قیصر عباس
انڈیا میں کرونا وائرس کی وبا ایک خطرناک حد تک پھیل گئی ہے اور روزانہ رپورٹ ہونے والے کیسوں میں ریکارڈ اضافہ دیکھنے میں آیاہے۔ اطلاعات کے مطابق گزشتہ تین روز کے دوران دنیا میں ہونے والے سب سے زیادہ 346,786 لوگ انڈیا میں اس وبا کا شکار ہوئے ہیں۔
دہلی سمیت ملک کی بیشتر ریاستوں میں آکسیجن گیس کی فراہمی لوگوں کے علاج کے لئے ناکافی ہے اور ہسپتالوں نے جگہ نہ ہونے کی بنا پر لوگوں کو داخل کرنے سے انکار کر دیا ہے۔ ملک کی دو دواساز کمپنیوں نے ہسپتالوں اور لوگوں کے لئے کرونا وائرس کی ویکسین کی بھاری قیمتیں مقرر کر دی ہیں اور اب ویکسین کی عام قیمت چھ سو روپے فی انجکشن یا اس سے زیادہ ہو گئی ہے۔
واشنگٹن ڈی سی میں نیشنل انسٹیٹیوٹ آف ہیلتھ (NIH) کے سائنسدان ڈاکٹر رضی الدین رضی نے جن کا تعلق ا نڈیا میں اعظم گڑھ سے ہے، روزنامہ جدوجہد کو بتایا کہ لوگوں کو اتنی تیزی سے وباکے پھیلنے کی امید نہیں تھی اور ڈاکٹروں اور صحت عامہ کے اہلکار بھی اس خطرناک لہر کی وجوہات سمجھنے سے قاصر ہیں۔ ان کا کہنا تھا کہ ”ایک وجہ یہ بھی ہو سکتی ہے کہ بھارت جیسے ملک میں جہاں سماجی اور مذہبی اجتماعات کی خاصی اہمیت ہے کچھ مہینوں سے کافی سرگرمیاں دکھائی دے رہی تھیں اور عام طور پر لوگ اس وبا کے اثرات سے بے حس ہو چلے تھے۔“
ایک سوال کے جواب میں ان کا کہنا تھا کہ ”انڈیا میں دنیا میں سب سے ذیادہ ویکسین تیار کی جاتی ہے لیکن بد قسمتی یہ ہے کہ انہیں ملک کے اندر عوام کی ضروریات پوری کرنے کے بجائے منافع کمانے کے لئے ایشیا اور افریقہ کے ملکوں کو برآمد کیا جا رہا ہے۔“
انہوں نے کہاکہ کانگریس سمیت ملک کی سیاسی پارٹیا ں اس وبا کے پھیلاؤ کا ذمہ دار نریندر مودی اور ان کی پارٹی کو قرار دے رہی ہیں۔ راہول گاندھی اور دوسرے رہنماؤں کا کہنا ہے کہ مودی نے وبا سے بچنے کی احتیاطی تدابیر سے لوگوں کو بے خبر رکھا جس کی بنا پر لوگ اس کے اثرات سے بے فکر ہو کر اجتماعات میں شرکت کرتے رہے۔ حال ہی میں ہونے والی ہولی اور کمبھ میلے کے اثرات ابھی آنا باقی ہیں جس سے صورت حال مزید گمبھیر بھی ہو سکتی ہے۔“
انڈیا کی وزارت صحت کے اعداد و شمار کے مطابق پچھلے چوبیس گھنٹوں کے دوران 2,624 لوگ اس وبا میں گرفتار ہو کر زندگی کی بازی ہار چکے ہیں۔ پورے ملک میں اب تک 1,89,544 افراد اس وبا سے ہلاک ہو چکے ہیں جن میں مہاراشتر سے 63,252، کرناٹک سے 14,075، یو پی سے 10,737، پنجاب سے 8,264 اور آندھرا پردیش سے 7,579 افرادکے ہلاک ہونے کی خبریں ہیں۔ ان کے علاوہ مغربی بنگال، تامل ناڈو، دہلی اور دوسری ریاستوں میں بھی بڑی تعداد میں لوگ ہلاک ہوئے ہیں۔
