Day: نومبر 20، 2023


مارکس: ’سیاسی تحریک اور معاشی جدوجہد کا فرق‘

دوسری جانب، آٹھ گھنٹے کام وغیرہ کے لئے چلنے والی تحریک کو قانونی شکل دینا ایک سیاسی تحریک کے مترادف ہے۔ اس طرح سے علیحدہ علیحدہ معاشی جدوجہدوں کے بطن سے ہر جگہ ایک سیاسی تحریک جنم لیتی ہے،یعنی، طبقاتی تحریک پیدا ہوتی ہے،جس کا مقصد ہوتا ہے اپنے مفادات کو عمومی شکل میں لاگو کرنا، ایک ایسی شکل میں لاگو کرنا جو عمومی بھی ہو اور سماجی طور پر طاقت کی حامل بھی ہو۔

آئی ایم ایف کی دوسری قسط کیلئے 4 بڑے اداروں کی نجکاری پر اتفاق

سی اے ڈی ٹی ایم کی رپورٹ کے مطابق 700ملین ڈالر کی دوسری قسط کے پہلے جائزے کے اختتام پر پاکستان نے 4مزید سرکاری اداروں کی نجکاری کرنے پر اتفاق کیا گیا ہے۔ ان 4ریاستی فرموں میں نیشنل ہائی وے اتھارٹی، پاکستان نیشنل شپنگ کارپوریشن، پاکستان براڈ کاسٹنگ کارپوریشن اور پاکستان پوسٹ شامل ہیں۔
آئی ایم ایف نے یہ مطالبہ بھی کیا ہے کہ معاہدے کے مطابق203سرکاری کمپنیوں کو وزارتوں سے ہٹا کر وزارت خزانہ کے ماتحت رکھا جائے۔
واضح رہے کہ آئی ایم ایف کے اس پیکج کی پہلی قسط کی وصولی کیلئے بجلی اور گیس کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافے سمیت پٹرولیم ڈویلپمنٹ لیوی میں بھی اضافہ کیا گیا تھا۔ اس کے علاوہ آئی ایم ایف کی دیگر شرائط پر بھی عمل درآمد کیا گیا تھا، جس کی وجہ سے پٹرول کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ ہوا۔ بجلی، گیس،تیل اور اشیائے خورونوش عوام کی پہنچ سے دور ہو چکی ہیں۔

گلگت بلتستان کے لوگ کس قانون کے تحت گندم پر سبسڈی کا حق مانگتے ہیں؟

درحقیت جب گلگت بلتستان میں ایف سی آر کے کالے قانون کے خلاف گلگت بلتستان کے وکلاء کی قیادت میں تحریک چلائی گئی تو اس کے نتیجے میں 1972 کے بعد ذوالفقار علی بھٹو نے گلگت بلتستان کو سبسڈی دینے کا حکم دیا تھا،جس کی بنیادی وجہ علاقے کی پسماندگی تھی۔اسی کی وجہ 1947 سے 1973 تک یہاں ایف سی آر کے کالے قانون کا نفاذ تھا۔ گلگت بلتستان کے عوام کے تمام تر بنیادی انسانی جمہوری سیاسی معاشی حقوق غصب ہوئے تھے، کوئی سکول، کالج، یونیورسٹی، ہسپتال قائم نہیں کئے گئے،نہ عدالتی نظام تھا،نہ ہی اس خطے میں الیکشن ہوتے تھے۔یہاں تک کہ خطے کی شناخت بھی ختم کرکے نادرن ایریاز کا نام دیا گیا۔

فیض کی 39 ویں برسی: ’گلوں میں رنگ بھرے…‘ رقص کی شکل میں

یہ رقص گذشتہ سال اوسلو میں سٹیج کئے گئے تھیٹر ڈرامے ’سو فیصد‘ (Hundre%)میں شامل کیا گیا تھا۔ ’سو فیصد‘ کے لئے اس غزل کو عدیل برکی اور روہینی ساہجپال نے گایا تھا۔ اس غزل کے لئے موسیقی انگری کھندم نے ترتیب دی تھی۔ ’سو فیصد‘ کو تھیٹر ڈرامے کی شکل میں پاکستانی نژاد نارویجن ہدایت کار و اداکار ٹونی عثمان نے پیش کیا تھا۔

میں نے جو نیا کیا وہ یہ ثابت کرنا تھا کہ…

جہاں تک میری ذات کا تعلق ہے، جدید معاشرے میں طبقوں کے وجود یا ان کے مابین جدوجہد بارے دریافت کرنے کا سہرا کسی صورت میرے سر نہیں باندھا جا سکتا۔ مجھ سے بہت پہلے بورژوا تاریخ دان اس طبقاتی جدوجہد کے تاریخی ارتقا جبکہ بورژوا معیشیت دان طبقوں کی معاشی بنت بارے بیان کر چکے تھے۔