علی مدیح ہاشمی
23 مارچ کا دن تھا۔ میں گھر میں فارغ بیٹھا سوشل میڈیا کھنگال رہا تھا۔ ایک تصویر دیکھ کر میں ٹھٹھک گیا۔ تصویر میں نظر آنے والی بدحال لڑکی ایک جل بجھی عمارت میں کچھ ڈھونڈھ رہی تھی۔ تصویر کے کیپشن کے مطابق اس لڑکی کا تعلق کراچی کی ایک کچی بستی سے تھا جو آگ میں جل کر راکھ کا ڈھیر بن گئی تھی۔ لڑکی نے جو قمیض پہن رکھی تھی وہ شلوار سے میل نہیں کھاتی تھی۔ بال کھچڑی بنے ہوئے تھے۔اداس اور غم سے پتھر بنی یہ لڑکی ایک ٹرنک میں چیزیں تلاش کر رہی تھی اور غالباََ اسے تلاش تھی اس گڑیا جیسی دکھائی دینے والی چیز کی جو جل چکی تھی اور اس نے ہاتھ میں تھام رکھی تھی۔
تصویر دیکھ کر میں کچھ دیر اس پرنظریں جمائے بیٹھا رہا۔ کئی طرح کے خیال ذہن میں آ رہے تھے۔پھر میں نے یہ تصویر ڈاون لوڈ کی۔ ایسے میں مجھے ایک اور تصویر نظر آئی جس میں دیکھا جا سکتا ہے کہ پاکستان ملٹری پریڈ کر رہی ہے اور ایک میزائل لانچر کے گرد دو انتہائی چست باوردی فوجی کھڑے ہیں۔ میں نے یہ دونوں تصاویر ایکدوسرے کے مد مقابل رکھ کر ٹوئٹر پر پوسٹ کر دیں۔ نیچے میں نے فیض احمد فیض کا یہ مصرعہ بطور کیپشن لکھ دیا: ’نثار میں تیری گلیوں کے اے وطن کہ جہاں‘۔
سوشل میڈیا پر کی جانے والی اس اشتعال انگیزی کا اصل میں مقصد یہ تھا کہ لوگ بطور قوم ہماری ترجیحات پر ذرا توجہ دیں۔ایک طرف ہم اربوں کھربوں اسلحہ بنانے اور خریدنے پر خرچ کر رہے ہیں جبکہ دوسری جانب غربت کا شکار شہریوں کی ایک بہت بڑی تعداد اچھی زندگی کا خواب دیکھنا تو دور کی بات،دو وقت کی روٹی کی بھی امید نہیں رکھتی۔
میری توقع کے عین مطابق بہت سے لوگوں نے میرے ٹویٹ کو سراہا اور اسے شئیر بھی کیا۔ ہاں البتہٰ کچھ لوگوں کا رد عمل حسب توقع ایسا تھا جس کے جواب میں میں یہ مضمون لکھ رہا ہوں۔ کمنٹس سیکشن میں ایک شخص نے (شکر ہے کہ مہذب انداز میں)پوچھا: اس تصویر کا مطلب کیا ہے؟
میرا جواب تھا: مطلب بالکل واضح ہے، ایک طرف ہم اپنے فوجی کھلونوں کی نمائش کر رہے ہیں جبکہ ہمارے ملک میں بچوں کو کوڑے کے ڈھیر سے اپنا کھانا تلاش کرنا ہوتا ہے۔
اس کے جواب میں جو رد عمل آیا وہ توقع کے عین مطابق تھا۔ مجھ سے پوچھا گیا کہ میں فوج کے خلاف کیوں ہوں اور میں ملکی دفاع کو غیر اہم کیوں سمجھتا ہوں؟
1998 میں امریکی صدر بل کلنٹن کو وائٹ ہاوس میں کام کرنے والی انٹرن مونیکا لیونسکی کے ساتھ تعلقات پر مواخذے کی تحریک کا سامنا کرنا پڑا۔ اگر ان پر الزام ثابت ہو جاتا تو ان کی صدارت ختم ہو سکتی تھی۔ اس مواخذے کے دوران ایک سوال کے جواب میں انہوں نے کہا”اس کا انحصار بہت سی باتوں پر ہے کہ لفظ ’ہے‘ کا کیا مطلب ہے“۔ میڈیا میں اس بیان کا یہ کہہ کر مذاق اڑایا گیا کہ ایک مرتبہ پھر سرکاری جھوٹ بولا جا رہا ہے جس کی وجہ سے لوگوں کا حکومت پر اعتماد ختم ہو چکا ہے۔
