پاکستان


سانحہ امر کوٹ: عوام کی جرات، حکمرانوں کی منافقت

یہ بے سبب نہیں ہے کہ امر کوٹ سانحہ میں ایک طرف ٹی ایل پی کے لوگ ملوث تھے تو دوسری طرف پیپلز پارٹی کے اراکین اسمبلی ملاؤں کے ساتھ مل کے قاتلوں کو ہار پہنا رہے تھے۔ جبکہ سندھ کا سیاسی حاکم اور پارٹی کا اکلوتا وارث بلاول بھٹو زرداری اب تک چپ سادھے ہوئے ہے۔ ان سارے حالات نے سندھ حکومت کی ’’ترقی پسندی‘‘ کی حقیقت کو عوام کے سامنے عیاں کر کے رکھ دیا ہے۔ ان حقائق کے تناظر میں ڈاکٹر شاہنواز کے قاتلوں کے خلاف ایک ایف آئی آر کٹنے پر’’سرکاری سندھ‘‘ کو ’’سیکولر‘‘ کہا جانا کتنا مضحکہ خیز ہے۔ یہ گہری سیاسی و نظریاتی گراوٹ بلکہ دیوالیہ پن ہے جس نے ایک بار پھر عوام کے سامنے متبادل کا سوال لا کھڑا کیا ہے۔

پاکستانی آرمی چیف عاصم منیر کا آئی ایس آئی کی بجائے ایم آئی پر بڑھتا انحصار

پاکستان کے آرمی چیف جنرل عاصم منیر نے حال ہی میں لیفٹینٹ جنرل عاصم ملک کو ملک کی اعلیٰ ترین خفیہ ایجنسی انٹر سروسز انٹیلی جنس (آئی ایس آئی) کا نیا سربراہ مقرر کیا ہے۔ آئی ایس آئی کے سابق سربراہ لیفٹیننٹ جنرل ندیم انجم کو آہستہ سے باہر کر دیا گیا، کیونکہ باس کے پاس انہیں مزید رکھنے کی کوئی وجہ نہیں تھی۔ 2024 کے انتخابات کو منظم کرنے میں ناکامی کا مظاہرہ کرنے اور سابق وزیر اعظم عمران خان کی بڑھتی ہوئی مقبولیت کو دبانے سے لے کر ابتدائی طور پر عدلیہ کے اختیارات کو کم کرنے کے لیے آئینی ترمیم کو ’مس ہینڈل‘کرنے تک ندیم انجم،عاصم منیر کے لیے قابل اطمینان کارکردگی نہیں دکھا سکے۔

ریاستی پشت پناہی میں کھوکھلی رجعت

اس غنڈہ گردی کا جواب دینا لازم ہے۔ اس متشدد رحجان کے خلاف مزاحمت ضروری ہے۔ یہ رحجان جو درسگاہوں کو قتل گاہیں بنانے کے اعلان کرتا پھرتا ہے‘اس سے ٹکرانا پڑے گا۔ کیمپس کو زندگانی لوٹانے کے لیے اس رجعت کے سامنے سینہ سپر ہونا ہوگا۔ اسی پنجاب یونیورسٹی لاہور میں کونسلوں نے کئی بار تاریخ کو الٹ سمت پھیراہے جب ان غنڈوں کو سر چھپانے کو جگہ نہ ملی۔ یہی کچھ قائداعظم یونیورسٹی اسلام آباد میں بھی ہوتا رہا ہے۔ یہ درست ہے کہ کئی بار تشدد سے دفاع اسی زبان میں کرنا پڑتا ہے۔ لیکن پھر انتظامی آشیر باد کے حامل اس منظم غنڈہ رحجان کا خاتمہ منظم جدوجہد سے ہی ممکن ہے۔ تمام تر باشعور طلبہ کی جڑت، یکجہتی اور ہم آہنگی سے ہی اس زہرآلود ریاستی آلے کو نیست نابود کیا جا سکتا ہے۔

