پاکستان


بائیں بازو کی تنزلی اور سلمان اکرم راجہ کی خواہشیں

سلمان اکرام راجہ تحریک انصاف کے وکیل ہیں اور پاکستان کے جانے مانے لبرل کہلائے جانے والے وکیل ہیں۔ تحریک انصاف اور سلمان اکرم راجہ دونوں ہی پاکستان میں آئین کی حکمرانی، جمہوریت کی بقاء، بنیادی سیاسی اصولوں، اخلاقیات اور انسانی حقوق وغیرہ پراسی وقت آواز اٹھاتے ہیں، جب انہیں اقتدار سے بے دخل کر دیا جائے۔ صرف وہی نہیں باقی حکمران جماعتیں بھی ایسا ہی کرتی آئی ہیں۔
عمران خان کی سیاست کے آغاز اور تحریک انصاف کے قیام کے پس منظر سے لے کر آج تک کی سیاست کا جائزہ لیا جائے تو غیر جمہوری قوتوں کی مدد اور حمایت حاصل کرنا ہی ہمیشہ ان کی اولین کوشش رہی ہے۔ مشرف آمریت کے خاتمے کے بعد سے اب تک جو کچھ اس جمہوری دور میں آئینی حقوق، آئین کی حکمرانی اور جمہوریت کے ساتھ ہوا ہے، اس میں عمران خان اور تحریک انصاف کا کردار کلیدی تھا۔

جموں کشمیر: کم عمر بچوں کے خلاف بڑھتے ہوئے جنسی جرائم

اس معاشی گراوٹ، سماجی تنزلی، ثقافتی گھٹن اور تعفن سے مستقل نجات کے لئے اس سماج کی تمام تر برائیوں کی وجوہات کو جڑ سے اکھاڑ پھینکنا ہوگا۔ استحصال پر مبنی اس نظام کو جڑ سے اکھاڑ پھینکتے ہوئے ایک حقیقی انسانی سماج کا قیام ہی اس طرح کے مسائل کو مستقل طور پر حل کرنے کا واحد طریقہ ہے۔ آج تک کی معلوم انسانی تاریخ میں جتنا ظلم انسانیت پر ہوا ہے، جتنے پیاروں کی زندگیاں برباد ہوئی ہیں، جتنے لخت جگر ماوں سے بچھڑے ہیں ان کا انتقام اس سرمائے کے نظام کو مٹا کر ہی لیا جا سکتا ہے۔

26 ویں ترمیم جنرل عاصم منیر کی پارلیمان کا جنرل فیض والی عدلیہ کے خلاف فوجی بغاوت ہے

اس ملک میں،تیسری دنیا کے دیگر ممالک کی طرح، سر مایہ دارانہ نظام کے اندر رہ کر جمہوریت نہیں آنے والی۔ اس ملک میں جمہوریت کے قیام کا فریضہ محنت کش طبقہ، سوشلسٹ انقلاب کی صورت ہی سرانجام دے سکتا ہے۔ یہ فریضہ ادا کرنا مشکل کام ہے، اس لئے سوشل میڈیا پر Relevant رہنے،یا اپنے اپنے کیریئر بنانے کے لئے مڈل کلاس دانشور جمہوریت پسندی دکھانے کے لئے حکومت کی مذمت کر رہے ہیں یا پارلیمان کی بالا دستی کی بات کر رہے ہیں۔

پرسشِ غم کون کرے؟

پاکستان کی تاریخ میں، بلکہ تقسیمِ ہند سے اب تک، سیاست کی غلام گردشوں میں عوام کچلے ہوئے خاموش تماشائی ہی تو رہے ہیں۔ پاکستان کی ابتداء سے اب تک ترمیم اور قوانین یہ کہہ کر لائے جاتے ہیں، لائے جاتے رہے ہیں کہ یہ عوام کے لیے ہیں مگر کیا کوئی قانون اب تک عوام کے لیے ان کی منشا سے لا یاگیا بھی ہے؟ ملک میں آئینی ترمیم کے لیے یہ ڈھکوسلا دیا جا رہا ہے کہ یہ جمہوریت کی راہ کو ہموار کرے گا، ملک میں اس کا برگ و بار لائے گا۔ موجودہ دور میں سیاست دانوں کی ابلہ فریبیاں دیکھ کر مجھے ون یونٹ اور اس سے قبل کی سیاسی فضا یاد آ رہی ہے۔

طلبہ کے احتجاج: ہم آ گئے تو گرمی بازار دیکھنا!

