ڈاکٹر علی مدیح ہاشمی
”بے مے کسے ہے طاقت آشوبِ آگہی“
غالب
جدید نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائڈ نے ایک بار کہا تھا ”میں جہاں بھی جاتا ہوں (یعنی اپنی نفسیاتی تحقیق میں جو کچھ دریافت کرتا ہوں) کوئی شاعر مجھ سے پہلے وہاں پہنچ چکا ہوتا ہے۔“ اگر ہم فرائڈ کے اس قول میں شاعر کی جگہ ”فنکار“ کا لفظ استعمال کریں تو غلط نہ ہو گا۔ فنکار جتنا بڑا ہوتا ہے، اس کی بینائی، اس کی بصیرت اتنی ہی گہری ہوتی ہے۔ ایک عظیم فنکار کو نفسیات، سائنس اور تحقیق کی ضرورت نہیں ہوتی۔ اس کا تخلیقی مشاہدہ اسے انسان اور وہ دنیا جس میں انسان بستے ہیں، کی گہرائیوں تک پہنچا دیتا ہے۔ یہ مشاہدہ اور اس مشاہدے کی مدد سے حاصل کیے گئے بنیادی حقائق ہی ایک فنکار کی عظمت کی دلیل ہوتے ہیں۔ فنکار کی آواز، اس کی تخلیق قاری کے دل میں تب ہی اترے گی جب وہی چیز قاری بھی محسوس کر رہا ہو۔ جیسا غالب نے کہا:
میں نے یہ جانا کہ گویا یہ بھی میرے دِل میں ہے
فنکاروں کے اس زمرے میں شاعروں کے علاوہ مصنف، مصوّر، مو سیقار وغیرہ سبھی شامل ہیں۔ منٹو بھی انہیں فنکاروں کی صف میں کھڑے ہیں جن کا ذکر فرائڈ کر رہے ہیں۔ منٹو کی کہانیاں پڑھ کر کوئی شک نہیں رہتا کہ وہ ایک ماہر نفسیات دان ہیں۔ افسانہ چاہے کتنا ہی مختصر کیوں نہ ہوں، منٹو کے کر دار کتا ب کے صفحوں سے اچھل کر قاری کے دل میں پیو ست ہو جاتے ہیں اور کہا نی ختم ہونے کے کئی گھنٹوں اور دنوں بعد تک پڑھنے والا سوچتا رہتا ہے کیا کر پال کور(موذیل) فسادیوں سے جان چھڑا کر بھاگنے میں کامیاب ہو گئی؟ اور تر لو چن سنگھ کا کیا بنا؟ جب نیستی (لائسنس) کو کمیٹی نے اپنا جسم فروش کرنے پر مجبور کر دیا تو اس کے بعد اس پر کیا گزری؟ سو گند ھی (ہتک) اور اس بے نام ویشیا (سو کینڈل پاور کابلب) کا کیا بنا جنہوں نے اپنی حالت سے تنگ آ کر ایسا قدم اٹھایا جس کا انجام عبرت ناک ہو سکتا تھا؟
ان سب کے علاوہ بے شمار ایسے کر دار ہیں جو یاد گار بھی ہیں اور قابلِ رحم بھی۔ بشن سنگھ (ٹو بہ ٹیک سنگھ)، ایشور سنگھ (ٹھنڈا گوشت)، منگو کوچوان (نیا قانون) اور اس کے علا وہ اور بہت سے دوسرے۔ حیرت کی بات یہ نہیں ہے کہ ایک ہی تخلیقی قلم نے ان سب یادگار کر داروں کو زندگی بخشی، حیرت اس بات پر ہے کہ جس شخص نے یہ قلم اٹھا رکھا تھا اس نے صرف 43 بر س کی زندگی پائی جس میں کئی برس مفلسی اور بیماری میں گزرے۔
ماضی سے آگاہی پر مبنی نفسیاتی مطالعہ کرنا خطرے سے خالی نہیں۔ سب سے بڑا خطرہ یہ ہوتا ہے کہ انسان ایک سوچے سمجھے نقطہ نظر کے تحت پہلے سے قائم شدہ مفرُوضات کی تصد یق کرنے لگے۔ اور پھر زیرِ مطالعہ شخص کا صرف غائبانہ طور پر ہمارے سامنے موجود ہو نا بھی معاملے کو مزید پیچیدہ کر دیتا ہے۔ البتہ یہ کہنا بھی ضروری ہے کہ اگر ماضی قریب کا کوئی فنکار ایسے مطالعے کے لئے سب سے موزوں ہے تو وہ منٹو ہی ہیں۔ اُن کی زندگی کے ایک سر سری سے مطا لعے سے بھی اندازہ ہو جاتا ہے کہ وہ پوری زندگی اپنے اندرونی شیطانوں سے بر سرِ پیکار رہے۔ زندگی کے آخری حصے میں تو باقا ئدہ نفسیاتی علاج (اور شراب کی لت سے چھٹکارے کے لئے ) ’Psychiatric‘ ہسپتال (جو اس زمانے میں پاگل خانہ کہلاتا تھا) میں داخل بھی رہے۔ اس کے با وجود ان کی اندرونی بے چینی کم نہ ہوئی۔ یہی داخلی اضطراب ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا سر چشمہ بھی تھا اور شاید ان کی زندگی کا سب سے موذی عنصر بھی جس نے آخر 43 سال کی قدرے جوان عمر میں ان کی جان لے لی۔
یہ بات تو طے ہے کہ منٹو نے بہت سے ناقا بلِ فراموش کر دار تخلیق کئے اور ان کے خیا لات ، احساسات اور مکمل نفسیات کی عکا سی انہوں نے انتہائی خوبصورت اور جامع انداز میں کی لیکن کیا ان کر داروں اور ان کہانیوں سے ان کے خالق کی شخصیت اور نفسیات پر بھی کچھ روشنی ڈالی جا سکتی ہے؟ خوش قسمتی سے اس معاملے میں منٹو نے خود ہی کچھ سراغ فراہم کئے ہیں۔ ان کے بہت سے ایسے مختصر مضامین موجود ہیں جس میں انہوں نے اپنی زندگی، اپنے کام اپنے عقا ئد اور تخلیقی اصولوں کا ذکر کیا ہے۔ ”منٹواز منٹو“، ”سوا نح حیات“، ”میں افسانہ کیو نکر لکھتا ہوں“، ”میری شادی“ وغیرہ ایسے مضامین ہیں جن سے منٹو کی شخصیت اور ان کے فلسفہ حیات اور فن پر کچھ روشنی ڈالی جا سکتی ہے۔ اس کے علا وہ ان کے سوانحی خاکوں ”باری صاحب“، ”مرُلی کی دھن“، ”اشوک کمار“، ”زحمتِ مہرِ درخشاں“ وغیرہ بھی ان کی شخصیت کو سمجھنے میں مدد دیتے ہیں۔
منٹو کی شخصیت کا مطالعہ کہاں سے شروع کیا جائے؟ شا ید بہتر یہی ہو گا کہ ہم اس سوال کو دو زاو یوں سے دیکھیں: پہلا داخلی اوردوسرا خارجی زاویہ۔ انسانی شخصیت کے حوالے سے اسے یوں بھی کہا جا سکتا ہے: ذاتی پہلو یعنی ایک انسان کی شخصیت اور اُس کے اندرونی محر کات اور اس کے ساتھ ساتھ، وہی شخصیت ان رشتوں اور تعلقات کی رو سے جووہ انسان سماج کے ایک فر د کی حیثیت سے دوسروں سے قائم کرتا ہے۔
دلچسپ بات یہ ہے کہ یہ دونوں پہلو ان نظر یاتی حدود کی بھی عکاسی کرتے ہیں جو اُس دور میں رائج تھیں جس میں منٹونے لکھنا شروع کیا۔ اس وقت فنکاروں (خاص کر مصنفوں اور شعرا) کے دو گروہ موجود تھے۔ اکثر یت ان فنکاروں کی تھی جنہوں نے سید سجاد ظہیر اور ان کے ساتھیوں کی قائم شدہ ”کل ہند انجمن ترقی پسند مصنفین“ میں شمو لیت اختیار کرنے کے بعد اشتراکی نقطہ نظر کو اپناتے ہوئے اپنے فن کو ”حقیقت پسندی“ اور انسان دوستی کی اقدار کا آئینہ بنایا۔ دوسرا گروہ تھا جس کے سر براہ ن م راشد اور ثنا اللہ ڈار ”میر اجی“ تھے، جنہوںنے اس ”بیرونی Dictation“ کو رد کرتے ہوئے اپنے فن میں ”انسانی نفسیات کے پُر اسرار عوامل، اس کے مختلف پہلو ﺅں، فرد کے افعال و اعمال کے مخفی محر کات اور اس معینہ صورت حال جو کسی انسان کو در پیش ہو“ کی عکاسی کی۔ ”ان کی شاعری مخالف اور بد اند یش دنیا میں انسان کی المناک اجنبیت اور تنہائی کے شدید احساس کی آئینہ دار تھی۔“(۱)
