پاکستان

[molongui_author_box]

امہ کی چیمپئین جماعت، جمعیت افغان مہاجرین کو واپس بھیجنے پر چپ

افغانستان میں جاری چالیس سالہ جنگ کو جہاد قرار دے کر تو ان دو جماعتوں نے شائد ہزاروں پاکستانی نوجوانوں کو جہاد کے نام پر ورغلا کر جنت کے سفر پر روانہ کیا (ان دونوں جماعتوں کی قیادت البتہ خود کبھی شہادت کے منصب پر فائز ہونے کے لئے ڈیورنڈ لائن کے اس پار نہیں گئی)۔ افغانستان کے خون خرابے میں اگر سویت روس، امریکہ، سعودی عرب اور پاکستانی ریاست کا کردار شرمناک ہے تو مندرجہ بالا دو جماعتیں بھی افغانستان میں افرا تفری کی ذمہ دار ہیں۔

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں عوامی بغاوت کے 5 ماہ: میڈیا خاموش

اس تحریک کا سب سے اہم اور کامیاب ہتھیار بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ ہے۔ گزشتہ دو ماہ سے بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ کیا جا رہا ہے۔ ماہ اگست میں پونچھ اور میرپورڈویژن میں بجلی کی بلوں کا بائیکاٹ کیا گیا، جبکہ ماہ ستمبر میں مظفرآباد ڈویژن نے بھی بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ شروع کیا۔ مجموعی طور پر 70 فیصد سے زائد بلوں کا بائیکاٹ کیا گیا اور بجلی کے بل شہریوں سے جمع کر کے مختلف شہروں میں نذر آتش بھی کئے گئے اور کچھ شہروں میں بلوں کی کشتیاں بنا کر انہیں دریاؤں میں بہایا گیا۔

ریاست امیر کے لئے ماں جیسی، غریب کے لئے ڈائن جیسی

ان امیر لوگوں کے لئے تو پاکستان ایک فلاحی ریاست بھی ہے اور ریاست ماں جیسی بھی لیکن پاکستان کے غریب شہریوں کے لئے ریاست کسی ڈائن سے کم نہیں۔ اس کا اندازہ لگایا جا سکتا ہے اگر ہم ملک میں موجود سوشل پروٹیکشن یعنی عوامی فلاح کے منصوبوں پر نظر ڈالیں۔

ملک میں صرف 10 فیصد ملازمین کو ریٹائرمنٹ پر پنشن ملتی ہے۔ ان میں بھی اکثریت فوجی و سرکاری ملازمین کی ہے۔ بنیادی پنشن ہر مرد عورت کا حق ہونا چاہئے۔ ایک مخصوص عمر (اس کی حد 65 سال مقرر کی جا سکتی ہے) کے بعد ہر شہری کو پنشن ملنی چاہئے تا کہ وہ بڑھاپے میں بھی، کسی پر بوجھ بنے بغیر، با وقار زندگی گزار سکے۔

جموں کشمیر: عوامی حقوق تحریک کی کال پر لاکھوں بجلی بل نذر آتش و دریا برد

تاجروں، ٹرانسپورٹروں، سول سوسائٹی تنظیموں اور سیاسی جماعتوں کے زیر اہتمام 9 مئی کو یہ تحریک راولاکوٹ سے شروع ہوئی تھی۔ جمعرات کو مسلسل دوسرے ماہ بجلی بلوں کو نذر آتش کیا گیا۔ تاہم مظفر آباد ڈویژن میں یہ پہلا مہینہ تھا، جس میں بجلی بل جمع کروانے سے انکار کیا گیا ہے۔ گزشتہ ماہ ذرائع کے مطابق 30 سے 40 فیصد تک بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ کامیاب ہو سکا تھا۔ تاہم رواں ماہ برقیات کے ذرائع کے مطابق 90 فیصد سے زائد بجلی بلوں کا بائیکاٹ کیا گیا ہے۔

پاکستان کے کان کنوں کی حالت زار پر ایک نظر

پاکستان کے کان کنوں کو روزانہ کی بنیاد پر مشکل اور خطرناک حالات کا سامنا کرنا پڑتا ہے، جو نہ صرف ان کی صحت بلکہ ان کی زندگیوں کو بھی خطرے میں ڈالتے ہیں۔ بہتر حفاظتی اقدامات، بہتر کام کے حالات اور لیبر قوانین کے سخت نفاذ کی فوری ضرورت کو بڑھا چڑھا کر پیش نہیں کیا جا سکتا۔ یہ حکومت، کان کنی کمپنیوں، سول سوسائٹی اور بین الاقوامی تنظیموں کی اجتماعی ذمہ داری ہے کہ وہ دیرپا تبدیلی لائیں اور اس بات کو یقینی بنائیں کہ پاکستان کے کان کنوں کے حقوق اور فلاح و بہبود کا تحفظ کیا جائے۔

