اب خشک زمینوں پہ اگائے گا شجر کون

اب خشک زمینوں پہ اگائے گا شجر کون
برسوں سے کوئی آ س کا سورج نہیں نکلا
رقصِ بسمل کا اہتمام کرو
اس کے نہ کردہ گناہوں کی سزادیتے رہے
ہر حرف سے پھوٹے گی کرن صبحِ جنوں کی
سرگوشیوں کی عادت ڈال لینی چاہیے
اس وادی کے سارے موسم ظالم ہیں
جن کی زبان لمبی ہوتی ہے
بند دروازوں کے تالے جاگیں
جا گو!