منٹو نے اپنے تخلیقی کام کی شرو عات اپنے بزرگ اور دوست عبد الباری علیگ کے زیر اثر ترقی پسند تصانیف سے ہی کی۔ ان کا پہلا افسانہ ”تماشا“ سا نحہ جلیا نوالا باغ کی عکاسی کرتا ہے اور ”خالص“ ترقی پسند نقطہ نظر سے لکھا گیا لیکن جلد ہی اس نظر یاتی حد کو پار کر کے انہوں نے اپنے مخصوص انداز میں لکھنا شروع کر دیا جو بہت سے ترقی پسند ادبا اور شعرا کو نا گوار گزرا۔ منٹو کے اس نئے اسلوب میں حلقہ اربابِ ذوق کے فن کی بھی واضح جھلک موجود تھی۔
ترقی پسند مصنفین کی نظر میں منٹو کا جنسی معاملات پر دھیان اور درمیانے طبقے کے معاشی اور سماجی مسائل پر مبنی تحریریں نہ صرف ”ترقی پسندی“ کے زمرے سے خارج تھیں بلکہ ”رجعت پسندی“ اور غیر اخلا قیت کی حدوں میں داخل ہوتی تھیں۔ اسی بنا پر چند ترقی پسند فنکاروں کے پر زور احتجاج کے با وجود (جن میں فیض احمد فیض سرِ فہرست تھے) انہیں ترقی پسندوں کے دائرے سے خارج قرار دے دیا گیا۔ منٹو کو ان نظر یاتی زنجیروں سے کوئی سروکار نہ تھا۔ انہوں نے بد ستور اپنا کام جاری رکھا اور اردو افسانہ نگاری میں نئی بلند یوں کو چھوا۔
لیکن اب اپنے موضو ع کی طرف واپس لوٹتے ہیں۔ جدید نفسیات انسانی شخصیت کا تجزیہ دو پہلوﺅں سے کرتی ہے۔ ایک نظر یہ جو فرائڈ کی تحلیلِ نفسی (Psychoanalysis) کے زیرِ اثر ہے، یہ بتاتا ہے کہ انسان کی زندگی کا ہر فعل، اس کی ہر سوچ، ہر جذبہ ایسی لا شعو ری طاقتوں کے زیرِ اثر ہوتا ہے جس کا انسان کو خود بھی بہت کم اندازہ ہوتا ہے۔ اس نظر یہ کے مطابق، پیدائش سے لے کر 4 یا 5 سا ل تک انسانی ذہن میں وہ جذبات اور احساسات پیدا ہوتے ہیں جو اس کے لا شعو ر کا حصہ بنتے ہیں اوربعد کی زند گی میں یہی عوامل اس کے ہر خیال، ہر احساس اور ہر عمل کا سر چشمہ بھی ہوتے ہیں۔ اس نقطہ نظر کے مطابق انسان کی شخصیت کا تجزیہ تبھی ممکن ہے جب ہم ان لا شعوری محر کات کو سمجھیں اور ان محرکات کی روشنی میں ایک انسان کی زندگی کا مطا لعہ کریں۔ اس نظریے سے ظاہر ہے کہ یہ نقطہ نظر انسان کی داخلی کیفیت کی عکاسی کرتا ہے۔
جدید نفسیات کے ایک اور اہم نظر یے کے تحت لا شعوری مظاہر کی کچھ زیادہ اہمیت نہیں۔ یہ نظر یہ جِسے کر داری (Behaviorist) نظریہ کہا گیا ہے، اُن اندرونی عوامل سے قطع نظر، صرف انسان کے بیرونی افعال کے مطالعے سے غرض رکھتا ہے یعنی صرف وہ حرکات جن کا ہم معروضی طور پر مشاہدہ کر سکتے ہیں۔ اس نظریے کے مطابق کسی انسان کے مطالعے میں ہمیں پوشید ہ لا شعوری عوامل سے کوئی سروکار نہیں۔ اس مطا لعے کو ہم خارجی مطالعہ بھی کہہ سکتے ہیں اور یہاں بیرونی عوامل یعنی زیرِ مطالعہ انسان کے خاندانی، سماجی اور سیاسی حالات بھی کسی حد تک ہماری تفتیش کا حصہ بنتے ہیں۔
اول الذکر نظر یہ ہمیں منٹو کے بارے میں کیا بتاتا ہے؟
منٹو 1912ءمیں سمرا لہ میں، جو لدھیانہ سے بائیس میل دور ایک گاﺅں ہے، پیدا ہوئے۔ ان کے والد مولوی غلام حسین سرکاری ملازم تھے اور سعادت کی پیدائش کے کچھ عرصے بعد انہوں نے اپنا تبادلہ امرتسر کر ا لیا اور وہیں سے سب جج (Sub-Judge) کے عہدے سے ریٹا ئر ہوئے۔ انہوں نے دو شا دیاں کیں۔ منٹو کی والدہ ان کی دوسری بیوی تھیں۔ گو کہ منٹوکی تصانیف میں تو اس کا ذکر نہیں ملتا، تا ہم ممکن ہے کہ غلام حسین کا خاندان اور برادری دوسری شادی سے خوش نہیں تھے خاص طور پر جبکہ ان کے پہلی بیوی سے آٹھ بچے تھے۔ اس لحاظ سے سعادت اور اُن کی بہن ناصرہ کو خاندان کی طرف سے ”سو تیلا سلوک“ ضرور ملا ہو گا۔ غلام حسین نے سرکاری ملازمت سے جلدی ریٹائرمنٹ اختیار کر لی اور پھر گھر پر ہی رہے۔ غلام حسین 1930ءمیں وفات پا گئے جب منٹو 18 برس کے تھے۔ والد سے ان کا رشتہ کچھ دُور کا ہی رہا۔ ان کے دوست ابو سعید قریشی لکھتے ہیں ”سعادت ایک بار بھاگ کر بمبئی چلا گیا۔ ان دنوں وہ میٹر ک میں فیل ہو رہا تھا۔ کہا کرتا ”میاں جی اللہ بخشے بڑے سخت گیر آدمی تھے۔“ ان کی بہن ناصرہ بتاتی ہیں۔ ”جان خطا تھی اس کی میاں جی کے ڈر سے…پتنگ اُڑا رہا تھا ایک روز، میاں جی آ گئے۔ اتنے میں چھت سے کود پڑا۔ چوٹ آئی لیکن کیا مجال کے ”سی“ تک کی ہو۔“ (۲) ان تاثرات سے ظاہر ہے کہ منٹوکا اپنے والد کے ساتھ رشتہ عزت اور خوف پر مبنی تھا۔ منٹو کے سوانح نگاروں کا کہنا ہے کہ پدرانہ شفقت کی یہ کمی اس کی والدہ بی بی جان نے پوری کی۔
سعادت اور اس کے والد کا رشتہ اس لیے دلچسپی کا حامل ہے کہ یہیں سے ہم فرائڈ کے نظر یات کے مطابق منٹو کی شخصیت کے پس ِپردہ پہلو ﺅں کا مطالعہ شر وع کر سکتے ہیں۔ فرائڈ کا ایڈ یپس کمپکس“ (Oedipus Complex) کا نظریہ بتاتا ہے کہ ایک لڑکا نو عمری میں (یاد رہے کہ فرائڈ یہاں تین سے چھ سال کی عمر کے لڑکے کا ذکر کر رہے ہیں) اپنے باپ سے ڈرتا بھی ہے اور اس کی پیر وی بھی کرنا چاہتا ہے۔ اس کی بنیادی وجہ بچے کا یہ مشاہدہ ہوتا ہے کہ یہ آدمی جو اس کا ”باپ“ ہے، وہ اُس شخصیت کا ساتھی اور شریک کار ہے جو بچے کی خالق بھی ہے اور اس کی پہلی اور سب سے گہری محبت بھی، جو اس کو کھلاتی پلاتی ہے، سلاتی جگاتی ہے، تکلیف میں اس کی دلجوئی کرتی ہے، المختصر، جو اس کی زندگی کا مرکز اور محور ہے یعنی اُس کی ماں۔ بقول فرائڈ، اپنے باپ اور ماں کی باہمی محبت دیکھ کر بچے میں غصہ اور حسد کے جذبات پیدا ہوتے ہیں جنہیں وہ اپنے والدین کی خوشنودی کے لئے دبا دیتا ہے۔ یہی جذبات اس کے لاشعورکی بنیاد بنتے ہیں۔
