1۔ آزادی کے اس ہیرو کے نام پر اس چوک کا نام بھگت سنگھ چوک رکھا جائے۔
2۔ بھگت سنگھ کی جدوجہد کو تعلیمی نصاب میں شامل کیا جائے۔ پاکستان کی نصابی کتابوں میں بھگت سنگھ سمیت آزادی کے بیشتر غیر مسلم ہیروز کا تذکرہ کم ہی ملتا ہے، بھگت سنگھ مذہبی نوجوان نہیں تھا۔ وہ ایک انقلابی نوجوان تھا۔ مذہبی بنیادوں پراس کی انگریز سامراج کے خلاف برصغیر کی آزادی کی جدوجہد کی مخالفت کرنا درست نہیں ہے۔
3۔ بھگت سنگھ بہادری کی ایک درخشان مثال تھا۔ بھگت سنگھ آزادی کا ہیرو ہے، اور اسے پاکستانی حکومت سرکاری طور پر قومی ہیرو تسلیم کرے۔
تاریخ
نسوانی حقوق اور انقلابی جدوجہد!
آج دنیا بھر کی بیشتر خواتین خواہ وہ یورپ، امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتی ہوں، ان کی آزادی ادھوری ہے اورپسماندہ ممالک میں تو عورت کی حالت اذیت ناک اور کئی گنا بدتر ہے۔ کہیں رسموں رواجوں کی آڑ میں اور کہیں ثقافتی روایات کے جبر سے عورت کو تابعدار بنا کر رکھا گیا ہے۔ اجرتوں سے لے کر سماجی رویوں تک ہر شعبے میں مردوں کی نسبت خواتین دوہرے جبر کا شکار ہیں۔ اس بدبودار نظام میں کہیں خواتین کو ہوس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں غیرت کے نام پر قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ کہیں کنویں سے لاشیں برآمد ہو رہی ہیں اور کہیں تیزاب پھینکنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔
جنرل پرویز مشرف: روشن خیال نہ اعتدال پسند
مشرف کی وراثت آئینی حکم کی خلاف ورزی ہے، بلوچستان میں موت اور تباہی کا کھیل ہے، طالبانائزیشن کی وہ فصل ہے، جس کے گرداب میں ملک آج بھی پھنسا ہے اور جھوٹ اور فریب سے بھرا کیریئر ہے۔ میڈیا پر ان کی لاش پاکستان بھیجے جانے کی خبریں ہیں، کراچی میں ان کے تیسرے بڑے اور آخری سفرکی ذلت آمیز داستان رقم ہو رہی ہے۔ ایک سزا یافتہ آمر کے طور پر جو نہ تو لبرل تھا اور نہ ہی اعتدال پسند۔
پاکستانی طالبان سے لڑنے کے لئے فیض احمد فیض کا نسخہ
وفاداری کو یقینی بنانے کے لئے ’نمک حلال‘ ہونے کا پراپیگنڈہ احمقانہ ہے۔ فیض صاحب کا کہنا تھا ”میں نے انہیں بتایا کہ یہ نمک حلال والی بات احمقانہ ہے۔ ہندوستان ان کا اپنا وطن ہے اور وہ اپنی ہی دھرتی کا نمک کھا رہے ہیں۔ یوں ہندوستانی سپاہی کی وفا داری نہیں جیتی جا سکتی۔ ہندستانی سپاہی کو بتانا ہو گا کہ ان کے وطن کو جاپان سے کیا خطرہ لاحق ہے اور اگر ہندوستان پر جاپان نے قبضہ کر لیا تو کیا نتیجہ نکلے گا۔ سپاہیوں کو باور کرانا ہو گا کہ یہ جنگ وہ اپنی دھرتی اور اپنے خاندانوں کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں“۔
بیادِ کامریڈ لطیف آفریدی: مارکسسٹ منارہ نور
لطیف لالا نے انسانی حقوق کے لئے عملی جدوجہد کی۔ جب اَسی کی دہائی میں جسٹس دراب پٹیل مرحوم، عاصمہ جہانگیر اور آئی اے رحمن نے انسانی حقوق کمیشن پاکستان (ایچ آر سی پی) کی بنیاد رکھنے کا فیصلہ کیا تو لطیف لالا نے ان کی بھر پور حمایت کی۔ پاک بھارت عوامی رابطوں میں بھی متحرک رہے۔ 1998ء میں جب پاکستان انڈیا پیپلز فورم فار پیس اینڈ ڈیماکریسی کے 300 مندوب (جن میں آدھے بھارت سے تھے) پشاور اور خیبر ایجنسی آئے تو لطیف لالا نے ان کی میزبانی کی۔ کابل کے افغان قوم پرستوں اور مارکس وادیوں سے بھی ان کا مسلسل رابطہ رہتا۔
