”صرف سمولنی انسٹیٹیوٹ سے ہی شروع کے چھ ماہ روزانہ گاڑیاں اور ٹرینیں بھر بھر کر لٹریچر روانہ کیا جاتا تھا جو ملک کو سیراب کرتا تھا۔ روس اس لٹریچر کو ایسے جذب کرتا تھا جیسے گرم ریت پانی کو جذب کرتی ہے“۔
تاریخ
’تاریک ایام‘: عالمی شہرت یافتہ سویڈش مصنف ہینی مانکل کا ڈرامہ اردو میں
آرٹ کو پراپیگنڈہ بنائے بغیر، آرٹ کا تفریحی اور تہذیبی پہلو برقرار رکھتے ہوئے، آرٹ کو اس دنیا کو بدلنے کے لئے استعما ل کیا جا سکتا ہے۔ کیا جا رہا ہے۔ کیا جانا چاہئے۔
’میں نے بھٹو سے کہا تھا مذہب کو اپنے منشور میں شامل مت کرو‘
یاد رہے کہ ایوب آمریت گو ضیا آمریت جتنی بے رحم نہ تھی مگر ملک میں بہت زیادہ جبر تھا۔
طارق عزیز کی تیسری موت
سچ پوچھیں تو طارق عزیز کی موت آج سے کئی برس قبل ہو گئی تھی۔ کل تو ان کی طبعی موت ہوئی جس کا کارن ان کی بیماری تھی۔ کمرشلائزیشن کے ہاتھوں ان کی فنی موت کئی سال پہلے ہی ہو گئی تھی جب ان کے پروگرام نیلام گھر کو بند کر دیا گیا تھا۔ حقیقت تو یہ ہے کہ یہ طارق عزیز کی تیسری موت تھی۔
طارق عزیز سے جڑی ایک یاد
”دیکھتی آنکھوں سنتے کانوں کو میرا سلام پہنچے“!
’میں نے عمران سے کہا تھا سیاست کی بجائے ایکٹنگ کرو‘
میں نے انہیں وارننگ دی کہ پاکستانی سیاست کافی گندی ہے مگر عمران خان کا کہنا تھا کہ وہ تبدیلی لانا چاہتے ہیں۔
سوشلسٹ کیوبا سے سیکھو: سیاہ فاموں کی آزادی انقلاب کے بغیر ممکن نہیں
اقتدار میں آتے ہی فیدیل کاسترو نے سیاہ فاموں کے خلاف امتیاز کا خاتمہ کیا۔ نسل پرستی کے خلاف قانون سازی ہوئی اور سیاہ فاموں کی ترقی کے لیے حکومت نے لٹریسی پروگرامز پر خصوصی توجہ دی۔
جب جنرل صفدر نے ڈاکٹر قدیر سے کہا کہ فلاح انسانیت کے لئے بھی کچھ ایجاد کریں
21 سال گزر گئے میں آج تک منتظر ہوں کہ پاکستان میں کوئی ایسی شے ایجاد ہو جس سے انسانیت کی خدمت کے ساتھ ساتھ روزگار بھی ملے۔
یوسف بلوچ (1938-2020ء)
ان کی شخصیت کا سب سے مسحور کن پہلو یہ تھا کہ وہ ہر دم مسکراتے ہوئے نظر آتے۔ جب تقریر کے لئے اسٹیج پر آتے (اور بلا شبہ ایک بہترین عوامی مقرر تھے) تو یہ مسکراہٹ غائب ہو جاتی۔ ہاتھ ہلا ہلا کر، پر جوش مگر مدلل انداز میں تقریر کرتے۔ مزدور تحریک کا انسا ئیکلوپیڈیا تھے۔
ظلم و جبر کے خلاف لڑائی میں فرجاد ہمیشہ ہمارے ساتھ رہے گا!
وہ عمومی طور پر گلگت بلتستان کے خطے کے باسیوں کے حقوق کی بلند آواز تھا خصوصاً نلتر میں زمین ہتھیانے کے خلاف آواز اٹھانے میں ایک اہم کرادر فرجاد کا تھا۔ فرجاد کا قصور شاید اس کی دھرتی کے ساتھ بے لوث محبت ہے۔