پاکستان

[molongui_author_box]

الیکشن کمپئین، نتائج اور آگے کا لائحہ عمل

پی پی 160 میں حقوق خلق پارٹی نے ایک شاندار انتخابی مہم چلائی جس کو علاقے اور قومی میڈیا پر سراہا گیا۔ لیکن اس بھرپور کیمپین کے نتیجے میں ہمیں صرف 1573 ووٹ ملے جو ہماری محنت کی عکاسی نہیں کرتی۔ آخری دنوں میں ووٹوں کی خرید و فروخت، انتظامیہ کی طرف سے پولنگ ڈے پر دھاندلی، انٹرنیٹ کی بندش اور ہماری الیکشن ڈے کی کمزوری کی وجہ سے بھی ہمارا ووٹ ضائع ہوا۔ لیکن پھر بھی کیمپین کی توانائی اور ووٹوں میں فرق کا حقیقت پر مبنی گہرا سیاسی اور نظریاتی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے پیش نظر ہم باائیں بازو کو آگے بڑھا سکیں۔

بایاں بازو اور الیکشن: انتخابی ناکامی سے بڑی شکست حکمت عملی کا فقدان ہے

پہلی بات: جب تک بایاں بازو ملک بھر میں امیدوار کھڑے نہیں کرے گا،تب تک وہ کوئی ایک حلقہ بھی نہیں جیت سکے گا۔یہ حکمت عملی کہ ہم ایک حلقہ میں چند سماجی کام کر کے الیکشن جیت جائیں گے، احمقانہ حد تک غلط حکمت عملی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ ساری جدوجہد ایک شخص کے گرد گھومنے لگتی ہے۔یوں ایک حد تک بورژوا جماعت اور سوشلسٹ جماعت کا فرق ہی ختم ہو جاتا ہے۔نظریات پیچھے چلے جاتے ہیں۔
بایاں بازو اس وقت تک ابتدائی انتخابی کامیابیاں حاصل نہیں کر سکے گا جب تک وہ ملک بھر میں،ہر حلقے سے امیدوار کھڑے نہیں کرے گا۔ اس صورت میں کہ جب بائیں بازو کو ملک گیر سطح پر چار پانچ فیصد ووٹ پڑے گا، تب ہی دو چارحلقوں سے کامیابی ملے گی۔
اپنی موجودہ تنظیمی شکل میں اس کے اندر یہ سکت نہیں کہ وہ ہر حلقے سے امیدوار بھی کھڑے کر سکے اس لئے ضروری ہے کہ ترقی پسند،سیکولر قوم پرست جماعتوں سے انتخابی اتحاد (جس کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں،مثلا سیٹ ایڈجسٹ منٹ وغیرہ) بنایا جائے۔ قوم پرست پہلے سے اس حیثیت میں ہیں کہ چند نشستیں جیت سکتے ہیں۔ یہ صورت حال قوم پرستوں کے بھی مفاد میں ہے اور بائیں بازو کے لئے بھی سود مند۔ زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں کہ اس پت کئی بار بات ہو چکی ہے۔پاکستان میں بایاں بازو تب ہی طاقتور ہوا جب قوم پرست قوتوں سے اتحاد بنایا گیا۔ اس اتحاد کے لئے یہ بھی ضروری ہے بایاں بازو قوم پرستی بارے لینن وادی موقف اختیار کرے اور اپنی نظریاتی گومگو کو ترک کرے۔

عوام کا ریاستی جبر کیخلاف رد عمل، ایک عوام دشمن حکومت بننے جا رہی ہے

یہ انتخابات بنیادی طور پر آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا اطلاق کرنے والوں، مہنگائی کے ذمہ داروں اور ریاستی جبر کرنے والوں کے خلاف ایک واضح آواز بن کر ابھرے ہیں۔ لوگوں کا رد عمل واضح طور پر ان پالیسیوں کے خلاف ہوا ہے، جو پی ڈی ایم کی حکومت 16ماہ کے دوران نافذ کرتی رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نگران حکومت نے جو فیصلے کئے ہیں، ان سے بالکل واضح نظر آرہا تھا کہ یہ نگران حکومت بھی سابقہ پی ڈی ایم کے ہی معاشی فیصلوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔

