دنیا

’کابل کے قصاب‘ کو اسلام آباد میں ویلکم

فاروق سلہریا

2007ء کی بات ہے جب میں پہلی بار کابل یونیورسٹی گیا۔ یونیورسٹی کے خوبصورت کیمپس میں جمال الدین افغانی کا سادہ سا مزار بھی آج تک یاد ہے اور ایک چھوٹا سے اشتہار جو جا بجا لا فیکلٹی میں دیواروں پر چسپاں تھا۔

دری زبان میں لکھے اس اشتہار میں سیدال سخندان کو خراجِ عقیدت پیش کیا گیا تھا۔ سیدال سخندان شہید کی تصویر بھی اشتہار کا حصہ تھی۔ جس قدر شاعرانہ نام تھا، اسی قدر تصویر میں نظر آنے والا نوجوان خوش شکل تھا۔

میں نے سیدال سخندان کا نام پہلے کبھی نہیں سنا تھا۔کون تھا یہ سیدال سخندان؟ میں نے اپنے دوست سے پوچھا جو گائڈ کے فرائض بھی سر انجام دے رہا تھا۔

معلوم ہوا سیدال سخندان ماو نواز طالب علم رہنما تھا جسے ستر کی دہائی میں کیمپس پر، دن دیہاڑے، گلبدین حکمت یار نامی ایک بنیاد پرست طالب علم نے خنجر کے وار سے شہید کر دیا۔

سیدال سخندان کا قاتل پاکستان فرار ہو گیا جہاں اسے بھٹو نے پناہ دی۔ بھٹو صاحب کابل کے خلاف گوریلا شورش کو ہوا دینا چاہتے تھے۔ حکمت یار جیسے مہرے اس کام کے لئے بہت موزوں تھے۔ چند سال بعد جب سوویت فوج اور سی آئی اے نے افغانستان کو پراکسی میدان جنگ بنا دیا تو حکمت یار کی چاندی ہو گئی۔

ایک تو وہ پہلے سے آئی ایس آئی کے رابطے میں تھا، بھروسے کا آدمی تھا۔ دوسرا مذہبی جنونی، نظریاتی لحاظ سے جماعت اسلامی کا افغان کزن۔ جماعت اسلامی ضیا آمریت کی بی ٹیم تھی۔ یوں سی آئی اے، سعودی عرب اور پاکستان کامشترکہ’ہیرو‘حکمت یار قرار پایا۔

اگر کبھی موقع ملے تو اَسی کی دہائی میں شائع ہونے والے نوائے وقت اور جسارت کی افغان کوریج دیکھئے گا یا دائیں بازو کے میگزین جو مجیب الرحمن شامی اور صلا ح الدین جیسے مدیروں کی زیر ادارت شائع ہوتے تھے، ان کے صفحات دیکھئے گا۔ جو مقام ان دنوں طالبان کوحاصل ہے، ان دنوں حکمت یار کو حاصل تھا۔

جب سوویت افواج کی واپسی ہوئی (اور بے نظیر پہلی دفعی حکومت میں آئیں) تو طمطراق کے ساتھ آپریشن جلال آباد شروع کیا گیا۔ بتایا گیا کہ حکمت یار کی قیادت میں افغانستان کو آخر کار ’مجاہدین‘ فتح کر نے جا رہے ہیں۔ حکمت یار کی پشت پر دنیا کے سب سے بہادر، زیرک اور جانباز جرنیل، جنرل حمید گل (جو ان دنوں آئی ایس آئی کے سربراہ تھے) کھڑے تھے۔

حکمت یار کی بہادر افواج کا انجام وہی ہوا جو نازی افواج کا سوویت روس پہنچ کر ہوا تھا۔ حکمت عملی بدلی گئی۔ افغان حکومت کے جرنیل خریدے گئے۔ نئے سرے سے صف آرائی ہوئی۔ خون خرابے سے بچنے کے لئے ڈاکٹر نجیب نے اقتدار چھوڑ دیا۔ حکمت یار اور احمد شاہ مسعود کے دستوں نے کابل پر قبضے کی جنگ شروع کر دی۔ اسلام آباد اور جماعت اسلامی حکمت یار کی پشت پر کھڑے رہے۔

سیدال سخندان کے قاتل نے خون تو بہت بہایا۔ احمد شاہ مسعود کے ساتھ مل کر کابل کی اینٹ سے اینٹ بجا دی۔ خواتین اغوا ہوئیں۔ جنسی ہوس مٹانے کے لئے بچے اٹھا لئے گئے…لیکن حکمت یار کابل فتح نہ کر سکا۔

اسی دوران، دیکھتے ہی دیکھتے کابل شہر ملبہ اور انسانیت ایک جنازہ بن گئی۔ 1992ء سے لے کر 1996ء تک ’مجاہدین‘ نے جو انسانیت سوز مظالم ڈھائے، حکمت یار اس ظلم میں پیش پیش تھا، اس کے بعد حکمت یار کو’کابل کے قصاب‘ کا خطاب ملا۔

اگر گیارہ ستمبر کے بعد سامراج نے افغانستان کو کالونی نہ بنایا ہوتا اور ایک عوام دوست حکومت وجود میں آئی ہوتی تو حکمت یار (اور دیگر جنگی سالار) انسانیت کے خلاف جرائم کے الزام میں عمر قید کی سزا کاٹ رہا ہوتا۔

افغانستان اورپاکستان کے معصوم شہریوں کی بدقسمتی کہ افغانستان میں حکمت یار امریکہ کے مسلط کردہ سیاسی نظام کا معزز حصہ ہے اور ان دنوں وہ پاکستان کا سرکاری مہمان ہے۔

ایسا کیوں ہے کہ ہر وحشی جس نے افغان خون سے ہاتھ رنگے، اسے اسلام آباد میں خوش آمدید کہا جاتا ہے؟ افسوس یہ سوال نہ مین سٹریم میڈیا میں اٹھایا جاتا ہے نہ کوئی بڑی سیاسی جماعت یہ سوال کرتی ہے (کیونکہ مسلم لیگ ہو یا پیپلز پارٹی، خارجہ پالیسی سب کی ایک ہے)۔

چند روز پہلے سرکاری شادیانے بجائے جا رہے تھے کہ پاکستان اقوام متحدہ میں انسانی حقوق کونسل کا رکن منتخب ہو گیا ہے۔ اس کونسل کا رکن کس منہ کے ساتھ حکمت یار اور طالبان کو گلے ملتا ہے؟ ان سوالوں کا جواب تو شاہ محمود قریشی ہی دے سکتے ہیں۔

پاکستان میں بایاں بازوروز اول سے افغانستان میں پاکستانی مداخلت کے خلاف رہا ہے۔ ترقی پسند حلقے اَسی کی دہائی سے کہتے چلے آئے ہیں کہ جو آگ کابل میں لگائی جائے گی، اس کا دھواں پاکستان سے اٹھے گا۔ یہ پرسپیکٹو بار بار درست ثابت ہوا۔

اگر اسلام آباد بلا کر کسی کو گلے ملنا ہے تو افغانستان کے قصابوں کو نہیں، انسانی حقوق کے کارکنوں کو دعوت دیجئے۔ افغانستان میں تذویراتی گہرائی تلاش کرنے کی بجائے، تذویراتی دوستی تلاش کرنے کی ضرورت ہے۔ افغانستان کی تخریب میں نہیں، تعمیر میں حصہ لیجئے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