پاکستان


جموں کشمیر: عوامی احتجاج کا موجب بننے والا صدارتی آرڈیننس کیا ہے؟

پاکستان کے زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی اجتماعات کے انعقاد کو ریگولیٹ کرنے کے لیے صدارتی آرڈیننس جاری کیا گیا ہے۔ 29اکتوبر کو جاری کیے گئے اس صدارتی آرڈیننس میں عوامی اجتماعات، جلسے، جلوس وغیرہ منعقد کرنے کا عمل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کی پیشگی اجازت سے مشروط کر دیا گیا ہے۔ آرڈیننس کے مطابق کسی فوری مطالبے پر احتجاج کرنے پر تقریباً پابندی ہی عائد کر دی گئی ہے، کیونکہ احتجاج کے لیے 7روز قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو درخواست دینا لازمی ہوگا اور مطالبات بھی 7روز قبل ڈسٹرکٹ مجسٹریٹ کو لکھ کر دینا ہونگے۔ اس کے علاوہ بے شمار ایسی شرائط ہیں، جن کو کوئی بھی مظلوم انسان یا پھر وہ شخص جس کا حق چھینا گیا ہو، اس کے لیے پورا کرنا تقریباً ناممکن ہوگا۔

عوامی طاقت کو توڑنے کے لیے فسطائی ہتھکنڈوں کا استعمال

دہشت گرد تنظیموں کی پشت پناہی ریاستی ادارے کر رہے ہیں۔یہ بات آج بچے بچے کو معلوم ہے۔یہی وجہ ہے کہ موجودہ عہد میں مزاحمتی تحریکوں میں ’یہ جو دہشتگردی ہے،اس کے پیچھے وردی ہے‘ جیسا نعرہ سب سے مقبول ہے۔کالعدم جیش محمد، جماعت الدعوۃاور سپاہ صحابہ جیسی دہشت گرد تنظیموں کے مراکز پنجاب سمیت ملک بھر میں قائم ہیں۔فوجی آپریشن پختون خوا اور بلوچستان میں کیے جا رہے ہیں۔اس مرتبہ ریاست کو فوجی آپریشن کے خلاف پختونخوا میں شدید عوامی مزاحمت کا سامنا ہے۔پختونخوا کے مختلف شہروں میں لاکھوں افراد نے فوجی آپریشن اور طالبان کے خلاف احتجاج کیے ہیں۔

کارپوریٹ فارمنگ کے نام پر مزارعین اور کسانوں کی زمینوں پر قبضے کا سلسلہ

پاکستان بننے کے بعد ان کی زمینوں کو پنجاب سیڈ کارپوریشن اور آرمی کے کنٹرول میں دیا گیا تھا اور وہ تب سے مزارعین کو لوٹا جا رہا ہے۔ انگریزوں سے آزادی کے نام پر پاکستان تو بنا تھا لیکن وہ صرف چند اشرافیہ، فوج اور جاگیرداروں کے لیے تھا۔ مزارعین، کسان، مزدور اور عام لوگ ابھی تک غلامی کی زندگی بسر کر رہے ہیں۔ جب بھی حکومت، فوج اور بیورکریسی کا دل کرتا ہے مزارعین اور کسانوں کو ان کی زمینوں سے بے دخل کردیا جاتا ہے۔

ماحولیاتی تبدیلیوں سے متاثر ہونے والے ہاریوں کے مسائل

جب فصل تیار ہو جاتی ہے تو ہاریوں کو زمیندار فصل کی تیاری پر ہونے والے لاگت کا خرچہ نکال کر فصل کی پیداوار کا آدھا حصہ دیتے ہیں، جو آخر میں ان کے لیے نہ ہونے کے برابر بچتا ہے۔ تاہم گزشتہ کچھ سے سالوں ملک کے اندر رونما ہونے والی ماحولیاتی تبدیلیوں کی وجہ سے ہاریوں کو کچھ بھی نہیں بچ رہا ہے، الٹا وہ قرض دار ہوتے جارہے ہیں۔

صدارتی آرڈیننس: حق مانگنے کا حق بھی ڈی سی کی اجازت سے مشروط

یہ آرڈیننس بنیادی انسانی حقوق سے مغائر ہی نہیں بلکہ سامراجی اور آمرانہ ہے، جس کے خلاف لڑنے کے علاوہ سیاسی قوتوں کے خلاف کوئی راستہ نہیں ہے۔ تاہم یہ بھی واضح ہو چکا ہے کہ اس خطے میں سیاسی، آئینی اور معاشی آزادیوں کے لیے واضح پروگرام اور منشور کی بنیاد پر سیاسی جدوجہد منظم کرنے کی ضرورت پہلے سے کہیں زیادہ شدت سے اپنا اظہار کر رہی ہے۔

