بارے یہ کہا جا سکتا ہے کہ سکول کے طالب علم کو یہ سب بڑے ادیب عام طور پربے معنی سے لگیں گے۔ اس کی وجہ یہ ہے کہ ان کا taste ابھی cultivate نہیں ہوا، ادبی ذوق ابھی پروان نہیں چڑھا۔ ادبی ذوق تب ہی پروان چڑھے گا جب مطالعہ وسیع ہو گا۔ زبان، فلسفے،تاریخ اور سیاست کے علاوہ حالات حاظرہ پر گہری نظر ہو گی۔ گویا سیاق و سباق پر دسترس ہو گی۔
ایک معاشرے میں ایک با ذوق آڈینس تب ہی تشکیل پاتی ہے جب ریاست اور حکمران طبقے عوام کی تعلیم و تربیت کرتے ہیں،جس میں با ذوق،مہذب شہریوں کی تشکیل اہم ترین تعلیمی مقصد ہوتا ہے۔ اس میں وقت لگتا ہے۔توانائی لگتی ہے۔ وسائل خرچ کرنے پڑتے ہیں۔
کمرشل آرٹ دیگر کمرشل وینچرز کی طرح وسائل لوٹنا چاہتا ہے (منافع کی شکل میں)۔ لوٹ کا ایک آسان طریقہ ہے کہ لوگ تشدد،مار دھاڑ اور جنسی مناظر دیکھتے رہیں۔
Farooq Sulehria
فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