پاکستان

آکسفورڈ کرونا ویکسین بنا رہی ہے، ہزارہ یونیورسٹی ڈریس کوڈ

فاروق سلہریا

دنیا کرونا کی لپیٹ میں ہے۔ اس آفت سے نپٹنے کے لئے اب دنیا بھر کی نظریں کرونا ویکسین پر ہیں۔ کئی ممالک نے ویکسین تیار کر لی ہے۔ مثال کے طور پر ایک اہم ویکسین آکسفورڈ یونیورسٹی کے جینر انسٹی ٹیوٹ اور ’آکسفورڈ ویکسین گروپ‘نے آسٹرا زینیکا کے ساتھ مل کر تیار کی ہے۔

اس ویکسین کی وجہ سے آکسفورڈ یونیورسٹی مسلسل خبروں میں ہے۔

جلد یا بدیر یہ ویکسین پاکستان کے صوبہ خیبر پختونخواہ میں بھی دستیاب ہو گی۔ توقع کی جا سکتی ہے کہ صوبے کی ایک اہم یونیورسٹی ’جامعہ ہزارہ‘ کے وائس چانسلر بھی اس سے مستفید ہوں گے۔

معلوم نہیں آکسفورڈ ویکسین کا شاٹ لگواتے وقت ہزارہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر صاحب کو یہ خیال ستائے گا یا نہیں کہ ان کی یونیورسٹی میں سائنس کے 14 شعبے ہیں مگر ویکسین تو کیا ان کی یونیورسٹی کرونا وبا پر کوئی تحقیقی مقالہ بھی شائع نہ کر سکی۔ کل میں نے ہزارہ یونیورسٹی کی ویب سائٹ کو توجہ سے دیکھا۔ یونیورسٹی تین جرنل شائع کرتی ہے۔ ایک اردو ادب بارے، دوسرا آرکیالوجی اور تیسرا اسلام کے موضوع پر۔ جس یونیورسٹی میں سائنس کے 14 شعبے ایک جرنل نہ شائع کر سکیں وہاں کرونا کی ویکسین تو کیا ویکیسن دینے کے لئے ٹیکہ بھی نہیں بن سکتا۔

مجھے معلوم ہے کہ بعض قارئین آکسفورڈ اور ہزارہ کے موازنے پر جز بز ہو رہے ہوں گے۔ اتنا پورے ایچ ای سی کا بجٹ نہیں جتنا آکسفورڈ یونیورسٹی کے محض ایک کالج کا ہو گا۔ درست۔

چلئے آکسفورڈ یا سامراجی ممالک کی ایلیٹ یونیورسٹیوں کا موازنہ نہیں کرتے۔ کیوبا کی بات کر لیتے ہیں۔ کیوبا کرونا سے نپٹنے کے لئے چار ویکسین تیار کر رہا ہے۔

کیوبا کو بھی چھوڑئیے۔ پڑوسی ملک بھارت میں مقامی ویکسین تیار کر لی گئی ہے۔ بھارتی حکومت نے آکسفورڈ یونیورسٹی کی تیار کردہ ویکسین کی منظوری بھی دی ہے اور مقامی کمپنی ’بھارت بائیو ٹیک‘ کی تیار کردہ ویکسین کی بھی۔ ’بھارت بائیو ٹیک‘ کی مدد سے ’دشمن ملک‘ میں ویکسینیشن کا عمل شروع بھی ہو چکا۔ کیوبا اور بھارت ہی نہیں نائجیریا اور میکسیکو جیسے ممالک نے بھی مقامی سطح پر ویکسین تیار کرنے کے ارادے ظاہر کئے ہیں۔

جب کیوبا سے آکسفورڈ تک اور نائجیریا سے ہندوستان تک، وہاں کے اہل علم اور جامعات میں کرونا کی ویکسین بارے تحقیق ہو رہی تھی پاکستان کے ایک مدبر اور نابغہ روزگار وائس چانسلر اپنے طلبہ کے لئے ڈریس کوڈ پر غور و فکر کرنے میں مصروف تھے۔

اس تحقیق کے بعد وہ اس نتیجے پر پہنچے کہ لڑکیوں کو یونیورسٹی حجاب اوڑھ کر آنا چاہئے جبکہ لڑکوں کو ٹائٹ جینز سے اجتناب برتنا چاہئے۔ اس ڈریس کوڈ کے نتیجے میں ہزارہ یونیورسٹی دنیا کی سو بہترین یونیورسٹیوں میں کیسے شامل ہو گی، اس کی وضاحت تو نہیں کی گئی مگر صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کا کہنا ہے کہ اس ڈریس کوڈ کا مقصد طبقاتی تفریق ختم کرنا ہے۔

یقین کیجئے صوبائی حکومت کی وضاحت پڑھ کر مجھے دنیا بھر کے مارکس وادیوں پر ترس آیا جو سامراج، سرمایہ داری، نیو لبرلزم اور ڈبلیو ٹی او وغیرہ کے خلاف جدوجہد کر رہے ہیں تا کہ طبقاتی تفریق ختم ہو سکے حالانکہ یہ آسان سا کام ڈریس کوڈ کے ذریعے کیا جا سکتا ہے۔

ہزارہ یونیورسٹی کے وائس چانسلر اور صوبہ خیبر پختونخواہ کی حکومت کو لال سلام لال سلام۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