فیضؔ صاحب کی اچانک وفات پر ملک کے گوشے گوشے میں اور دوسرے ملکوں میں بھی جس گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا وہ ان کے دشمنوں کے لیے باعث ِ حیرت ہو تو ہو، عام لوگوں کے لیے ہرگز نہیں ہے۔

فیضؔ صاحب کی اچانک وفات پر ملک کے گوشے گوشے میں اور دوسرے ملکوں میں بھی جس گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا وہ ان کے دشمنوں کے لیے باعث ِ حیرت ہو تو ہو، عام لوگوں کے لیے ہرگز نہیں ہے۔
فیض صاحب، اگر جوش گفتگو میں گاہے گاہے مجھ سے زیادتیاں ہوگئی ہوں تو مجھے معاف کر دیجئے۔ میں نے آپ سے اتنی ہی محبت کی جتنی دوسروں نے کی مگر میں ”اپنا آدمی“ بھی ہوں اور آج آپ سے آخری فرمائش کرنے آیا ہوں۔ ذرا ”نسیم صبح چمن“ سے کہہ دیجئے کہ میرے گھر میں، جہاں آپ کے سانسوں کی خوشبو بسی ہوئی ہے وہاں ”یادوں سے معطر“ تو آئے مگر ”اشکوں سے منور“ نہ جائے۔
فیض کی طرز فغاں آج ہماری روایت کا حصہ ہے۔ ہماری شعری تاریخ کا ایک قصہ ہے۔ جو اپنے عہد میں بھی مقبول تھی اور اب بھی کئی جانے پہچانے شاعروں کی آوازوں میں اس کے رنگ و آہنگ کو دیکھا جاسکتا ہے۔
فیض نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا یہ تنخواہ بہت زیادہ ہے۔ انہیں صرف اٹھارہ سو روپے ماہوار چاہئیں، بحث اس بات پر ہورہی تھی۔
”دریچہ“ دنیا کی تمام قید و بند کے درمیان امید کی روشنی اور رجائیت کی ایک سبیل ہے۔
فیض صاحب سنجیدہ صفت انسان تھے مگر ان کی سنجیدگی میں بھی ایک عجیب طرح کی خوشگواری اور آسودگی محسوس ہوتی تھی۔