جیسا کہ ہم نے شروع میں ذکر کیا تھا، ماضی کی روشنی میں نفسیاتی تجزیے کرنا خطرے سے خالی نہیں لیکن اس بات میں کوئی شک نہیں کہ منٹو کے افسانوں میں اکثر مرد کا کردار ثانوی حیثیت کا حامل ہے۔ منٹو کی عورت، چاہے وہ ویشیا ہے یا گھر یلو لڑکی، مر دانہ کرداروں کے مقابلے میں زیادہ با حوصلہ اور پُر عزم ہے ۔ کیا عورتوں کو زیادہ طاقتور دکھا نا اسی لا شعوری عمل کا عکاس ہے جس میں ایک ننھا سعا دت باپ کے ڈر سے کانپ رہا ہے؟ کیا منٹو نے اسی خوف کو اپنے افسانوں میں تخلیقی رنگ دے کر پیش کیا ہے؟ ہو سکتا ہے مر دکے کر دار کو قدرے غیر اہم دکھا کر منٹو اسی خوف کا مقابلہ کر رہے ہوں ۔ جہاں مردوں کے کر دارنما یاں ہیں، وہاں ان کی وحشت اور بر بر یّت اُبل کر سامنے آتی ہے۔ ایشو ر سنگھ (” ٹھنڈا گوشت“ ) ، عبدالکریم (”پڑھیے کلمہ“) وغیرہ ایسے کر دار ہیں جن کے بارے میں پڑھ کر قاری کے رونگٹے کھڑے ہو جاتے ہیں۔ ایسا نہیں ہے کہ منٹو کی عورتیں اس بر بریّت سے یکساں پاک ہیں۔ رکما بائی (” پڑھیے کلمہ“) اور ہلاکت( ”سر کنڈوں کے پیچھے“) دو ایسے کر دار ہیں جن کو پڑھ کر قاری کا دل دہل جاتا ہے، اس لیے بھی کہ ہم ”صنفِ نا زک ‘ ‘ سے ایسے وحشی سلوک کی تو قع نہیں کر تے لیکن منٹو کے بہترین افسانوں میں ( مثلاً موذیل ، ہتک ، سو کینڈل پاور کا بلب ، شاداں ، کھول دو، ٹوبہ ٹیک سنگھ وغیرہ ) عورت کے کر دار کو منٹو نے زیادہ ہمدردی اور محبت سے پیش کیا ہے۔
منٹو اپنے نسوانی کرداروںکی ،چاہے وہ ویشیا یا قا تل ہی کیوں نہ ہو، ایسی تصو یر بناتے ہیں جو قاری کو اس سے محبت نہ سہی ہمدردی پر ضرور مجبور کر دیتی ہے۔ یہاں نفسیات کی رُو سے کہا جا سکتا ہے کہ منٹو کی تحریر کی یہ خصوصیت اسی محبت اور عقیدت کا نتیجہ ہے جو ان کو اپنی ” پہلی محبت“ یعنی اپنی والدہ سے تھی۔
یہ تو ہوا منٹو کے لا شعوری محرکات کا ایک سر سری سا تجز یہ ۔ اب دوبارہ ان کا حقیقی زندگی کی طرف لوٹتے ہیں ۔ یہ بات تو بالکل واضح تھی کہ سعادت میں ذہانت کی کوئی کمی نہ تھی ۔ ان کے بچپن کے حالات نیز اسکول کی تعلیم کے متعلق زیادہ تفصیلات نہیں ملتیں تاہم یہ بات درست لگتی ہے کہ سکول سے انہیں شروع سے ہی کوئی خاص دلچسپی نہیں تھی اور میٹرک تک پہنچتے تک جو تھوڑی بہت دلچسپی تھی وہ بھی زائل ہو چکی ہے۔
میٹرک میں پہنچنے تک (یعنی 15-16 سال تک کی عمر میں) روایتی سکول کی پڑھائی سے ان کا دھیان بالکل اٹھ چکا تھا۔ اس وقت بھی ان کو کتابیں پڑھنے کا بے حد شوق تھا۔ وہ اکثر اپنے آپ کو ہیڈ ماسٹر کا بیٹا ظاہر کرکے کتب فروشوں سے کتابیں ادھار لے لیا کرتے اور انہیں پڑھ کر سیکنڈ ہینڈ کتا بوں کی دکانوں میں بیچ دیتے اوران پیسوں سے سگریٹ خرید لیتے (۲)۔ یہ ان کے والد کی زندگی کے بھی آخری دن تھے۔ 1930ءمیں ان کے والد کا انتقال ہو گیا ۔ اس وقت تک منٹو دوبار ایف اے میں فیل ہو چکے تھے اور پڑھائی، سکول کالج وغیرہ سے نالاں تھے۔ اس کے علاوہ ان کی وہ فطری بے چینی بھی بڑھ رہی تھی جو ان کی تخلیقی صلاحیتوں کا سر چشمہ بھی تھی اور بعد کی بیماریوں کا سبب بھی ۔ لکھتے ہیں ”آوارگی کے اس زمانے میں طبیعت ہر وقت اچاٹ اچاٹ سی رہتی تھی۔ ایک عجیب قسم کی کھدُ بدُ ہر وقت دل و دماغ میں ہوتی رہتی تھی۔ اس زمانے میں شعر کہنے کی بھی کوشش کی۔ دوستوں کے ساتھ مل کے چرس کے سگریٹ پیئے۔ کوکین کھائی۔ شراب پی مگر جی کی بے کلی دوُر نہ ہوئی۔ (۲)
آگے بڑھنے سے پہلے ہم اس اضطراب ، اس بے چینی پر کچھ غور کریں گے کیونکہ اس کا تعلق براہ راست اس بیماری سے ہے جس نے جواں عمری میں ہی منٹو کی جان لے لی یعنی شراب کی لتَ۔ نفسیاتی تحقیق یہ ثابت کر چکی ہے کہ بیشتر لوگ جو نشے کے عادی ہوتے ہیں ، ان کو کسی قسم کی نفسیاتی الجھن یا بیماری کا سامنا بھی ہوتا ہے ۔ اس میں سب سے عام اداسی (Depression) اور پریشانی (Anxiety) کی بیماریاں ہیں۔ ’Anxiety‘ کی علامات میں گھبراہٹ، بے چینی، نیند کا نہ آنا، بھوک نا لگنا، جسمانی بے چینی وغیرہ شامل ہیں۔ بہت سی دوسری اشیا کی طرح شراب بھی ایک سکون آور شے ہے۔ عام آدمی شراب کو پینے کے بعد زیادہ پر سکون اور روز مرّ ہ کی فکروں سے اپنے آپ کو آزاد محسوس کرتا ہے لیکن اس کے زیادہ استعمال سے یہی کیفیت الٹ بھی ہو جاتی ہے ۔ ایک شراب کا عادی انسان صبح اٹھتے ہی شراب پینا شروع کر دیتا ہے کیونکہ اگر وہ ایسا نہ کرے تو اسے بہت سی سنگین اور تکلیف دہ جسمانی علامات شروع ہو جاتی ہیں مثلاً سر کا درد، پٹھوں کا کھچاﺅ ، متلی یا قے آنا ، ہاتھ پاﺅں کا نپنا وغیرہ ۔ ان شکایات سے بچنے کے لئے وہ شراب کا استعمال کرتا ہے لیکن وقت کے ساتھ ساتھ اس کا جسم شراب کا عادی ہو تا جاتا ہے اور اسے شراب کا اثر حاصل کرنے کے لئے اِس کی مقدار بڑھانی پڑتی ہے۔ ایسا کرنے سے اس کے جگر، گردے ، دل اور سب عضورفتہ رفتہ ناکارہ ہو نا شروع ہو جاتے ہیں اور اگر مناسب علاج نہ کیا جائے تو موت یقینی ہو تی ہے۔
لیکن منٹو کی یہ بے چینی، جس کا ذکر انہوں نے بعد کی تصانیف میں بھی کیا، آخرکیونکر تھی؟ یہاں ہمیں نفسیات سے تھوڑا ہٹ کر فلسفے کی مدد لینی پڑے گی۔ انسانی زندگی کا مقصد کیا ہے؟ کسی ایک شخص کی زندگی یا بنی نوع انسا ن کی مجموعی زندگی کے وجود کے بارے میںیہ بنیادی سوال اسی وقت اٹھ کھڑا ہوا تھا جب انسان نے اپنے زمانہ ءطفلی میں خود شعوری حاصل کی تھی یعنی جب انسان نے اپنے دماغ اور ذہانت کی بنا پر اپنے آپ کو حیوانوں سے الگ کر لیا تھا۔ اس سوال کا سب سے قدیم جو اب تو مذہب نے تجویز کیا یعنی یہ کہ انسان کی مختصر دنیاوی زندگی کا مقصد ہے اپنے رب ، بھگوان، اللہ ، ایشور کی پیر وی کرنا ، اس کے بتائے ہوئے اصولوں پر چلنا اور اپنی اگلی ،ابدی زندگی کی تیاری کرنا ۔ یہ نقطہ نظر اب بھی مقبول ہے۔ تقریباً 400سال پہلے بر طانیہ اور مغربی ممالک میں صنعتی انقلاب آیا اورمشینی دور کی داغ بیل پڑی ۔ سائنسی علوم میں اضافے اور فطرت پر کسی حد تک قا بو پانے کے بعد انسان کا وہ بنیادی ڈر جو مذہب کا سر چشمہ ہے، یعنی نا معلوم فطری آفتوں کا ڈر، تھوڑا کم ہوا تو اس کے ساتھ ساتھ اشتر کیت (Socialism) کے فلسفہ حیات نے بھی جنم لیا جس کے مطابق انسانی زندگی کا مقصد کسی فرضی جنت کا انتظار کرنا نہیں ہے بلکہ جدو جہد اور عزم کے ساتھ اسی دنیا میں جنت کا نظارہ پیش کرنا ہے۔ آگے چل کر ہم دیکھیں گے کہ منٹو نے اسی فلسفہ کے تحت لکھنا شروع کیا تھا لیکن یہ فلسفہ بھی انسانیت کی نجات کا پیغام نہیں دیتا ۔ جیسا کہ فیض ،اقبال کے حوالے سے کہتے ہیں ” انسانی زندگی مسلسل ارتقا ءکے عمل میں ہے اور بنی نوع انسا ن کے ارتقا ئی امکانات لا متناہی ہیں۔ انسان کی پہنچ صرف اس دنیا تک نہیں ہے بلکہ کائنات میں مو جود ان گنت اور دنیا ﺅں تک بھی ہے۔ جن کی کھوج باقی ہے۔ انسان کی کوئی آخری منزل مقصود نہیں ہے۔ ارتقا ءکی ہر منزل اگلی منزل کا ایک زینہ ہے ۔ اسی لیے انسان کی ہر فتح ایک ناکامی بھی ہے“ (۳)۔