ماحولیاتی تبدیلی سے متاثرہ افراد کا ’ماحولیاتی انصاف مارچ‘

گزشتہ جمعہ کو شکارپور میں ہری جدوش کمیٹی اور پاکستان کسان کوآرڈینیشن کمیٹی کی جانب سے سیلاب سے متاثرہ کسانوں اور مزدوروں کی فلاح و بہبود کے لیے تاریخی ماحولیاتی انصاف مارچ کا انعقاد کیا گیا، جس میں دنیا کے امیر ممالک کے وعدوں پر عمل درآمد بھی شامل تھا۔

جلد باز قوم: اتنی جلدی کہ ٹرین کے نیچے آنے پر بھی تیار ہیں

اس معاشرے میں ثقافتی گراؤنٹ کی انتہا یہ ہے کہ لوگ تیزی سے گزرنے کیلئے ٹرین کے نیچے آنے کیلئے تیار ہیں، لیکن مہم جوئی کی حد تک اس تیز رفتاری کی حد یہ ہے کہ شاید چند سو میٹر بعد ان میں سے کئی ایک نے کافی زیادہ وقت کیلئے رکنا ہے۔ گھر پہنچ کر بھی انہوں نے شاید کچھ بھی نہیں کرنا ہو گا۔ پاکستانی معاشرہ وقت پر کوئی بھی ایونٹ منعقد نہ کرپانے والے معاشروں میں سے ایک ہے۔ ہر تقریب کا مہمان ہمیشہ دیر سے پہنچتا ہے، ہر تقریب تاخیر سے شروع ہوتی ہے۔ قومی اسمبلی کے اجلاس سے نچلی سطح تک کا ہر اجلاس مقررہ وقت پر شروع نہیں ہو پاتا، یہاں تک کہ شادی کی تقریب میں دولہا بھی ہمیشہ دیر سے ہی پہنچتا ہے۔ تاہم سڑک پر تیزی اس طور نظر آتی ہے کہ شاید اس قوم سے زیادہ مصروف دنیا کی کوئی اور قوم نہیں ہے۔

کالا باغ لابی نہیں بتائے گی کہ لیبیا میں 2 ڈیم ٹوٹنے سے 20 ہزار افراد ہلاک ہوئے

جس عرصہ میں لیبیا میں ٹوٹنے والے یہ ڈیم تعمیر ہوئے تھے، اسی عرصہ میں جموں کشمیر کے اندر منگلا ڈیم بھی تعمیر کیا گیا تھا۔ اس بھاری بھرکم ڈیم کی 2003ء میں اپ ریزنگ بھی کی گئی اور اس ڈیم میں جب پانی مقررہ حد تک بھر جاتا ہے تو میرپور شہر زلزلوں کی زد میں آجاتا ہے۔ اس کے علاوہ اس ڈیم کے ٹوٹنے کے خطرات بھی موجود ہیں۔ اگر چند سال پہلے کی طرح کوئی ایک زلزلہ بھی آگیا تو منگلا ڈیم نہ صرف میرپور میں بلکہ پنجاب کا اکثریتی علاقوں کے باسیوں کیلئے دیرنا کے باسیوں سے کئی گنا بڑا قہر بنتے دیر نہیں لگائے گا۔

اشرافیہ سالانہ 17 ارب ڈالر کی سبسڈی کیسے ہتھیاتی ہے؟

اعتراض کیا جا سکتا ہے کہ پٹرول اور بجلی پانی پر ٹیکس تو سب پر برابر لگتا ہے۔ امیربھی تو یہ سارے ٹیکس دیتے ہیں۔ اس اعتراض کا جواب یہ ہے کہ ملک ریاض یا جہانگیر ترین، زرداری یا شریف، جنرل اور جاگیردار کی جس قدر اربوں کے لحاظ سے آمدن ہوتی ہے اُس سے انہیں فرق نہیں پڑتا کہ روٹی بیس روپے کی ہے یا بارہ سو کی۔ پندرہ ہزار ماہانہ تنخواہ والا البتہ تیس روپے کی روٹی خریدتے ہوئے دیوالیہ ہو جاتا ہے۔

جرم جہالت کے سزاوار ہیں ہم: ان پڑھ نسلیں اور غربتوں کے دائرے!

ہمارے تعلیمی بحران کے مسائل کا حل دوررس سماجی تبدیلی کے ذریعے ہی نکالا جا سکتا ہے لیکن پاکستان کی غیر تعلیم یافتہ نسل کے بہتر مستقبل کے لیے نئے غیر روایتی منصوبوں کی فوری ضرورت ہے۔ اگر ان لاکھوں نوجوانوں کے مسائل پر توجہ نہ دی گئی تو ان کے سامنے صرف دو راستے ہیں: غربت کے نہ ختم ہونے والے دائر وں کا تسلسل یا جہادی گروہوں میں شمولیت کے امکانات۔ آج کا اہم سوال یہ ہے کہ کیا ہم ان نسلوں کو غربت اور جہالت کے دائروں سے باہر نکال سکتے ہیں؟