تربت بلیدہ سڑک منصوبہ: تین دہائیوں پر مشتمل کرپشن کی داستان

تقریباً تین دہائیاں گزرنے کے باوجود تربت بلیدہ سڑک کا منصوبہ نامکمل ہے۔ ابھی تک اس سڑک کا کئی بار ‘افتتاح’ ہو چکا ہے، جنرل قمر جاوید باجوہ بطور آرمی چیف بھی افتتاح کرنے والوں میں شامل ہیں۔ درحقیقت رواں سال جولائی میں بلوچستان اسمبلی نے اپنے بجٹ اجلاس میں ایک بار پھر اس منصوبے کی تعمیر اور بہتری کے لیے 39.19ملین روپے فنڈز کی منظوری دی تھی۔ یہ ایک ایسی کہانی ہے جو بلوچستان کے ترقیاتی شعبے میں پھیلی ہوئی کرپشن کی عکاسی کرتی ہے۔

بلوچستان یونیورسٹی کا ویڈیو سکینڈل

حال ہی میں ایک صبح بی ایس کے داخلے کے دوران دو لڑکیاں اپنی ماں کے ساتھ یونیورسٹی آف بلوچستان میں داخل ہونے کے لیے سریاب روڈ کراس کر رہی تھیں۔ تین لڑکوں نے اپنی گاڑی آہستہ کرتے ہوئے لڑکیوں پر سیٹیاں بجائیں۔ انہیں نظر انداز کرتے ہوئے اور ڈاکٹر پانیزئی کے ان الفاظ کی تصدیق کرتے ہوئے وہ خواتین یونیورسٹی میں داخل ہوگئیں، کہ دھماکے اور تیزاب کے حملے لوگوں اور طالبات کو دوبارہ اسی جگہ جانے سے نہیں روک سکتے۔ تاہم یہ سوال ضرور پیدا ہوتا ہے کہ کیا یہ طالبات یونیورسٹی آف بلوچستان میں کلاسیں شروع کرنے کے بعد محفوظ رہیں گی؟

’بلوچ بہار‘ کی خواتین

27 جنوری 2024 کو کوئٹہ میں بلوچ یکجہتی کمیٹی (بی وائی سی) کی رہنما ڈاکٹر ماہ رنگ بلوچ نے ہزاروں کے مجمع سے خطاب کیا، جس میں مرد اور خواتین شامل تھے اور اکثریت نوجوان طالبعلموں کی تھی۔ حال ہی میں اسلام آباد کے نیشنل پریس کلب کے باہر بلوچستان میں جبری گمشدگیوں اور ماورائے عدالت قتل کے خلاف منعقدہ ایک ماہ کے دھرنے سے واپس آنے والی ماہ رنگ نے کہا کہ یہ ’’تحریک نوکنڈی سے لے کر پاروم اور کوہ سلیمان سے مکران تک بلوچ عوام کی آواز تھی۔‘‘

عوامی حقوق تحریک کے متحرک کرداروں کے خلاف مذہب کا بطور ہتھیار استعمال

ریاست عوامی حقوق تحریک کے خلاف مذہب کو بطور ہتھیار استعمال کر رہی ہے۔ایسا اس لیے کیا جا رہا ہے تاکہ محنت کش عوام کو مذہبی، لسانی اور علاقائی تعصبات میں تقسیم کیا جائے۔آزادی پسند انقلابی قوتوں کی موجودگی محنت کش عوام کو دوبارہ ان تعصبات میں تقسیم کرنا آسان نہیں ہے۔اس ریاست کی جانب سے سب سے پہلے انقلابی قوتوں کو نشانہ بنایا جا رہا ہے اور عوام پر براہئ راست ریاستی جبر کا راستہ ہموار کیا جا رہا ہے۔محنت کش عوام کے اتحاد اور انقلابی قوتوں کی موجودگی میں محنت کش عوام نے جو حاصلات آٹے اور بجلی کی قیمتوں میں کمی کی صورت میں حاصل کی ہیں،ان کو چھننا ممکن نہیں ہے۔ایک سال بجلی بلوں کا بائیکاٹ جاری رہا اس دوران ریاست کی بجلی کنکشن کاٹنے کی ہر کوشش ناکام رہی ہے۔عوام کو منظم کرنے والی ان انقلابی قوتوں کو کافر اور غدار قرار دے کر راستے سے ہٹا دیا گیا تو بجلی مہنگی ہونے کے باجود بل نہ ادا کرنے والوں کو جیلوں میں ڈالا جائے گا اور سزائیں دی جائیں گی۔

