تاریخ


ممتاز صحافی حفیظ ظفر وفات پا گئے

انہوں نے اپنی صحافت کا آغاز ’پاکستان ٹائمز‘ سے کیا (ان کے والد بھی پاکستان ٹائمز سے وابستہ تھے)، پھر وہ روزنامہ ’دی نیشن‘سے وابستہ ہوگئے۔ لگ بھگ بیس سالہ اس وابستگی کے بعد وہ ’دی نیوز‘سے منسلک ہو گئے۔ آخری دس سال وہ گاہے بگاہے بے روزگار رہے یا بے روزگاری مسلسل ایک خوف کا سایہ بن کر اُن کا پیچھا کرتی رہی۔ آخری چند سال، ان کو صحت کے مسائل کا سامنا تھا۔

انقلاب روس کے بعد بالشویک حکومت نے عالمی قرضے واپس کرنے سے انکار کر دیا

شہباز شریف کی موجودہ حکومت آئی ایم ایف سے قرضے کی تازہ قسط پر خوشی سے بغلیں بجا رہی ہے۔ روزنامہ جدوجہد اور مارکس وادی تحریک کا پاکستان میں مسلسل یہ موقف رہا ہے کہ عالمی قرضے واپس دینے سے انکار کیا جائے۔ یہ قرضے عوام کو ادا کرنے ہوتے ہیں اور ان قرضوں کے ہوتے ہوئے پاکستان کبھی بھی ترقی نہیں کر سکتا۔ عالمی قرضوں کے نتیجے میں صرف امیر طبقہ ترقی کرتا ہے۔ دوسری اہم بات یہ ہے کہ ان قرضوں نے کبھی ختم نہیں ہونا، یہ نہ ختم ہونے والا سلسلہ ہے۔ تیسری اہم بات یہ کہ ان قرضوں پر پاکستان شائد اتنا زیادہ سود ادا کر چکا ہے کہ جو شائد اصل رقم سے زیادہ بنتا ہو۔ ویسے ہر غریب ملک کی یہی کہانی ہے۔

ارنسٹ مینڈل کے سو سال: مارکسزم، مزاحمت اور لگن

لجیم کے سوشلسٹ دانشور اور کارکن ارنسٹ مینڈل آج سے ایک سو سال قبل 5 اپریل 1923ء کو پیدا ہوئے تھے۔ مینڈل ایک زبردست انقلابی اور اسکالر تھے، جنہوں نے بیسویں صدی کے دوسرے نصف کے دوران مارکسی نظریہ کی کچھ اہم ترین تصانیف تحریر کیں۔ مینڈل کو آج شاید سب سے زیادہ ان کی کتاب ’لیٹ کیپٹلزم‘ (Late Capitalism) کے لیے یاد کیا جاتا ہے۔ ان کی کتاب سے نکلنے والی یہ اصطلاح اب مقبول عام ہوچکی ہے۔ معروف نقاد فریڈرک جیمسن نے اپنی پوسٹ ماڈرن تھیوری ترتیب دینے کے عمل میں مینڈل کی معاشی تحریروں پر بہت زیادہ توجہ مبذول کی جبکہ’لیٹ کیپیٹلزم‘ ثقافتی تجزیہ کے لیے ایک معروف اور عام فہم صحافتی اصطلاح بن گئی ہے، لیکن ’لیٹ کیپیٹلزم‘ کااہم مقصد سرمایہ داری کے ثقافتی ضمنی اثرات کا تجزیہ کرنے کے بجائے اس کے طاقت کے ڈھانچے کو چیلنج کرنا تھا۔

لائل پور کا پہلا گھنٹہ گھر

عمومی طور پر خیال کیا جاتا ہے کہ فیصل آباد (جس کا پہلا نام لائل پور تھا) گھنٹہ گھر، آٹھ بازاروں اور ٹیکسٹائل انڈسٹری کی وجہ سے معروف ہے…اگرچہ گھنٹہ گھر پنجاب کے دیگر شہروں جیسا کہ ملتان، سیالکوٹ اور سمندری میں بھی تعمیر کیے گئے تھے، لیکن فیصل آباد کے گھنٹہ گھرنے زیادہ شہرت پائی۔

پنجاب کسان تحریک کی مختصر تاریخ

سماجی تحریک کے لئے نظریہ کی بالکل وہی اہمیت ہے جو جسم کے لیے خوراک کی۔ نظریہ جہاں ایک طرف عوام کو بعض عقائد اور اہداف کے لیے متحرک کرتا ہے وہیں دوسری طرف ان کی شناخت اور وضاحت بھی کرتا ہے۔ دوسرے الفاظ میں، کوئی بھی اجتماعی عمل بغیر کسی متعین نظریاتی رجحان کے غیر منظم نظر آتا ہے اور بالآخر غائب ہو جاتا ہے۔ اس کی واضح مثال حال ہی میں پاکستان ڈیموکریٹک موومنٹ کا انجام ہے۔

فیڈل کاسٹرو کو قتل کرنے کی چھ سو سے زیادہ امریکی سازشوں کا انکشاف!