اسی سے ملتا جلتا ایک اور نقطہ نظر جو ہمارے موضوع پر پورا اترتا ہے وہ فلسفہ وجودیت (Existentialism) ہے۔ منٹو کی بیشتر تصانیف میں اس کی جھلک بھی نظر آتی ہے۔ یہ فلسفہ اٹھا رویں صدی کے فلاسفہ کرک گارڈ (Kierkegaard)، انیسویں صدی میں نٹشے (Nietzsche) اور بیسو یں صدی میں سارتر (Sartre) سے منسلک ہے۔ انسان کا یہ فلسفہ حیا ت زندگی میں کسی بھی ”معنی“ کو یکسر ٹھکرا کر اس بات پر زور دیتا ہے کہ انسان کی زندگی اور اس کے اعمال ہی زندگی کا اصل ہیں ۔ اس میں اچھے برے ، نیک بد، اعلیٰ یا گھٹیا کا کوئی دخل نہیں۔ مزید براں انسانی ز ندگی کے کوئی روحانی یا آفاقی مقصد یا معنی نہیں ہیں۔ انسان دنیا میں آتے ہیں، جیتے ہیں، د نیا وی کاموں سے نپٹتے ہیں اور رخصت ہو جاتے ہیں، یہی حقیقت ہے۔ کسی انسان کی زندگی کے معنی وہی ہیں جو وہ خود اسے دیتا ہے ، یعنی ہر انسان کو یہ آزادی ہے ، بلکہ اس پر واجب ہے کہ وہ اپنی زند گی کا مقصد خو د تلاش کرے ۔ اس کے علاوہ فلسفہ وجودیت یہ بھی کہتا ہے کہ انسان کی ہر خواہش ، ہر کاوش ، ہر جدو جہد ، با لآخر بے نتیجہ ہے۔ حیاتِ انسانی کی آخری منزل موت ہے۔ کوئی انسان کتنا ہی عظیم کیوں نہ ہو، یہی اس کی حقیقت ہے۔
اس مختصر تحریر میں اس بحث میں جانا ممکن نہیں کہ فلسفہ وجو دیت کہاں اور کیسے ابھرا ،البتہ یہ جاننا ضروری ہے کہ یہ فلسفہ صنعتی دو ر کے حالات اور ماحول کے خلاف ایک ردِ عمل تھا۔ اس بات پر غور کرنے کی ضرورت ہے کہ منٹو کی بیشتر تصانیف اسی فلسفے پر پوری اترتی ہیں۔ اسی دور کے ایک اور عظیم افسانہ نگار پریم چند کے بر عکس منٹو کی تصانیف میں کہیں ہمیں سماج کی برائیوں پر تنقید یا ان سماجی مسائل کے حل کی تجاویز نہیں نظر آئیں گی۔ منٹو کو مسائل کے حل سے کوئی خاص دلچسپی نہیں، وہ صرف ان کی عکاسی کرتے ہیں۔ منٹو اپنے کر داروں سے کوئی تقاریر نہیں کر وا تے ، زمانے کی سفا کی اور بے رخی کے بارے میں کوئی گلہ، دنیا کی بے رحمی کی کوئی شکایت یا ان مسائل کا کوئی حل تجو یز نہیں کرتے۔
منٹو کی آنکھ گویا ایک کیمرہ ہے جو ٹکٹکی باندھے ، بغیر پلک جھپکے ان کر داروں پر گزرتے ہوئے واقعات کو دیکھ رہی ہے اور بعین ہی ریکارڈ کر رہی ہے۔ افسانہ چاہے کتنا ہی دل دہلا دینے والا کیوں نہ ہو ، منٹو واقعات کو ایک ہموار لہجے میں بیا ن کرتے ہیں ۔ یوں لگتا ہے کہ وہ کسی واقعے، کسی حادثے پر حیران یا خفا نہیں ہیں۔ ان کے کرد اروں پر گزرنے والا ہر تجربہ ، ہر واقعہ اُس کر دار کی زندگی اور اس کے وجود کاایک حصہ ہے۔ ایسا نہیں تھا کہ منٹو ، جنہوں نے تقسیم کے وقت ہونے والے ہولناک واقعات کو قریب سے دیکھا ان سے متاثر نہیں ہوئے تھے ۔ انہوں نے کئی بار اپنے اضطراب کا ذکر اپنی تصانیف میں کیا۔
”اِس وقت زمانے کے جس دور سے ہم گزر رہے ہیں اگر آپ اس سے ناوا قف ہیں تو میرے افسانے پڑھیے ۔ اگر آپ ان افسانوں کو برداشت نہیں کر سکتے تو اس کا مطلب ہے یہ زمانہ ناقا بل بر داشت ہے ۔ میری تحریرمیں کو ئی نقص نہیں۔ جس نقص کو میرے نام سے منسوب کیا جاتا ہے، دراصل موجود ہ نظام کا نقص ہے ۔ میں لوگوں کے خیالات و جذبات میں ہیجان پیدا کرنا نہیں چاہتا ۔ میں تہذیب و تمدّن کی اور سو سائٹی کی چولی کیا اتاروں گا جو ہے ہی ننگی۔ “ (۴)
”ملک کے بٹوارے سے جو انقلاب بر پا ہوا اس سے میںایک عرصے تک باغی رہا اور اب بھی ہوں لیکن بعد میں اس خوفناک حقیقت کو میں نے تسلیم کر لیامگر اس طرح کہ مایوسی کو میں نے اپنے پاس تک نہ آنے دیا۔ میں نے خون کے اس سمندر میں غوطہ لگا یا جو انسان نے انسان کی رگوں سے بہایا تھا اور چند موتی چن کر لایا۔ میں انسان ہوں، وہی انسان جس نے انسانیت کی عصمت دری کی تھی ۔ جس نے دوسری اجناس کی طرح انسانوں کے گوشت پوشت کو دوکانوں میں سجا سجا کر بیچا تھا۔ میں وہی انسان ہوں جس نے پیغمبری کا رتبہ حاصل کیا اور میں وہی انسان ہوں جس نے پیغمبروں کے خون سے اپنے ہاتھ رنگے۔ “(۵)
لیکن وہ اس کیفیت (یعنی اپنے اندرونی اضطراب) کو اپنے افسانوں میں داخل نہیں کرتے اسی لئے کہ ایک حساّس فنکار ہونے کی رُو سے وہ اس بات سے بخوبی واقف ہیں کہ یہ سب حادثات اور تجربات زندگی کا حصہ ہیں ۔ ان کے خلاف احتجاج یا ہنگامہ کرنے سے یہ حقیقت بد ل نہیں سکتی ۔ منٹو کے اس اسلوب ِ تحریر کی کچھ جھلکیاں ملاحضہ ہوں۔
”سوا سات بجے پولیس لاش اٹھا کر لے گئی ۔ برف اور خون وہیں سڑک پر پڑے رہے ۔ ایک تانگہ پاس سے گزرا ۔ بچے نے سڑک پر خون کے جمے ہوئے چمکیلے لوتھڑے کی طرف دیکھا ۔ اس کے منہ میں پانی بھی آیا۔ اپنی ماں کا بازو کھینچ کر بچے نے انگلی سے اس طرف اشارہ کیا ” دیکھو ممی جیلی“ (” جیلی“)۔(۶)
”شاداں جب گھر پہنچی تو لہو لہان تھی۔ وہاں پہنچتے ہی وہ بے ہو ش ہو گئی ۔ اس کے ماں باپ اسے ہسپتال لے گئے ۔ شاداں کو وہاں ایک لحظے کے لئے ہوش آیا اور اس نے صرف ” خان بہادر“ کہا اس کے بعد وہ ایسی بے ہوش ہوئی کہ ہمیشہ ہمیشہ کے لئے سو گئی ۔ جرم بہت سنگین تھا ۔ تفتیش ہوئی ، مقدمہ چلا، صفائی کے گواہ صرف دو تھے۔ خان بہادر کی بیوی اور ایک ڈاکٹر ۔ خان بہادر محمد اسلم خان بری ہو گئے ۔ مقدمے میں انہیں بہت کوفت اٹھانی پڑی۔ بری ہو کر جب گھر آئے تو ان کی زندگی کے معمول میں کوئی فرق نہ آیا۔ ایک صرف انہوں نے مسواک کا استعمال چھوڑ دیا۔ (” شاداں “ )۔ ( ۷)
”اس نے اندر جھانکا ۔ فر ش کا جو حصہ اسے نظر آیا اس پر ایک عورت چٹائی پر لیٹی تھی۔ اس نے اسے غور سے دیکھا ۔ سو رہی تھی ۔ منہ پر دوپٹہ تھا ۔ اس کا سینہ سانس کے اتا ر چڑھاﺅ سے ہل رہا تھا۔ وہ ذرا آگے بڑھا ۔ اس کی چیخ نکل گئی مگر اس نے فوراً ہی دبالی ۔ اس عورت سے کچھ دور ننگے فر ش پر ایک آدمی پڑا تھا جس کا سر پاش پاش تھا ۔ پاس ہی خون آلود اینٹ پڑی تھی۔ یہ سب اس نے ایک دم میں دیکھا“(” سوکینڈل پاور کا بلب“ )۔(۸)