شائد یہ بات بل کلنٹن کے انداز میں کہی جا رہی ہے لیکن مجھے کہنے دیجئے کہ لفظ ’پاکستان‘ اور اس کے ’دفاع‘ کا کیا مطلب ہے؟ جب کوئی ایک انسان دوسرے شخص کو ’پاکستان مخالف‘قرار دے رہا ہوتا ہے تو اس سے مراد کیا ہوتی ہے؟دنیا بھر کی حکومتیں ہر وقت ’قومی یکجہتی‘ اور قومی اتفاق رائے کی بات کرتی ہیں مگر ان حکومتوں کی داستان گوئی کے بر عکس حقیقت یہ ہے کہ ہر ملک میں مختلف طبقے ہوتے ہیں جبکہ نظریاتی بنیادوں پر مختلف الخیال لوگوں کے بے شمار گروہ ہوتے ہیں۔
ایک طرف وہ لوگ ہوتے ہیں جن کے بارے میں مارکس نے کہا تھا کہ ذرائع پیداوار ان کے ہاتھ میں ہوتے ہیں اور معشیت کی کمانڈنگ ہائٹس ان کی مٹھی میں ہوتی ہیں۔ پاکستان میں ہم اس طبقے میں زمینداروں، بڑے صنعتی گھرانوں کے علاوہ سیکیورٹی اور انٹیلی جنس اداروں کی اعلیٰ قیادت کو شمار کر سکتے ہیں۔
یہ گروہ بلا واسطہ یا بالواسطہ ملکی سیاست و معیشیت کو کنٹرول کرتے ہیں۔سیاسی اشرافیہ کا تعلق بھی اسی گروہ سے ہوتا ہے۔قانون بھی اسی حکمران طبقے کی مرضی سے بنائے اور لاگو کئے جاتے ہیں اور ان قوانین کا مقصد ہی یہ ہوتا ہے کہ اس طبقے کے مفادات کا تحفظ کیا جا سکے۔ قانون نافذ کرنے والے اداروں کا مقصد بھی یہی ہوتا ہے کہ اس طبقے کا تحفظ کریں اور یہ طبقہ ملکی سمت اور ترجیات کا تعین کرتا ہے۔
اس طبقے کے بعد ہم کہہ سکتے ہیں نام نہاد ’درمیانہ طبقہ‘ ہوتا ہے۔یہ طبقہ حکمران طبقے اور محنت کش طبقے کے درمیان معلق ہوتا ہے۔ درمیانے طبقے میں ہم پروفیشنلز، مینیجرز،اساتذہ،وکلاء اور ایسے بے شمار لوگوں کو شامل کر سکتے ہیں جو حکمران طبقے کے انٹرپرائزز چلا رہے ہوتے ہیں۔ ’تیسری دنیا‘ سے تعلق رکھنے والے ملک پاکستان میں یہ طبقہ حجم میں چھوٹا اور غیر محفوظ ہے۔اس طبقے کی تنخواہ اور مراعات کا انحصار حکمران طبقے کی رضا مندی کی مرہون منت ہوتی ہیں اور ان کو ہر وقت یہ ڈر لگا رہتا ہے کہ کہیں ان کا روٹی روزگار نہ چھن جائے اور وہ محنت کش طبقے میں نہ پہنچ جائیں۔ان کا سب سے بڑا خواب ہوتا ہے کہ وہ بھی حکمران طبقے کا حصہ بن جائیں۔ اس خواب کی تعبیر عموماََ کبھی نہیں ملتی۔اسی طبقے سے تعلق رکھنے والے بعض افراد حکمران طبقے کے لئے نظریہ دان کا کردار بھی ادا کرتے ہیں اور یہ حضرات ایسے خیالات و نظریات تشکیل دیتے ہیں جن کا مقصد سٹیٹس کو برقرا ر رکھناہوتا ہے۔