دلچسپ بات یہ ہے کہ امریکہ کی دونوں سیاسی جماعتوں، قدامت پسند رپبلکن اورترقی پسند ڈیموکریٹک پارٹی کے رہنماؤں نے کاسٹرو کو راستے سے ہٹانے کی سازشیں کیں۔ ان میں ڈیموکریٹک پارٹی کے بل کلنٹن اور جمی کارٹر جیسے لبرل صدور بھی شامل ہیں۔ لیکن پہلے افریقی النسل صدر براک وبامہ نے ایسی کوئی سازش نہیں کی بلکہ وہ اپنے دور اقتدار میں کیوبا سے تعلقات بحال کرنے کی کوشش بھی کرتے رہے اور امریکیوں کے لیے کیوبا کی سیاحت اور باہمی تجارت پرکچھ پابندیاں ختم کر دیں۔ بعد میں صدر ڈونلڈ ٹرمپ نے 2019ء میں یہ پابندیا ں دوبارہ لگا کردونوں ملکوں کے درمیان بہتر تعلقات کی تمام کوششوں پر پانی پھیر دیا۔

فادر آف ماڈرن لاہور

سر گنگا رام کی برسی ہر سال بالخصوص لاہوریوں اور بالعموم پنجابیوں کی طرف سے بغیر کسی یادگار کے گزر جاتی ہے۔ اس کی ممکنہ وجہ اگست 1947ء میں برِصغیر کی تقسیم کو قرار دیا جا سکتا ہے، جس نے بھارت اور پاکستان میں ایک مخصوص عقیدے کو جگہ دی اور دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیرو، مخیر حضرات، نیک طبع افراداور انسان دوست شخصیات کو مسترد کر دیا۔

نظریاتی سیاست کاروشن ستارہ، تاج محمد لنگاہ

مسلمہ اصولوں اور نظریات کی بنیاد پر سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنا کوئی معیوب بات نہیں لیکن آج پاکستان میں سیاست گیری کا واحدمقصد اقتدارکے ذریعے ذاتی مفادات کا حصول ہے۔چڑھتے سورج کے پجاری جوق در جوق مقبول پارٹیوں میں شمولیت کے اعلانات کرتے ہیں اور جب یہی پارٹی مسند اقتدار سے اترتی ہے تو سیاسی وفاداریاں تبدیل کرنے میں دیر نہیں لگاتے۔

راجہ پورس: پاکستان میں تاریخ کی اسلامائزیشن کا شکار

اگست 1947ء میں برِصغیر کی تقسیم نے بھارت اور پاکستان میں ملکی و قومی تعمیر میں مذہب کو ایک خاص جگہ دی، جس کی وجہ سے دوسرے مذاہب سے تعلق رکھنے والے ہیرو، مخیر حضرات اور بے نظیر انسانی روحوں کو مسترد کر دیا گیا۔ نتیجتاً ہماری تاریخ، متن اور علمی تصانیف کے صفحات سے بہت سے باصلاحیت اور قابل افراد کو خارج کر دیا گیا ہے۔

یمن کا سوشلسٹ تجربہ عرب دنیا کیلئے ایک سیاسی سنگ میل تھا

کئی وجوہات کی بنا پر آج ’PDRY‘ کے بارے میں بہت کم جانا جاتا ہے۔ 1990ء میں متحد ہو کر پورے یمن پر قبضہ کرنے والی حکومت کی طرف سے ’PDRY‘ کی تاریخ کو چھپانے کی دانستہ کوشش کی گئی اور 1994ء کی مختصر خانہ جنگی کے بعد ’PDRY‘ حکمرانی کے تمام نشانات کو ختم کر دیا تھا۔ مزید برآں، اس خطے کے یمنی باشندوں کی اکثریت جو آج زندہ ہے، اس حکومت کے خاتمے کے بعد پیدا ہوئی۔ وسیع تر تناظر میں بین الاقوامی عالمی نظریات میں ڈرامائی تبدیلیاں آئی ہیں، جنہوں نے سوشلسٹ تجربات کے مثبت پہلوؤں کو ہر جگہ دبا دیا ہے، انہیں شیطانی بنا دیا ہے اور کسی بھی حوالہ کو ان کے انتہائی منفی پہلوؤں پر مرکوز کر دیا ہے۔