” سر دار گو رمکھ سنگھ کا لڑ کا سنتو کھ جج صاحب کے مکان کے تھڑے سے اتر کر چند گزآگے بڑھا تو چار ڈھاٹا باندھے ہوئے آدمی اس کے پاس آئے ۔ دو کے پاس جلتی مشعلیں تھیں اور دو کے پاس مٹی کے تیل کے کنستر اور دوسری آتش خیز چیزیں ۔ ایک نے سنتو کھ سے پوچھا ” کیوں سر دار جی اپنا کام کر آئے“۔ ؟ سنتو کھ نے سر ہلا کر جواب دیا ”ہاں کر آیا“ ۔ اس آدمی نے ڈھاٹے کے اندر ہنس کر پوچھا، ”تو کر دیں معاملہ ٹھنڈا جج صاحب کا ؟“ ”ہاں، جیسے تمہاری مرضی “۔ اور یہ کہہ کر سردار گور مکھ سنگھ کا لڑکا چل دیا“ (” گور مکھ سنگھ کی وصیت “ ) ۔(۹)
انسان کا انسان کے ساتھ ظلم ، بے پنا ہ ایثار ، قربانی اور محبت کے ساتھ ساتھ سفا کانہ ظلم ، حیوانی بر تاﺅ اور دوسروں پر مظالم ڈھانے کی لا متناہی بھوک ۔ یہ سب انسانی زندگی کا حصہ رہے ہیں اور آج بھی ہیں ۔ ایک عام انسان روزمرّہ کے معاملات میں مصروف رہ کر ان حقائق سے کسی حد تک بے بہرہ رہ سکتا ہے لیکن ایک حساس فنکار کے لیے ، جس کا فن اور کام انسانی مشاہدہ ہی ہے، یہ ممکن نہیں کہ وہ اپنے کان اور آنکھیں بند کر کے بیٹھ جائے اور اگر یہ حقیقت واضح ہو کہ انسانی رشتے اور محبتیں پل جھپکتے میں صبح کو چھائی ہو ئی دھند کی طرح غائب ہو سکتی ہیں تو بے چینی اور اضطراب کی کیفیت لازمی ہے ۔ پھر اس اضطراب اور بے چینی کا کیا حل کیا جائے ؟ منٹو نے ایک حل یہ تلاش کیا کہ اپنے اس آگہی کو شراب کی بوتل میں ڈبونے کی کوشش کی۔ غالبنے بھی یہ حل ڈھونڈا تھا لیکن جسمانی مدا فعت کی باعث ان کی صحت پر اس کا وہ اثر نہ پڑا جو منٹو پر ہوا ۔ منٹو کی زندگی پر میسرمعلو مات سے یہ بات ظاہر ہے کہ زندگی کے آخری چند سالوں میں ان کی شراب نوشی خطرناک حد تک بڑھ چکی تھی۔ یہ کیفیت ان کے بمبئی سے لاہور منتقل ہو جانے کے بعد اور بھی شدِت اختیار کر گئی تھی۔ بمبئی میں ان کا نام تھا، اچھی آمدن تھی، دوست احباب تھے ۔ لاہور میں نہ تو کوئی ٹھوس آمدن کا ذریعہ تھا اور نہ بہتر ی کی امید ۔ آخری سالوں میں بے چینی اور پریشانی کے ساتھ معاشی بد حالی بھی بہت بڑھ گئی تھی۔ شراب نوشی اس حد تک بڑھ گئی تھی کہ اخبار کے دفتر جاتے ، وہیں بیٹھ کر افسانہ لکھتے اور پیسے سے بوتل خرید لیتے ۔ اخبار والوں کو ان کی اس عادت کی خبر تھی اس لیے کئی دفعہ بجائے پیسے کے ، ان کو سستی شراب کی بوتل دے دیتے ۔ کئی بار ہسپتال جانا پڑا ۔ جگر برُی طرح متاثر ہو چکا تھا ۔ یہاں تک کہ ڈاکٹر وں نے شراب کو ان کے لئے زہر قرار دے دیا تھا ۔
اور وہ یہ زہر پیتے رہے ۔ جنون کے آثار پیدا ہو چکے تھے۔ (شراب کے استعمال سے دماغ بھی متاثر ہوتا ہے ) ، کانوں میں آوازیں آتی تھیں، خیالی شکلیں نظر آتی تھیں ، طرح طرح کے وہم ہوتے تھے اور بہکی بہکی باتیں کر تے تھے۔ ان کی بیوی صفیہ نے کئی بار علاج کر وانے کی کوشش کی، پاگل خانے میں بھی داخل کر وایا ( جس کے بعد انہوں نے اپنا عظیم افسانہ ”ٹوبہ ٹیک سنگھ“ لکھا) لیکن بے سود۔ اسی حالت میں جگر کی سوزش سے ان کی موت واقع ہوئی۔
احمد ندیم قاسمی کے نام ایک خط میں لکھتے ہیں (جنوری 1939) ” کچھ بھی ہو، مجھے اطمینان نصیب نہیں ہوا۔ میں کسی چیز سے مطمن نہیں ہوں۔ مجھے اپنے آپ سے کبھی تسکین نہیں ہوئی ۔ ایسا محسوس ہوتا ہے کہ میں جو کچھ ہوں جو کچھ میرے اندر ہے، وہ نہیں ہونا چاہیے۔ اس کے بجائے کچھ اور ہی ہونا چا ہیے ۔ “ (۰۱)
اس مختصر سے جائزے کے بعد آئیے اب دیکھتے ہیں کہ خارجی عوامل نے منٹو کی زندگی اور ان کی شخصیت پر کیا اثر ڈالا۔
منٹو 1912ءمیں پیدا ہوئے (کچھ تصانیف میں ان کا سنِ ولادت 1914بھی بتایا گیا ہے) اسی عرصے میں 1914میں پہلی جنگ عظیم چھڑ گئی جو تاریخ میں اس وقت تک سب سے بڑی اور مہلک جنگ تھی۔ بر طانوی سامراج کے طابع ہندوستان سے بھی جنگ کے لیے سپاہی بھر تی کئے گئے جن میں سے بہت سے پنجاب سے تھے ۔ جنگ کے اختتام سے پہلے اور کسی حد تک جنگ کے نتیجے میں سلطنت روس میں انقلاب آیا۔ یہ بنی نوع انسان کی تاریخ کا پہلا کامیاب مزدور انقلاب تھا جس کے نتیجے میں تاریخ کی پہلی مزدور حکومت وجود میں آئی ۔ اگر ہم یہ کہیں کہ یہ واقعہ بیسویں صدی کا حتمی واقعہ تھا تو غلط نہ ہو گا۔ بیسویں صدی کے بعد کے واقعات و حالات اور اس صدی کا پورا رخ اسی واقعہ نے متعین کیا۔ ظاہر ہے کہ ہندوستان بھی اس کے اثرات سے مستثنیٰ نہیں تھا ۔ اسی دوران میں ہندوستان میں آزادی کی تحریک بھی زور پکڑ رہی تھی۔ تحریک ِخلافت ،موپلہ تحریک اور منٹو کے آبائی شہر میں پیش آنے والا سانحہ جلیانوالہ باغ اسی دور سے متعلق ہیں ۔
گو کہ منٹو ابھی اس عمر کو نہیں پہنچے تھے کہ ان سب سماجی اور سیاسی عوامل سے متاثر ہوتے ، پھر بھی ، یہ ان کے سماج اور اس دور کے اجتما عی شعور میں قا بلِ توجہ واقعات تھے۔ منٹو جب تک عہد ِجوانی میں داخل ہوئے تو ان کے والد کا انتقال ہو چکا تھا ( یہ 1930ءکی بات ہے)۔ 1931 میں منٹو ہندو سبھا کالج میں آرٹس کے طالبعلم تھے۔ نصابی پڑھائی سے انہیں قطعاً کوئی دلچسپی نہیںتھی البتہ کتابیں پڑھنے کا شوق بے حد تھا۔ اس زمانے میں منٹو کی ذہنی کیفیت ہم پہلے بیان کر چکے ہیں ۔ اس وقت تخلیقی کاموں کے بجائے منٹو کا بیشتر وقت اپنے سے بڑی عمر کے لچے لفنگے اوباش نوجوانوں کے ساتھ شراب پینے، جو ا کھیلنے اور بھنگ پینے میں صرف ہوتاتھا۔ اس زمانے کے امرتسر اور اس میں ان کی آوارہ زندگی کی تفصیلات منٹو کے افسانوں اور خاکوں میں جا بجا موجود ہیں۔ دوبار ایف اے میں فیل ہونے کے بعد منٹوکی طبیعت پڑھائی سے بالکل اچاٹ ہو چکی تھی۔ عین ممکن تھا کہ اسی بیزارگی کے عالم میں منٹو جرائم کی راہ پر چل نکلتے اور زمانہ ایک عظیم فنکار سے محروم ہو جاتا لیکن اس عرصے میں ان کی ملاقات عبد الباری علیگ سے ہوئی۔ باری صاحب (جن کے بارے میں ایک مزاحیہ خاکہ منٹو کے مجموعے ” گنجے فرشتے“ میں شامل ہے) ایک عالم بھی تھے، مصنّف بھی اور اخبار نویس بھی۔ اس کے علاوہ وہ ہندوستان میں فنکاروں اور ادیبوں کی نئی جما عت کل ہند انجمن ترقی پسند مصنّفین کے سر گرم کارکن بھی تھے اور اشتراکی فلسفہ زندگی کے زیرِ اثر تھے۔ منٹو ان سے اپنی عقیدت یوں بیان کرتے ہیں :
