پاکستان


تربت بلیدہ سڑک منصوبہ: تین دہائیوں پر مشتمل کرپشن کی داستان

تقریباً تین دہائیاں گزرنے کے باوجود تربت بلیدہ سڑک کا منصوبہ نامکمل ہے۔ ابھی تک اس سڑک کا کئی بار ‘افتتاح’ ہو چکا ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ بطور آرمی چیف بھی افتتاح کرنے والوں میں شامل ہیں۔ درحقیقت رواں سال جولائی میں بلوچستان اسمبلی نے اپنے بجٹ اجلاس میں ایک بار پھر اس منصوبے کی تعمیر اور بہتری کے لیے 39.19ملین روپے فنڈز کی منظوری دی تھی۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو بلوچستان کے ترقیاتی شعبے میں پھیلی ہوئی کرپشن کی عکاسی کرتی ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی کا ویڈیو سکینڈل

حال ہی میں ایک صبح بی ایس کے داخلے کے دوران دو لڑکیاں اپنی ماں کے ساتھ یونیورسٹی آف بلوچستان میں داخل ہونے کے لیے سریاب روڈ کراس کر رہی تھیں۔ تین لڑکوں نے اپنی گاڑی آہستہ کرتے ہوئے لڑکیوں پر سیٹیاں بجائیں۔ انہیں نظر انداز کرتے ہوئے اور ڈاکٹر پانیزئی کے ان الفاظ کی تصدیق کرتے ہوئے وہ خواتین یونیورسٹی میں داخل ہوگئیں، کہ دھماکے اور تیزاب کے حملے لوگوں اور طالبات کو دوبارہ اسی جگہ جانے سے نہیں روک سکتے۔ تاہم یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ طالبات یونیورسٹی آف بلوچستان میں کلاسیں شروع کرنے کے بعد محفوظ رہیں گی؟

’بلوچ بہار‘ کی خواتین

27 جنوری 2024 کو کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ہزاروں کے مجمع سے خطاب کیا، جس میں مرد اور خواتین شامل تھے اور اکثریت نوجوان طالبعلموں کی تھی۔ حال ہی میں اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف منعقدہ ایک ماہ کے دھرنے سے واپس آنے والی ماہ رنگ نے کہا کہ یہ ’’تحریک نوکنڈی سے لے کر پاروم اور کوہ سلیمان سے مکران تک بلوچ عوام کی آواز تھی۔‘‘

عوامی حقوق تحریک کے متحرک کرداروں کے خلاف مذہب کا بطور ہتھیار استعمال

ریاست عوامی حقوق تحریک کے خلاف مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ محنت کش عوام کو مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصبات میں تقسیم کیا جائے۔آزادی پسند انقلابی قوتوں کی موجودگی محنت کش عوام کو دوبارہ ان تعصبات میں تقسیم کرنا آسان نہیں ہے۔اس ریاست کی جانب سے سب سے پہلے انقلابی قوتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور عوام پر براہئ راست ریاستی جبر کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔محنت کش عوام کے اتحاد اور انقلابی قوتوں کی موجودگی میں محنت کش عوام نے جو حاصلات آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں حاصل کی ہیں،ان کو چھننا ممکن نہیں ہے۔ایک سال بجلی بلوں کا بائیکاٹ جاری رہا اس دوران ریاست کی بجلی کنکشن کاٹنے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔عوام کو منظم کرنے والی ان انقلابی قوتوں کو کافر اور غدار قرار دے کر راستے سے ہٹا دیا گیا تو بجلی مہنگی ہونے کے باجود بل نہ ادا کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جائے گا اور سزائیں دی جائیں گی۔

بلوچستان کا حل سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد نہیں ہے

بائیں بازو کا مطالبہ ہونا چاہئے:
بلوچستان میں فوری طور پر سیز فایر کا فوری اعلان کیا جائے۔
لاپتہ افراد کی بازیابی عمل میں لائی جائے۔
جمہوری سیاسی قوتوں کو مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہئے اور ممکنہ حل میں حق خود ارادیت کو تسلیم کیا جائے۔
یہ تسلیم کیا جائے کہ بلوچستان کے وسائل پر پہلا حق بلوچ کا ہو گا(بلوچ سے مراد بلوچ سردار نہیں ہے)۔
مین اسٹریم میڈیا میں قوم پرست اور ترقی پسند بلوچ آوازوں کو مکالمے کا موقع دیا جائے۔

عمر فاروق کو ہلال امتیاز ناروے میں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کا منہ توڑ جواب ہے!