لطیف آفریدی مارکسسٹ اور بے آوازوں کی آواز تھے
میں ان کی سوچ اور جدوجہد سے واقفیت رکھتا ہوں کیونکہ ہم نے مل کر قانونی و سیاسی حکمت عملیاں تشکیل دیں، ایک غاصبانہ ریاست سے لڑے، افغانستان اور پشتون خطے میں سٹریٹیجک پالیسی کے خلاف نبرد آزما رہے، ملک میں لاپتہ افراد کی رہائی کے ئے مشترکہ کوششیں کیں، سابق فاٹاکے سیاسی حقوق کے لئے کتنی ہی رکاوٹوں کو اکٹھے عبور کیا، پختونخواہ میں دہشت گردی اور ریڈیکلائزیشن کے حوالے سے ریاست کی ناکام پالیسیوں کے خلاف مل کر آواز اٹھائی اور جمہوریت کے آدرش کی خاطر جدوجہد کی۔
میری زندگی اور میرا عہد: عبد الصمد خان اچکزئی کی سوانح حیات
امید ہے کہ اچکزئی کی سوانح ”میری زندگی اور میرا عہد“ کے بعد صورت حال میں کچھ بہتری آئے گی۔ ان کے صاحب زادے محمد خان اچکزئی نے، جو بلوچستان کے گورنر بھی رہ چکے ہیں، اس کا انگریزی ترجمہ شائع کیا ہے۔ چار حصوں پر پھیلی اس تصنیف میں اس قوم پرست رہنما کی ابتدائی زندگی سے لے کر تعلیم، خاندان، سیاست میں دلچسپی، اسیری کے دن، ان کے اخبارات، سیاسی رفیقو ں کا احوال، دوسری شادی اور آزادی سے جڑے واقعات کا ذکر کیا گیا ہے۔
سو سالہ سرمایہ: مارکس پنجابی میں
1939-1947ء کے دوران سی پی آئی کے ایک ہول ٹائمر مکھن سنگھ (1913-1973ء) نے اپنا وقت مارکس کی ’سرمایہ‘ کے کچھ حصوں کو گورمکھی رسم الخط میں پنجابی میں ترجمہ کرنے میں صرف کیا۔ 1942ء میں سی پی آئی آرگن ’جنگ آزادی‘ کے ایڈیٹر جگجیت سنگھ آنند کو مکھن سنگھ کا ’جدلیاتی مادیت‘ کا پنجابی ترجمہ ملا جو ’داس کیپیٹل‘ میں ایک باب ہے۔ اپنی یادداشت میں جگجیت سنگھ آنند نے مکھن سنگھ کی مارکسی تھیوری پر گہری گرفت کے ساتھ ساتھ پنجابی زبان پر ان کی مہارت کے بارے میں اپنے گہرے تاثرات کو رقم کیا ہے۔ دونوں افراد نے جنگ آزادی کے ادارتی بورڈ میں 1947ء تک کام کیا، اس کے بعد مکھن سنگھ پنجاب سے کینیا چلے گئے۔
راولپنڈی ’سازش‘ کیس (حِصہ دوم)
راولپنڈی سازش کیس کی تفصیلات مقدمہ ختم ہونے کے برسوں بعد تک بھی راز و اَسرار میں لپٹی ہوئی تھیں۔ آہستہ آہستہ یہ باتیں سامنے آنا شروع ہوئیں کہ اصل ’سازش‘ نئی نویلی کمیونسٹ پارٹی آف پاکستان (CPP) پر پابندی لگانا اور ان تمام آوازوں کو خاموش کرنا تھا جو سیاسی آزادی اور کشادہ ذہنیت کا مطالبہ کر رہی تھیں۔یہ تفصیلات جو مقدمے کی کارروائی کے دوران اور بعد میں سامنے آتی رہیں تھیں ان سے الزام تراشی کے اصل مقاصد بھی سامنے آ گئے۔
راولپنڈی ’سازش‘ کیس (حصہ اوّل)
عام لوگ جنہوں نے پاکستان کے قیام کی حمایت کی تھی وہ یہ چاہتے تھے کہ پاکستان ایک آزاد اور جمہوری ریاست ہو جہاں اقلیتوں کے ساتھ ساتھ غریب اور پسماندہ پریشان حال لوگوں کے حقوق کا تحفظ کیا جائے گا۔ بہرحال قیامِ پاکستان کے فوراً بعدخاص کر 1948ء میں قائداعظم کی وفات کے بعد حکومتِ پاکستان ایسے افراد کے ہاتھوں میں آ گئی جو ان تصورات و نظریات کو حقارت کی نظر سے دیکھتے تھے۔