یہ اس متروک نظام اور بحران زدہ سماج میں جوان ہونے والی نئی نسل ہے جسے ”Gen Z“ کے نام سے پکارا جاتا ہے اور جس کے بارے میں عام خیال ہے کہ یہ ہمہ وقت موبائل سکرینوں اور سوشل میڈیا میں غرق رہتے ہیں۔ یہ تاثرات ان بوڑھے اور خود کو عقل کل سمجھنے والے دانشوروں کی عقل اور دانش کی فرسودگی کا اظہار ہیں جو اس نسل کے اندر پلنے والے دکھوں اور انقلابی صلاحیتوں سے ناآشنا ہیں۔ یہ نسل سرمایہ داری کے بدترین زوال کی پیداوار ہے۔ یہ وہی نوجوان ہیں جنہوں نے حالیہ عرصے میں لبنان سے لے کے کینیا اور سری لنکا سے لے کے بنگلہ دیش تک انقلابی طوفان برپا کیے ہیں اور اب گزشتہ کچھ دنوں میں پاکستان میں اپنی بغاوت اور غیض و غضب کے اصل رنگ ظاہر کر کے دکھایا ہے کہ وہ کیا ہیں اور کیا کر سکتے ہیں۔

ریپ کیس کی اطلاع جعلی ہو سکتی ہے، طلبہ کا رد عمل حقیقی ہے

پنجاب کے صوبائی دارالحکومت میں ایک پنجاب گروپ آف کالجز کے ایک کیمپس میں رونما ہونے والا مبینہ ریپ واقعہ ایک بار پھر اس مسئلے کی سنگینی کی طرف اشارہ کر رہا ہے۔ تاہم ہمیشہ کی طرح ریاست اور معاشرے کے طاقتور حلقوں کی جانب سے ریپ جیسے سنگین الزام کے سامنے آنے کے بعد معاملے سے نمٹنے کے روایتی ہتھکنڈے سنجیدگی کی کیفیت کو بھی ظاہر کر رہے ہیں۔

سانحہ امر کوٹ: عوام کی جرات، حکمرانوں کی منافقت

یہ بے سبب نہیں ہے کہ امر کوٹ سانحہ میں ایک طرف ٹی ایل پی کے لوگ ملوث تھے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ملاؤں کے ساتھ مل کے قاتلوں کو ہار پہنا رہے تھے۔ جبکہ سندھ کا سیاسی حاکم اور پارٹی کا اکلوتا وارث بلاول بھٹو زرداری اب تک چپ سادھے ہوئے ہے۔ ان سارے حالات نے سندھ حکومت کی ’’ترقی پسندی‘‘ کی حقیقت کو عوام کے سامنے عیاں کر کے رکھ دیا ہے۔ ان حقائق کے تناظر میں ڈاکٹر شاہنواز کے قاتلوں کے خلاف ایک ایف آئی آر کٹنے پر’’سرکاری سندھ‘‘ کو ’’سیکولر‘‘ کہا جانا کتنا مضحکہ خیز ہے۔ یہ گہری سیاسی و نظریاتی گراوٹ بلکہ دیوالیہ پن ہے جس نے ایک بار پھر عوام کے سامنے متبادل کا سوال لا کھڑا کیا ہے۔

پاکستانی آرمی چیف عاصم منیر کا آئی ایس آئی کی بجائے ایم آئی پر بڑھتا انحصار

پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے حال ہی میں لیفٹینٹ جنرل عاصم ملک کو ملک کی اعلیٰ ترین خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو آہستہ سے باہر کر دیا گیا، کیونکہ باس کے پاس انہیں مزید رکھنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ 2024 کے انتخابات کو منظم کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کرنے اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دبانے سے لے کر ابتدائی طور پر عدلیہ کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے آئینی ترمیم کو ’مس ہینڈل‘کرنے تک ندیم انجم،عاصم منیر کے لیے قابل اطمینان کارکردگی نہیں دکھا سکے۔

ریاستی پشت پناہی میں کھوکھلی رجعت

اس غنڈہ گردی کا جواب دینا لازم ہے۔ اس متشدد رحجان کے خلاف مزاحمت ضروری ہے۔ یہ رحجان جو درسگاہوں کو قتل گاہیں بنانے کے اعلان کرتا پھرتا ہے‘اس سے ٹکرانا پڑے گا۔ کیمپس کو زندگانی لوٹانے کے لیے اس رجعت کے سامنے سینہ سپر ہونا ہوگا۔ اسی پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کونسلوں نے کئی بار تاریخ کو الٹ سمت پھیراہے جب ان غنڈوں کو سر چھپانے کو جگہ نہ ملی۔ یہی کچھ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی ہوتا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ کئی بار تشدد سے دفاع اسی زبان میں کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پھر انتظامی آشیر باد کے حامل اس منظم غنڈہ رحجان کا خاتمہ منظم جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔ تمام تر باشعور طلبہ کی جڑت، یکجہتی اور ہم آہنگی سے ہی اس زہرآلود ریاستی آلے کو نیست نابود کیا جا سکتا ہے۔