ستمبر 2013 میں وے گے (VG) نے خبر دی کہ دھوکہ دہی کرنے والے عمر فاروق کو ارب پتی مانا جارہا ہے۔ اس خبر کے ساتھ عمر فاروق کی وینا ملک کے ساتھ تصویر بھی شائع کی گئی(بحوالہ 1)۔
وکی پیڈیا کے مطابق 2013 میں یہ اعلان کیا گیا کہ عمر فاروق نے پاکستانی اداکارہ وینا ملک سے منگنی کر لی ہے۔ اگلے سال وینا ملک کو توہین مذہب کے الزام میں 26 سال قید کی سزا سنائی گئی تاہم اس وقت تک وہ دُبئی فرار ہو چکی ہیں۔ (بحوالہ 2)۔
نومبر 2014 میں روزنامہ ‘وے گے ’نے پاکستان کے روزنامہ ‘ڈان ’کا حوالہ دے کر خبر دی کہ وینا ملک توہین رسالت میں قصور وار ثابت ہوئی ہیں۔ (بحوالہ 3)۔

ہلال امتیاز پانے والا ناروے میں مطلوب ملزم: توشہ خانہ والی مشہور گھڑی خریدنے پر سرکاری نوازشات

2006 میں عمر فاروق نے پاکستانی ماڈل اور اداکارہ صوفیہ مرزا سے شادی کی، ان کی دو جڑواں بیٹیاں پیدا ہیں۔ 2009 میں جب شادی ٹوٹ گئی تو ماں کو جڑواں بچوں کی تحویل میں دے دیا گیا اور اس ڈر سے کہ عمر فاروق بیٹیوں کو پاکستان سے باہر لے جائے گا، بچوں کو ایسے لوگوں کی فہرست میں ڈال دیا گیا جو ملک چھوڑ نہیں سکتے۔ عمر فاروق جعلی پاسپورٹ کا استعمال کرکے بیٹیوں کو پاکستان سے باہر لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ بہرحال بیٹیوں کی تحویل کے حقوق کے سلسلے میں ایک طویل قانونی جنگ جاری رہی۔

حکومت میں فوج کی مداخلت اور عمران خان

پاکستان میں صحت مند سرمایہ دارانہ جمہوری حکومت کا خواب تاحال پایہ تکمیل تک نہیں پہنچ پایا ہے۔ ملکی تاریخ کا ایک بڑا حصہ براہ راست فوجی آمریتوں میں ہی گزرا ہے۔ تاہم جمہوری ادوار میں بھی حکومت سازی اور حکومت چلانے میں فوج کا ایک فیصلہ کن کردار رہا ہے۔ مشرف آمریت کے خاتمے کے بعد2008میں جمہوریت کی بحالی تو ہوئی لیکن فوج ملک میں ایک غالب ادارے کے طور پرہی فیصلہ کن کردار ادا کرتی رہی ہے۔ یہی وجہ ہے کہ آج تک محض دو حکومتیں ہی اپنی مدت پوری کر پائیں ہیں، تاہم کوئی بھی وزیراعظم 5سالہ مدت پوری نہیں کر پایا ہے۔

فیض حمید کا کورٹ مارشل: بڑی پیش رفت میں متعدد پیغامات ہیں!

سابق سربراہ آئی ایس آئی جنرل(ر) فیض حمید کی گرفتاری پاکستان کی سیاسی تاریخ میں ایک غیر معمولی پیش رفت ہے۔ آئی ایس پی آر نے واضح طور پر کہا ہے کہ ریٹارمنٹ سے پہلے اور بعد وہ ایسی سرگرمیوں میں ملوث تھے، جو پاکستان کے مفاد میں نہیں تھیں۔ اس طرح کی صورتحال شاید پہلے کبھی پاکستان کی تاریخ میں پیش نہیں آئی ہے۔ آئی ایس آئی کے کسی سربراہ کو آج تک گرفتار نہیں کیا گیا، بلکہ بہت کم ایسا ہوا ہے کہ پاکستان جرنیلوں کو کرپشن یا کسی اس طرح کے دیگر مقدمات کا سامنا کرنا پڑا ہو۔