”آج میں جو کچھ بھی ہوں ، اس کو بنانے میں پہلا ہاتھ باری صاحب کا ہے ۔ اگر امر تسر میں ان سے ملاقات نہ ہوتی اور متواتر تین مہینے ان کی صحبت میں نہ گزارے ہوتے تو یقینا میں کسی اور ہی راستے پر گامزن ہوتا۔ “ (۱۱)
باری صاحب نے جلد ہی منٹو کی فطری ذہانت کاندازہ لگالیا ۔ انہوں نے منٹو کو صحافت کی طرف لگایا اور انہیں فرانسیسی اور روسی ادیبوں کو پڑھنے کی تلقین کی۔ انہیں کے زیر اثر منٹو نے ”مساوات“میں لکھنا شروع کیا اور آہستہ آہستہ اخبار کا فلمی کالم سنبھال لیا۔ باری صاحب کے زیر اثر ہی منٹو نے روسی مصنّفین گورکی، چیخوف، پشکن، گوگول، دوستو سکی اور فرانسیسی ادیب موپاساں کا مطالعہ کیا۔ باری صاحب کی خواہش تھی کہ وکٹر ہیو گو کے ناولLes Miserablesکا ترجمہ کیا جائے لیکن اس کی ضخا مت دیکھ کر اس کے بجائے منٹو نے ہیو گو کے ناول The Last Days of a Condemned Man کا ترجمہ ”سر گز شتِ اسیر “کے نام سے کیا۔ باری صاحب نے خود اس کی اصلاح کی اور اردو بک سٹال سے اسے چھپوانے میں مد د کی ۔ منٹو کا اگلا ترجمہ آسکر وائلڈ کے ڈرامے ” ویرا“ کا تھا جو روس کے دہشت پسندوں کی سر گر میوں کے متعلق ہے۔ اس میں بھی باری صاحب نے ان کی مدد کی۔ گو کہ اشتراکی خیالات ابھی ہندوستان میں پوری طرح نہیں پہنچے تھے، پھر بھی منٹو اپنی ذہنی کیفیت کا ذکر یوں کرتے ہیں:
”دسویں جماعت میں دنیا کا نقشہ نکال کر ہم کئی بار خشکی کے رستے روس پہنچنے کی اسکیمیں بنا چکے تھے حالانکہ ان دنوں فیروز الدین منصور بھی کامریڈ ایف ڈی منصور نہیں بنے تھے اور کامریڈ سجاد ظہیر شا ید بنّے میاں ہی تھے۔ ہم نے امر تسر ہی کو ماسکو متصور کر لیا تھا اور اس کے گلی کوچوں میں مستبد اور جابر حکمرانوں کا انجام دیکھنا چاہتے تھے۔ کٹڑہ جمیل سنگھ، کرموں ڈیوڑ ھی یا چوک فرید میں زاریت کا تابوت گھسیٹ کراس میں آخری کیل ٹھوکنا چاہتے تھے“ (” باری صاحب” )۔(۲۱)
اس سے ظاہر ہے کہ باری صاحب کے زیرِ اثر منٹو بھی اشتراکی خیالات سے متاثر تھے اور اب، جب کہ وہ صاحب ِکتاب بھی ہو چکے تھے، ان کی زندگی کا رخ کسی حد تک ایک مثبت جانب ہو گیا تھا ۔ جب مساوات بند ہو گیا تو مختصر عرصے کےلئے منٹو نے ہفت روزہ ”خلق“ کےلئے لکھنا شروع کر دیا۔ اسی میں ان کا پہلا افسانہ ”تماشہ“ شائع ہوا ۔ اسی زمانے میں وہ ماہنا مہ” ہمایوں “ ماہنامہ” عالمگیر“ اور روزنامہ” پارس“ سے بھی منسلک رہے جو سب لاہور سے شائع ہو رہے تھے۔ (۳۱)
” عالمگیر “کا روسی ادب نمبر منٹو نے مرتب کیا۔ اس کے علاوہ گورکی پر مضامین لکھے اور اس کے افسانوں کے ترجمے کئے، اشتراکی شاعری اور روسی ادب پر مقالے لکھے اور کافی عرصے اپنے نام کے ساتھ ” کامریڈ“ لکھتے رہے۔ اس سے یہ بات ظاہر ہے کہ اپنی تخلیقی زندگی کی ابتدا منٹو نے خالص اشتراکی نقطہءنظر سے کی۔ اس کی جھلک ان کے تمام افسانوں میں نظر آتی ہے۔ پریم چند کی طرح منٹو کو اُمراءکی شان و شوکت اور نفیس زندگی سے کوئی دلچسپی نہیں ۔ ان کی نظر مزدور طبقے کے ان لوگوں پر ہے جن کی روز مرّہ کی زندگیاں گر دو غبار اور غلاظت سے اٹی جھو نپڑیاں اور کھولیوں میں گزرتی ہے ۔ وہ لوگ جو ہر روز اپنا پیٹ پالنے کےلئے انہی گھروں سے نکلتے ہیں اور رات کو تھکے ہارے وہیں آکر سو جاتے ہیں۔
منٹو کی تصانیف میں ناقدین نے بہت سی خامیاں بیان کی ہیں ۔ اس میں ایک واضح کمی زمان و مکاں کا ابہام ہے۔ ” منٹو کا جغرافیائی رقبہ مبہم ہے۔ ان کی ولادت امر تسر میں ہوئی لیکن ان کے افسانوں میں اس کا ذکر شاید صرف جلیا نوالہ باغ کے حوالے سے ہے۔ کوچہ اور گلی، سڑک یا محلہ ، ہر چیز بے نام ہے۔ اس کا کیا مطلب ہوا؟ یا تو وہ بے صبری میں کہانی کے مرکزی خیالوں کو پوری طرح پروا ن نہیں چڑھاتے یا پھر اپنے غرور میں اس کی پرواہ ہی نہیں کرتے۔ اس سے بھی بد تر یہ بھی ممکن ہے کہ ان کے خیال میں یہ غیر ضروری ہے۔“ (۷۱)
اس کے بر عکس جب منٹو اپنے کسی من پسند کر دار کا ذکر کرتے ہیں تو ان کی باریک بینی قابلِ رشک ہے ۔ ایک غریب طوائف کے رہنے کے کمرے کا یہ بیان مُلاحظہ ہو: ”کمرہ بہت چھوٹا تھا جس میں بے شمار چیزیں بے تر تیبی کے ساتھ بکھری ہوئی تھیں ۔ چھوٹے سے دیوار گیر پر سنگھار کا سامان رکھا تھا ۔ گالوںپر لگانے کی سرخی ، ہونٹوں کی سرخی بتیّ، پاﺅڈر ، کنگھی اور لوہے کے پِن جو وہ اپنے جوڑے میں غالباً لگا یا کرتی تھی۔
پاس ہی ایک لمبی کھونٹی کے ساتھ سبز طوطے کا پنجرہ لٹک رہا تھا جو گردن کو اپنی پیٹھ کے بالوں میں چھپائے سو رہا تھا۔ پلنگ کے پاس ہی بید کی ایک کر سی پڑی تھی جس کی پشت ٹیکنے کے باعث بے حد میلی ہو رہی تھی۔ اس کرسی کے دائیں ہاتھ کو ایک خوبصورت تپائی تھی جس پر ہز ماسٹرز وائس کا پورٹیبل گرامو فون پڑا تھا۔ اس تپائی کے عین اوپر دیوار پر چار فریم لٹک رہے تھے جن میں مختلف آدمیوں کی تصویریں جڑی تھیں۔ ان تصو یروں سے ذرا ہٹ کر یعنی دروازے میں داخل ہو تے ہی بائیں طرف کی دیوار کے کونے میں گنیش جی کی شوخ رنگ کی تصویرتھی جو تازے اور سوکھے ہوئے پھولوں سے لدی ہوئی تھی۔ اس تصویر کے ساتھ چھوٹے سے دیوار گیر پر جو کہ بے حد چکنا ہو رہا تھا، تیل کی ایک پیالی دھر ی تھی جو دیے کو روشن کرنے کےلئے وہاں رکھی گئی تھی“ (”ہتک“ )۔(۸۱)
1930ءمیں منٹو نے بمبئی کا رخ کیا۔ اس سے پہلے ان کا واسطہ تپ دق کے مرض سے پڑ چکا تھا جس کے لئے انہیں تین مہینے کےلئے کشمیر کے ایک سینا ٹوریم میں رہنا پڑا تھا۔ بمبئی میںمنٹو کا قیام 1935سے 1947تک رہا اور یہ ان کی زندگی کا سب سے سہانا اور سنہرا دور تھا۔ وہ بمبئی نذیر لد ھیانوی کی دعوت پر گئے تھے جنہوں نے ان کو اپنے ہفتہ وار ”مصور“ کی ادارت کی پیش کش کی تھی۔ بمبئی میں ان کی زندگی کی جامع تصویر ان کے افسانوں میں موجود ہے ۔ بائی کلہ جہاں کہ ان کا شروع میں قیام رہا اور ناگ پاڑہ کے گلی محلوں نے منٹو کو ان کے افسانوں کے لئے ایک موزوں پس منظر مہیا کیا۔