انڈین ڈیاسپرا، واشنگٹن ڈی سی کی جانب سے ہونے والے ایک حالیہ آن لائن مذاکرے میں شرکت کرتے ہوئے لکھنو کے رام منوہر لوہیا سائنٹفک انسٹی ٹیوٹ کی ڈاکٹر نزہت حسین نے بتایا کہ انڈیا میں اس وقت ایک اعشاریہ آٹھ ملین لوگ اس وباکا شکار ہیں اور ان کے شہر میں تمام پرائیویٹ ہسپتالوں کو کووڈ ہسپتالوں میں تبدیل کر دیا گیا ہے۔
انہوں نے بتایاکہ ”ہسپتالوں میں رش اتنا ہے کہ وہاں بھی وائرس کے پھیلنے کا خطرہ ہے اور اکژ لوگ اس خوف سے گھر میں ہی علاج کو ترجیح دے رہے ہیں۔ اگرچہ ویکسین ہسپتالوں کو مفت فراہم کی جا رہی ہے لیکن بازار میں اس کی قیمت چھ سو روپے تک ہو گئی ہے۔ ویکسین اور گیس سلنڈر اب بلیک مارکیٹ میں بھی فروخت ہو رہے ہیں۔“
اس سوال کے جواب میں کہ باہر کے ملکوں میں رہنے والے انڈین کس طرح اس صورت حال میں ملک کی مدد کر سکتے ہیں انہوں نے بتایا کہ ”لوگوں کواقتصادی مدد کی سخت ضرورت ہے اور یہ ایک بنیادی مسئلہ ہے۔ لوگ اپنے رشتہ داروں کو گھر میں ہی علاج کی سہولت کے لئے مالی مدد کر سکتے ہیں۔ صحت عامہ کے عالمی اداروں کی مدد سے بھی گیس سلنڈر اور ویکسین کی فراہمی کی جا سکتی ہے۔“
اس مجموعی صورت حال سے ظاہر ہوتاہے کہ انڈیا میں کرونا وائرس کا موجودہ بحران عروج پر ہے لیکن دوسری طرف بڑی کمپنیاں لوگوں کو مہنگے داموں ادویات بیچ کر اپنا منافع بڑھا رہی ہیں۔ حکومت کی سرپرستی میں سرمایہ دار حلقے ملک میں تیار ہونے والی ویکسین دوسرے ملکوں کو برآمد کر رہے ہیں جب کہ ان کی زیادہ ضرورت ملک کے غریب عوام کو ہے۔ اس صورت حال میں کہا جا سکتا ہے کہ اصل مسئلہ وبا پھیلنے کا نہیں بلکہ ملک میں حکومت کی نااہلی اور منافع خوری کے پھیلتے ہوئے رجحانات ہیں۔
Qaisar Abbas
ڈاکٹر قیصر عباس روزنامہ جدو جہد کے مدیر اعلیٰ ہیں۔ وہ پنجاب یونیورسٹی سے ایم اے صحافت کرنے کے بعد پی ٹی وی کے نیوز پروڈیوسر رہے۔ جنرل ضیا الحق کے دور میں امریکہ منتقل ہوئے اور وہیں پی ایچ ڈی کی ڈگری مکمل کی۔ امریکہ کی کئی یونیورسٹیوں میں پروفیسر، اسسٹنٹ ڈین اور ڈائریکٹر کی حیثیت سے کام کر چکے ہیں اور آج کل سدرن میتھوڈسٹ یونیورسٹی میں ہیومن رائٹس پروگرام کے ایڈوائزر ہیں۔ وہ ’From Terrorism to Television‘ کے عنوان سے ایک کتاب کے معاون مدیر ہیں جسے معروف عالمی پبلشر روٹلج نے شائع کیا۔ میڈیا، ادبیات اور جنوبی ایشیا کے موضوعات پر ان کے مقالے اور بک چیپٹرز شائع ہوتے رہتے ہیں۔