5فروری: کیا کھویا، کیا پایا؟

امسال 5فروری کا دن پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کی تاریخ میں اپنی منفرد حیثیت اختیار کر گیا ہے۔ گزشتہ35سال سے یہ دن ’یوم یکجہتی کشمیر‘ کے نام سے منایا جاتا رہا ہے۔ عام ادوار میں انسانی سوچ اور فکر پر جمود طاری ہوتا ہے اور گزشتہ ساڑھے تین عشرے اسی دور کی غمازی کرتے ہیں۔ اس لئے حکمرانوں کی طرف سے ’یوم یکجہتی‘ بلا روک ٹوک منایا جاتا رہا ہے۔ تاہم رواں سال اس دن سے قبل ہی خطہ جموں کشمیر کے اس حصے کے باسیوں نے حکمرانوں کی نفسیات اور طرز فکر کا طلسم توڑ دیا تھا۔ عوامی شعور جب بیداری کی انگڑائی لیتا ہے تو وہ نہ صرف سوچ و فکر کے نئے زاویے تخلیق کرتا ہے، بلکہ حکمرانوں کی طرف سے دیئے گئے ہر نقشِ کہن کو تاریخ کے کوڑے دان کی نظر کر دیتا ہے۔

5فروری: حکمران طبقے کی کشمیریوں سے یکجہتی یا سامراجی عزائم

5فروری ہر سال پاکستان کی جانب سے بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر کے مظلوم عوام کے ساتھ اظہار یکجہتی کے نام پر سرکاری سطح پر منایا جاتا ہے۔14 اگست کی طرح اس دن کومنانے کے لیے بھی بڑے پیمانے پر سرمایہ خرچ کیا جاتا ہے۔میڈیا میں بھرپور تشہیری مہم چلائی جاتی ہے۔پاکستان نواز سیاسی جماعتوں کے علاوہ ان سرکاری اور نیم سرکاری کالعدم مذہبی تنظیموں کے ذریعے مظلوم کشمیری عوام سے اظہار یکجہتی کا ڈھونگ رچایا جاتا ہے،جن کے ہاتھ پاکستان اور جموں کشمیرکے ہزاروں معصوم شہریوں کے خون سے رنگے ہوئے ہیں۔پاکستان کے حکمران طبقے اور فوجی اشرافیہ نے ایک طرف دہشتگردی کے خلاف جنگ کے نام پر ہزاروں پشتونوں کا قتل عام کیا اور ان کو بے گھر کیا،دوسری طرف انہی دہشتگردوں کو مظلوم کشمیریوں کے لیے مسیحا کی طور پر پیش کیاجارہا ہے۔

یوم یکجہتی اور یوم عوامی حقوق کے مابین تصادم اور قیادت کا دوستانہ پیغام

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں گزشتہ8ماہ سے زائد عرصہ سے جاری عوامی حقوق کی تحریک کی قیادت کرنے والی ’جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی‘ نے مطالبات تسلیم نہ ہونے کی صورت 5فروری کو ’یوم عوامی حقوق‘ منانے کیلئے شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتال کا اعلان کر رکھا ہے۔ یہ اعلان جنوری کے پہلے ہفتہ میں کیا گیا تھا، اور اس اعلان کی تجدید 28جنوری کو دوبارہ مظفرآبادمیں منعقدہ اجلاس میں کی گئی ہے۔