” اس علاقے میں اردو اخباروں کے دفتر مسلمانوں اور یہودیوں کی چالیں ، بھینسوں کے باڑے ، کوچبانوں کی تنگ و تاریک کھولیاں گھوڑیوں کے اڈے پارسی ڈاکٹروں، چینی دندان سا ز اور حکیموں کے مطب اور بمبئی کا سب سے بڑا قحبہ خانہ موجود تھے۔ مسز ڈی کوسٹا ، مسز ڈی سلوا، سوگندھی ، موذیل ، ممد بھائی (اور بہت سے کردار جنہیں ) ہم آسانی سے فراموش نہیں کر سکتے ۔ “ (۹۱)
بمبئی کے قیام کے عرصے کے دوران ہی تقریباً ڈیڑھ سال منٹو آل انڈیا ریڈیو دہلی سے بھی منسلک رہے جہاں ان کی رفاقت ریڈیو پاکستان کے ڈائر یکٹر ن م راشد کے علاوہ کرشن چندر، راجندر سنگھ بیدی ، اوپندر ناتھ اشک، پطرس بخاری اور دوسرے بہت سے اردو کے ادیبوں کے ساتھ رہی ۔ اس کے علاوہ بمبئی اس زمانے کا (اور آجکا بھی) فلموں کا بہت بڑا مرکز تھا ۔ منٹو نے مختلف کمپنیوں کے لئے بہت سے کہانیاں اور مکالمے لکھے جن میں ”اپنی نگریا “ ، ” چل چل رے نو جوان “ اور ” آٹھ دن “ قابلِ ذکر ہیں ۔ ” مرزا غالب“ کی کہانی بھی منٹو نے لکھی جوان کے پاکستا ن منتقل ہونے کے بعد ریلیز ہوئی اور بہت کامیاب ہوئی۔
بمبئی میں ہی ان کی شادی صفیہ بیگم کے ساتھ ہوئی جس کا مزا حیہ خاکہ انہوں نے ” میری شادی“ کے نام سے لکھا۔ گو کہ منٹو کی بمبئی کی زندگی قدرے خوشحال تھی لیکن اپنی اسی اندرونی بے چینی (جس کا ذکر ہم پہلے کر چکے ہیں ) اور بمبئی کے خاص سماجی ماحول ( جس میں ان کا بمبئی فلم انڈسٹری سے تعلق نما یاں ہے ) کی وجہ سے ان کی شراب نوشی میں بے اعتدالی آگئی تھی۔ اب وہ آہستہ آہستہ شراب کے عادی (Alcoholic)بن رہے تھے اور آنے والے سالوں کے واقعات نے اس روش کو اور ہوا دی حتیٰ کہ یہ بُری عادت ایک بیماری بن گئی ہے جو بالآخر جان لیوا ثابت ہوئی۔ منٹو اور صفیہ کے ہاں تین لڑکیاں ہوئی۔ ایک لڑکا بھی ہوا جو ڈیڑھ سال کا ہوکر چل بسا۔ ان کی ازدواجی زندگی کی جو معلومات ہمیں میسر ہیں ان سے پتہ چلتا ہے کہ ان کاگھر پر سکون اور ان کے لئے با عث ِراحت تھا ۔ صفیہ نے ان کے آخری برسوں میں بھی ، جب تنگدستی ، شراب نوشی اور گرتی ہوئی صحت سے وہ اکثر پریشان رہتے تھے ، ان کا بھر پور ساتھ دیا لیکن آخر کار وہ بھی منٹو کے اندرونی شیطان کو ختم نہ کر سکیں ۔
1947ءمیں منٹو نے پاکستان ہجرت کا فیصلہ کر لیا۔ اس کی وجوہات کئی جگہ بیا ن کی گئی ہیں ۔ اپنے خاکے” اشوک کمار“ میں منٹو نے خود اِس پر روشنی ڈالی ہے ۔ بہر حال ‘ وجہ جو بھی تھی، یہ بات طے ہے کہ لاہور آمد منٹو کےلئے خوش آئند نہیں تھی ۔ پاکستان کی فلم انڈ سٹری غیر مسلم فنکاروں کی ہجرت کی وجہ سے ویران ہو چکی تھی ۔ کوئی سٹوڈیو چل نہیں رہے تھے۔ لاہور میں منٹو کی آمدنی کا کوئی ذریعہ نہ تھا۔ اس کے علاوہ ، تقسیمِ ہند کے ہولناک واقعات نے منٹو پر بہت منفی اثر ڈالا تھا۔ ان کا ذہنی اضطراب بے حد بڑھ گیا تھا۔ لکھتے ہیں ” وہ لہو کس کا ہے جو ہر روز اتنی بے دردی سے بہا یا جا رہا ہے۔ وہ ہڈ یاں کہاں جلائی یا دفن کی جائیں گی جن پر سے مذہب کا گوشت پوشت چیلیں اور گدھ نو چ نوچ کر کھا گئے ہیں“( ” مُرلی کی دھن“ )۔ (۰۲)
ایک اور جگہ لکھتے ہیں :” بمبئی چھوڑ کر کراچی سے ہوتا ہوا غالباً ۷یا ۸ جنوری 1948کو یہاں لاہور پہنچا ۔ تین مہینے میرے دماغ کی عجیب و غریب حالت رہی ۔ سمجھ میں نہیں آتا تھا میں کہاں ہوں ۔ بمبئی میں ہوں ، کراچی میں یا لاہور میں ۔ تین مہینے تک میرا دماغ کوئی فیصلہ نہ کر سکا ۔ ایسا معلوم ہوتا تھا کہ پردے پر ایک ساتھ کئی فلم چل رہے ہیں ۔ آپس میں گڈ مڈ۔ گر دو پیش جدھر بھی نظر ڈالتا تھا، انتشار ہی انتشار دکھائی دیتا تھا۔ کچھ لوگ بے حد خوش تھے کیونکہ ان کے پاس ایک دم دولت آگئی تھی لیکن اس خوشی میں بھی انتشار تھا جیسے وہ بکھر کر ایک دن ہوا ہو جانے والی ہے۔ اکثر مغموم و متفکر تھے کیونکہ وہ لٹُ پٹُ کر آئے تھے۔ مہاجروں کے کیمپ دیکھے۔ یہاں خود انتشار کے رونگٹے کھڑے دیکھے ۔ غرض کہ عجیب افراتفری کا عالم تھا۔ ایک کا قہقہہ دوسرے کی آہ سے دست و گریباں تھا۔ دو دھارے بہہ رہے تھے۔ ایک زندگی کا دھارا ، ایک موت کا دھارا“ (زحمت مہر درخشاں)۔ (۱۲)
پاکستان پہنچنے کے چند مہینوں بعد ہی ان کا افسانہ ” کھول دو“ ماہنامہ ” نقوش“ میں چھپا اور ان پر پاکستان آنے کے بعد پہلا مقدمہ چلایا گیا۔مزید چند مہینوں کے بعد مارچ1949میں ” جاوید“ کے خاص نمبر میں ”ٹھنڈا گوشت“ شائع ہوااور منٹو کو پھر گرفتار کر لیا گیا۔ گو کہ ان تمام مقدمات سے منٹو کو با عزت بری کر دیا گیا ( اس سے پہلے 1942ءمیں ان کے افسانے” کالی شلوار“ 1944میں افسانہ ”بو“ اور ”دھواں “ پر بھی مقدمات چل چکے تھے) ، پھر بھی ، قانونی کاروائی ، خاص کر ایسے انسان کےلئے جو بے روز گاری اور معاشی بد حالی کا شکار ہو یقینا نہایت صبر آما رہی ہو گی ۔
ان تمام مصیبتوں کے باوجود لاہور کا قیام تخلیقی اعتبار سے ان کی زند گی کا بہترین دور تھا۔ ان سات برسوں میں انہوں نے ایک سو ستائیس کہانیاں لکھیں ۔ اس کے علاوہ مضامین کے دو،خاکوں کے دو اور اپنے افسانوں پر مقدمات کی پیشی کی روداد کا ایک مجموعہ اور ایک ناولٹ ” بغیر عنوان کے“ شامل ہے۔ اس سے ظاہر ہوتا ہے کہ بڑھتی ہوئی ذہنی اور جسمانی کمزوری کے با وجود منٹو کی تخلیقی صلاحیتیں آخردم تک قائم تھیں گو کہ ان کے آخری سالوں کے کچھ افسانے (مثلاً ”پھندنے“) پڑھ کر یہ گمان ہونے لگتا ہے کہ یہ واقعی کسی دیوانے کا کام ہے۔
بہر حال ، اس سر سری تجز یے سے یہ بات ظاہر ہے کہ منٹو کی زندگی میں متواتر اتار چڑھاﺅ آتے رہے جن کی وجہ سے ان کی فطری بے چینی بڑھتی گئی ۔ اس کیفیت کا علاج وہ شراب پی کر کرتے رہے اور اسی لت نے آخر ان کی جان لے لی۔ لاہور کے سالوں میں ان کو اچھی طرح پتہ تھا کہ سستی شراب ان کے لئے زہر ہے لیکن پھر بھی باز نہ آئے۔ لکھتے ہیں ”آپ کو یقین نہیں آئے گا چچا جان ، بیس بائیس کتابوں کا مصنف ہونے کے بعد بھی میرے پاس رہنے کےلئے اپنا مکان نہیں۔ اخبار میں اگر میرا کوئی مضمون چھپ جائے اور سات روپے فی کالم کے حساب سے مجھے بیس پچیس روپے مل جائیں تو میں تانگے پر بیٹھتا ہوںا ور اپنے یہاں کی کشید کر دہ شراب بھی پیتا ہوں۔ یہ ایسی شراب ہے کہ اگر آپ کے ملک میں کشیدکی جائے تو آپ اس ڈسٹلری کو ایٹم بم سے اڑا دیںکیونکہ ایک بر س کے اندر اندر ہی یہ خانہ خراب انسان کو نیست و نابود کر دیتی ہے“ ( ”چچا سام کے نام ایک خط“)۔(۲۲)