انسداد ہراسانی

٭ملک کے تمام تعلیمی اداروں میں طلباء و طالبات کی قیادت میں منتخب’انسدادِ ہراسانی کمیٹیاں‘تشکیل دی جائیں۔
٭یونیورسٹیوں میں ہر کلاس اور سیکشن میں انتخابات کے ذریعے ایک مرد اور ایک خاتون نمائندہ منتخب کیا جائے، جن پر مشتمل ہر ڈپارٹمنٹ میں ایک ’انسدادِ ہراسانی وتفریق کمیٹی‘ تشکیل دی جائے۔
٭ ہر ڈپارٹمنٹ کمیٹی دو نمائندہ طالب علم منتخب کرے، اور اس طرح تمام ڈپارٹمنٹس سے منتخب ان نمائندوں پر مشتمل یونیورسٹی کی مرکزی کمیٹی کا قیام عمل میں لایا جائے۔
٭کالجوں میں یہی عمل 11ویں اور12ویں جماعت کے منتخب طلبہ نمائندوں پر مشتمل کمیٹیوں کی تشکیل کی صورت میں کیا جائے۔

پی آئی اے کی نجکاری کے عمل میں مالی رکاوٹیں اور تنازعات

پاکستان کے معاشی اصلاحات کی کوششوں میں ہونے والے نشیب و فراز کی عکاسی کرتے ہوئے، پاکستان انٹرنیشنل ایئرلائنز (پی آئی اے) کی نجکاری کا عمل نمایاں رکاوٹوں کا شکار ہوا ہے۔ نگراں حکومت کی جانب سے اس نجکاری مہم کا آغاز کیا گیا، جس کی قیادت ریٹائرڈ بیوروکریٹ فواد حسن فواد کر رہے ہیں، جو کہ ایک سابق ڈی ایم جی افسر ہیں اور ان پر قومی احتساب بیورو (نیب) میں مقدمات بھی رہے ہیں۔

نجکاری: حکمران گروہوں کا مکروہ دھندہ

حالیہ آئی ایم ایف پروگرام کی 25ویں شرط کے مطابق پاکستان ایئر لائنز کی نجکاری کو آگے بڑھانے کا حکم دیا گیا تھا۔ آزاد منڈی کی شفاف نجکاری پالیسی میں تمام ممکنہ بولی دہندگان "پراسرار” طور پر غائب ہوگئے، اور یہ عمل اس وقت مذاق بن گیا جب واحد بولی دہندہ کمپنی "بلیو ورلڈ سٹی” نے تین سو ارب روپے کی مالیت کی کمپنی کے 60 فیصد حقوق کی قیمت 10 ارب روپے کی حقیر بولی دے کر طے کی۔ یاد رہے کہ حکومت نے کم سے کم قیمت 85 ارب روپے مقرر کی تھی۔

پوسٹ ٹرتھ، پنجاب کالج کا واقعہ اور عمران خان، مریم نواز کی سیاست

اگر تو یہ واقعہ نہیں ہوا،تو بھی متعلقہ طالبہ دو دفعہ ظلم کا شکار ہوئی۔ ایک مرتبہ سیاست دانوں (مسلم لیگ و تحریک انصاف) کے ہاتھوں،دوسری بار سوشل میڈیا کے ہاتھوں۔
اور اگر یہ واقعہ ہواہے تو متعلقہ طالبہ تین دفعہ ظلم کا شکار ہوئی۔پہلی مرتبہ، سیکیورٹی گارڈ کے ہاتھوں۔دوسری مرتبہ سیاست دانوں (مسلم لیگ و تحریک انصاف) کے ہاتھوں،تیسری بار سوشل میڈیا کے ہاتھوں۔
اگر کسی کا نقصان ہوا تو اس بے گناہ طالبہ کا ہوا، سفید پوش گھروں سے تعلق رکھنے والے طلبہ کا ہوا (جن کی گرفتاریاں ہوئیں،جن پر تشدد ہوا)، اس سیکیورٹی گارڈ کا ہوا جو جان سے گیا اور اس کے پس ماندگان عمر بھر اسے روئیں گے۔