بلوچستان کا حل سوشل میڈیا پر نفرت انگیز مواد نہیں ہے

بائیں بازو کا مطالبہ ہونا چاہئے:
بلوچستان میں فوری طور پر سیز فایر کا فوری اعلان کیا جائے۔
لاپتہ افراد کی بازیابی عمل میں لائی جائے۔
جمہوری سیاسی قوتوں کو مذاکرات کے ذریعے مسئلہ حل کرنا چاہئے اور ممکنہ حل میں حق خود ارادیت کو تسلیم کیا جائے۔
یہ تسلیم کیا جائے کہ بلوچستان کے وسائل پر پہلا حق بلوچ کا ہو گا(بلوچ سے مراد بلوچ سردار نہیں ہے)۔
مین اسٹریم میڈیا میں قوم پرست اور ترقی پسند بلوچ آوازوں کو مکالمے کا موقع دیا جائے۔

عمر فاروق کو ہلال امتیاز ناروے میں اسلاموفوبیا اور نسل پرستی کا منہ توڑ جواب ہے!

ستمبر 2013 میں وے گے (VG) نے خبر دی کہ دھوکہ دہی کرنے والے عمر فاروق کو ارب پتی مانا جارہا ہے۔ اس خبر کے ساتھ عمر فاروق کی وینا ملک کے ساتھ تصویر بھی شائع کی گئی(بحوالہ 1)۔
وکی پیڈیا کے مطابق 2013 میں یہ اعلان کیا گیا کہ عمر فاروق نے پاکستانی اداکارہ وینا ملک سے منگنی کر لی ہے۔ اگلے سال وینا ملک کو توہین مذہب کے الزام میں 26 سال قید کی سزا سنائی گئی تاہم اس وقت تک وہ دُبئی فرار ہو چکی ہیں۔ (بحوالہ 2)۔
نومبر 2014 میں روزنامہ ‘وے گے ’نے پاکستان کے روزنامہ ‘ڈان ’کا حوالہ دے کر خبر دی کہ وینا ملک توہین رسالت میں قصور وار ثابت ہوئی ہیں۔ (بحوالہ 3)۔

ہلال امتیاز پانے والا ناروے میں مطلوب ملزم: توشہ خانہ والی مشہور گھڑی خریدنے پر سرکاری نوازشات

2006 میں عمر فاروق نے پاکستانی ماڈل اور اداکارہ صوفیہ مرزا سے شادی کی، ان کی دو جڑواں بیٹیاں پیدا ہیں۔ 2009 میں جب شادی ٹوٹ گئی تو ماں کو جڑواں بچوں کی تحویل میں دے دیا گیا اور اس ڈر سے کہ عمر فاروق بیٹیوں کو پاکستان سے باہر لے جائے گا، بچوں کو ایسے لوگوں کی فہرست میں ڈال دیا گیا جو ملک چھوڑ نہیں سکتے۔ عمر فاروق جعلی پاسپورٹ کا استعمال کرکے بیٹیوں کو پاکستان سے باہر لے جانے میں کامیاب ہوگئے۔ بہرحال بیٹیوں کی تحویل کے حقوق کے سلسلے میں ایک طویل قانونی جنگ جاری رہی۔