5فروری: ریاست کا قصور نہیں معاشرہ ہی اختراعی سوچ سے عاری ہے

اختراع یا انوویشن کا عمل معاشرے میں ترقی کی علامت سمجھا جاتا ہے۔ سماج کے ہر شعبے میں اختراعی عمل کی بہت اہمیت ہوتی ہے۔بالخصوص سرمایہ دارانہ معاشرے میں صنعتی پیداوار اور پھر ڈیمانڈ کی تشکیل کیلئے مارکیٹنگ کیلئے اختراع یا انوویشن کا کردار کلیدی رہا ہے۔ ریاست بھی حکمران طبقے کے مفادات کی ترجمانی کیلئے اختراعی عمل سے گزرتے ہوئے اتنی مہارت حاصل کرتی گئی ہے کہ ایک وقت میں جبر کے آلے کے طور پر کام کرنے والی ریاست نے جبر و تسلط کو اس قدر مخفی کر دیا کہ ریاست ’ماں‘ کہلانے لگی۔ ریاست کا مقصد حالانکہ وہی رہا اور جبر کے آلے کے طور پر کام کرتی رہی ہے۔

سپریم کورٹ جج جرنیلوں سے بھی مہنگے: ماہانہ تنخواہ، الاؤنس 17 لاکھ

گزشتہ سال بطور قائمقام صدر پاکستان صادق سنجرانی نے ایک آرڈیننس جاری کرتے ہوئے سپریم کورٹ کے چیف جسٹس اور ججوں کی تنخواہوں میں اضافہ کیا تھا۔ ’سیلری آف ججز آف سپریم کورٹ آرڈر2023‘ کے مطابق چیف جسٹس کی ماہانہ تنخواہ12لاکھ29ہزار189روپے کی گئی، جبکہ سپریم کورٹ کے ایک جج کی تنخواہ 11لاکھ61ہزار 163روپے ماہانہ مقرر کی گئی۔ یہ آرڈیننس یکم جولائی2023سے نافذ العمل ہے۔

مولانا فضل الرحمن کا ذریعہ معاش…غیبی امداد

جرنیل مشرقی پاکستان میں لاکھوں شہریوں کا قتل عام کر کے آ گئے، ملک توڑ دیا۔۔۔مگر یحیٰی خان کو مرنے پر اکیس توپوں کی سلامی دی گئی۔ کسی بلوچ کو مار کر کسی ویرانے میں پھینک دو۔ کوئی پوچھنے والا نہیں۔ الٹا آواز اٹھاو تو خود غائب ہو جاو۔ عین اسی طرح، ہزاروں لوگ طالبان، سپاہ صحابہ، لشکر طیبہ اور ٹی ایل پی کے ہاتھوں مارے جا چکے ہیں۔ کبھی کسی مولوی کو سزا ہوئی نہ کبھی کسی جتھے کے خلاف کاروائی ہوئی۔بی ایل اے کے خلاف کاروائی کے لئے ایران سے جنگ لڑنی پڑ جائے، لڑ لیں گے لیکن تحریک طالبان پاکستان کے لئے عام معافی ہے۔

شدید سردی میں حکمران جی بی کی عوام کو بھوکا مارنا چاہتے ہیں لیکن ہم لڑیں گے: شبیر مایار

”گلگت بلتستان انتہائی دشوار گزار پہاڑی علاقہ ہے۔حکمران گندم جیسی بنیادی سہولت تک رسائی بھی چھیننا چاہتے ہیں۔ 17روز سے احتجاجی تحریک چل رہی ہے اور سکردو میں منفی 12سے 15درجہ حرارت کی شدیدسردی میں لوگ روزانہ کی بنیاد پر دھرنا دے رہے ہیں لیکن مطالبات کی منظوری کی بجائے شیڈول فورمیں نام کے اندراج کی صورت تحفہ دیا جا رہا ہے۔ حقوق کے حصول کیلئے ہم ہر سطح تک جائیں گے۔“
شبیر مایار کا تعلق بلتستان کے ضلع کھرمنگ سے ہے۔ وہ متحرک ترقی پسند قوم پرست رہنما ہیں اور گلگت بلتستان یونائیٹڈ موومنٹ کے پلیٹ فارم سے سرگرم ہیں۔ گلگت بلتستان میں جاری حالیہ تحریک کی قیادت کرنے والی عوامی ایکشن کمیٹی کا حصہ ہیں اور ضلع کھرمنگ کی قیادت کر رہے ہیں۔