درمیانے طبقے کے بعد محنت کش طبقہ ہوتا ہے جس کی اکثریت مسلسل اس خطرے کا شکار ہوتی ہے کہ کہیں مزید غربت کی دلدل میں نہ گر جائے۔مارکس کا مشہور قول ہے کہ مزدور کا کوئی ملک نہیں ہوتا۔ اس طبقے کے لئے ’حب الوطنی‘ اور ’قوم پرستی‘ مذاق کے علاوہ کچھ نہیں ہوتی۔ ان کی ساری جدوجہد کا محور ہوتا ہے کہ زندہ کیسا رہا جائے۔وہ اچھی زندگی کا خواب دیکھتے رہتے ہیں۔ تو جناب جب ہم ’دفاع پاکستان‘ کی بات کرتے ہیں تو اس سے ہماری مراد کیا ہوتی ہے؟
ہمارے اتنے بڑا دفاعی اور ایٹمی بجٹ سے ہم آخر کیا خریدرہے ہیں؟کس کی سیکیورٹی؟جواب بالکل واضح ہے۔پاکستان کی اکثریت کو ایٹم بموں اور میزائلوں کی ضرورت نہیں۔ اکثریت کو خوراک،رہائش،تعلیم اور روزگار کی ضرورت ہے۔یہ دلیل کہ موجودہ صورتحال میں ہی اکثریت کا بھلا ہے ورنہ ان پر’ہندو‘ حکومت کرنے لگیں گے ایک مذاق کے سوا کچھ نہیں۔کسی بھی دوسرے حکمران طبقے کے تحت بے بس محنت کشوں کے حالات اور کتنے خراب ہو سکتے ہیں؟دوسرے لفظوں میں ہم یہ کہہ سکتے ہیں کہ مسلمان حکمران طبقے کی غلامی سے محنت کشوں کو غربت اور بھوک کے سوا کیا ملا ہے؟
نظریہ پاکستان بارے کیا خیال ہے؟اس کا مطلب کیا ہے؟ واضح طور پر اس کا مطلب ہے 1947 میں متعین کردہ سرحدوں کے اندر قائم ہونے والا ایک جغرافیائی خطہ۔۔۔لیکن کیا محض جغرافیائی بنیاد پر ایک ایسی قوم تشکیل دی جا سکتی ہے جس میں ہم آہنگی پائی جاتی ہو؟ستر سال گزر گئے لیکن لوگوں کی اکثریت پہلے کسی ایک لسانی گروہ سے اپنا تعلق بتاتی ہے اور پھر خود کو پاکستانی کہتی ہے(اگر کہے)۔ پاکستانی ہونے سے قبل ہم پنجابی،سندھی،بلوچ اور سرائیکی ہیں۔فیض نے چالیس سال قبل، مشرقی پاکستان کی علیحدگی کے بعد اس جانب توجہ دلائی تھی۔ ہماری قوم کے کرتا دھرتا لوگوں نے کبھی بھی پاکستانی قومیت کی تعریف مقرر نہیں کی جو صدیوں کے عمل سے گزرنے کی بجائے اچانک 14 اگست 1947 ء کو وجود میں آگئی۔
یوں ستر سال گزر گئے اور ایک بنیادی سوال ابھی تک حل نہیں ہوا۔ہمیں یہ تو پتہ ہے کہ ہم ہندو نہیں، ہمارا تعلق بھارت سے نہیں مگر ہم کون ہیں، اس کا جواب معلوم نہیں۔یہ کہنا کہ ہم ’مسلمان‘ ہیں کوئی جواب نہیں کیونکہ مسلمان تو عرب، اہل ملائشیا،انڈونیشیئن اوراہل مراکش بھی ہیں مگر ہمارے اور ان کے بیچ کچھ بھی سانجھا نہیں۔
اپنے ملک کے مجبور لوگوں کی بات کرنا غداری نہیں۔اسی طرح دفاعی بجٹ پر سوال اٹھانا کوئی غداری نہیں۔ یا ہسپتالوں اور سکولوں کی جگہ اورنج ٹرین اور موٹر وے پر اربوں خرچ کرنے بارے اگر سوال کیا جائے تو یہ کوئی غداری نہیں۔کسی قوم میں ترقی کرنے کی صلاحیت کا اندازہ اس بات سے بھی لگایا جا سکتا ہے کہ اس میں اختلافِ رائے برداشت کرنے کا کتنا حوصلہ ہے۔جو لوگ اپنے اور اپنی قوم کے ضمیر کی آواز پر حکومت وقت کی مخالفت کرتے ہیں، سچے محب وطن بھی وہی ہیں۔
یہ مضمون پہلی بار انگریزی جریدے دی فرائیڈے ٹائمز میں 4 اپریل2018ء کو شائع ہوا۔