یہ بات تو ہم نے دیکھ لی کہ خارجی حالات کی خرابی نے کس طرح منٹو کو متاثر کیا۔ بچپن میں گھریلو ماحول ، لڑکپن میں سکول اور کالج کی مشکلات ، جوانی میں معاشی بد حالی پھر تقسیمِ ہندوستان اور ہجرت کی تکالیف اور آخری برسوں میںانتہائی معاشی تنگ دستی ، یہ تمام عوامل ان کے لیے بے حد پریشانی اور اضطراب کا باعث بنے رہے لیکن سوال یہ ہے کہ ان کا اثر منٹو پر اتنا منفی کیوں رہا۔ لاکھوں کروڑوں لوگ ہر روز ایسی مشکلوں سے گزرتے ہیں لیکن شراب کے ذریعے خود کشی نہیں کرتے۔
یہ بات یاد رہے کہ منٹو کو آخری ایام میں اچھی طرح علم ہو چکا تھا کہ اگر انہوں نے شراب نہ چھوڑی تو یہ ان کی جان لے کر رہے گی۔ اس کے با وجود وہ پیتے رہے، گویا انہوں نے شعوری طور پر موت کو ترجیح دی ، اسی شخص کی طرح جو پستول لے کر اپنی کن پٹی پر گولی مار لیتا ہے یا چلتی ہوئی ریل گاڑی کے سامنے چھلا نگ لگا دیتا ہے ۔ نفسیاتی اصطلاح میں اس رویہ کو ”موت کی رو“ (Death Drive)کا نام بھی دیا گیا ہے۔ یہ وہ کشش ہے (بقول فرائڈ ) جو ہر زندہ چیز میں کا ر فرما ہے اور اسے ہر لمحہ فنا کی طرف دھکیل رہی ہے۔ فرائڈ نے اس کشش کو تھانا ٹوس (Thanatos)کا نام دیا ہے یعنی یونانی اساطیر کی وہ روح جو موت کا عکس ہے۔ اس کے بر عکس ” ایروس“ (Eros)زندگی کی کشش ہے جو زندگی کو پھلنے پھولنے اور قائم رہنے کی ترغیب دیتی ہے(۰۲)۔ اس کا ذکر ہم کچھ آگے چل کر دوبارہ کریں گے۔ فرائڈ کی نفسیات کے مطابق، منٹو کے فطری اور پیدائشی نفسیاتی وجود پر مسلسل خارجی عوامل کے اثر نے بالآخر اس کو اس بات پر مجبور کیا کہ وہ موت کے آگے ہتھیار ڈال دے۔ کچھ نفسیات دان یہ بھی کہیں گے کہ لاہور میں منٹو کی غیر معمولی تخلیقی پیدا وار (باوجود معاشی بد حالی اور گرتی ہوئی صحت کے) اس بات کی نشانی تھی کہ لاشعوری طور پر وہ نہ صرف اپنی عنقریب آنے والی موت سے با خبر تھے بلکہ اس کے لئے تیاری کر رہے تھے۔ ایک اور نقطہ نگاہ فیض نے بھی بیا ن کیا ہے(جو امر تسر میں مختصراًمنٹو کے استاد رہے تھے):
”منٹو کی وفات کا سن کا بہت دکھ ہوا۔ ہمارے شر فاءجنہیں دور حاضر کے فنکار کی شکت ِدل کا نہ احساس ہے نہ اس سے کوئی ہمدردی غالباً یہی کہیں گے کہ منٹومر گیا تو اس کا اپنا قصور ہے ۔ بہت پیتا تھا، صحت کا ستیا ناس کر لیا وغیرہ وغیرہ لیکن یہ کوئی نہیں سوچے گا کہ اس نے ایساکیوں کیا؟ ایسے ہی کٹیس(Keats)نے بھی اپنے آپ کو مار رکھا تھا ۔
برنز (Burns)نے بھی مو ز ارٹ (Mozart)نے بھی ، اور بھی کئی نام گنوائے جا سکتے ہیں۔ بات یہ ہے کہ جب معاشرتی حالات کی وجہ سے فن اور زندگی ایک دوسرے سے بر سرِ پیکار ہوں تو دونوں میں سے ایک کی قربانی دینی پڑتی ہے۔ دوسری صورت سمجھو تہ بازی کی ہے جس میں دونوں کا کچھ حصہ قربان کرنا پڑتا ہے اور تیسری صورت ان دونوں کو یکجاکر کے جدو جہد کا مضمون پیدا کرنے کی ہے جو صرف عظیم فنکاروں کا حصّہ ہے“۔(۱۲)
منٹو اور جنسی مسائل
منٹو کی شخصیت کے اس جائزے کے آخر میں اس چیز کا ذکر لازمی ہے جس کے بغیر منٹو منٹو نہیں ہے۔ اردو افسانہ نگاری کی تاریخ میں شاید ہی کوئی فنکار ہو گا جس نے مرد اور عورت کے باہمی جنسی تعلق کو اس دلیری سے بیان کیا ہو۔ منٹو کو پہلی بار پڑھنے والا قاری اس بیباک طرزِ بیان سے متاثر ہو ئے بغیر نہیں رہ سکتا ۔ اس بات سے قطع نظر کہ منٹو کی ” جنسی “ تصانیف فن کے دائرے سے نکل کر فحش نگاری کی حدود میں داخل ہوتی ہیں یا نہیں اس سے کوئی انکار نہیں کر سکتا کہ منٹو نے انسانی زندگی کے اس اہم پہلو کی تحقیق اور تفتیش میں کوئی کسر نہیں چھوڑی ۔
اس پہلو کا ذکر اس لیے بھی ضروری ہے کہ منٹو کی شہرت (اور بدنامی) میں جنسی تعلقات کے بیان کی مرکزی حیثیت تھی۔ ان پر چلائے جانے والے تمام مقدمات اسی چیز پر مبنی تھے یعنی یہ تاثر یا الزام کہ منٹو فنکار نہیں فحش نگار ہےں۔ سب سے پہلے یہ دیکھتے ہیں کہ منٹو خود اپنے فن کے اس پہلو کے بارے میں کیا کہتے ہیں: ” دنیا کا سب سے بڑا مسئلہ ، یعنی تمام مسئلوں کا باپ اس وقت پیدا ہوا جب آدم نے بھوک محسوس کی تھی اور اس سے چھوٹا مگر دلچسپ مسئلہ اس وقت پردہ ظہور پر آیا تھا جب دنیا کے اس سب سے پہلے مر د کی دنیا کی سب سے پہلی عورت سے ملاقات ہوئی تھی۔ “ (۲۲)
یہاں یہ بات قابلِ غور ہے کہ منٹو نے انسان کی دو فطری جبلتوں کو بڑے اختصار سے بیان کر دیا ہے ۔ یہ بات بہت عرصے سے زیر بحث ہے کہ آیا جنسی کشش بھوک یا پیاس کی طرح ایک بنیادی قوت ہے یا اس کا وجود ثانوی ہے۔ عام مشاہدے سے یہ بات ظاہر ہے کہ اپنے زیادہ تر قی یافتہ دماغ کی بدولت انسان حیوانوں کے مقابلے میں جنسی کشش پر بہتر قابو پا سکتے ہیں اور اگر ضرورت پڑے تو لمبے عرصے کےلئے ( یا تاحیات) اسے دبا بھی سکتے ہیں لیکن اس قسم کی کوشش کا شخصیت یا صحت پر کیا اثر پڑتا ہے؟ سائنسی تحقیق یہ بتاتی ہے کہ جنسی کشش کو دبانے کے غیر فطری عمل سے شخصیت اور احساسات پر منفی اثرات مرتب ہوتے ہیں ( گو کہ یہ اثرات اتنے مہلک نہیں ہوتے جتنے کھانے یا پانی کے اجتناب سے)۔ اگر جنسی محرومی شدت اختیار کر جائے تو یہ جسمانی بیماریوں اور جرائم کا سر چشمہ بھی بن سکتی ہے۔ نفسیات دان یہ بھی جانتے ہیں کہ اکثر ذہنی مریض جنسی علامات میں مبتلا ہوتے ہیں اور انہی کے علاج کے لئے سائیکاٹرسٹ یا ماہر ِ نفسیات کے پاس آتے ہیں ۔ جدید نفسیات کے بانی سگمنڈ فرائڈ بھی جنسی جبلّت کو انسان کی شخصیت اور اس شخصیت کے ارتقا ءکا محور گردانتے ہیں ۔ لطف یہ ہے کہ فرائڈ پر بھی بعین ہی وہی الزام عائد کئے گئے تھے جو منٹو پر لگائے گئے یعنی فحش نگاری اور بد اخلاقی ۔ یہ الزام اس وقت لگے تھے جب فرائڈ نے جنسی قوت جسے انہوں نے لبیڈو(Libido)کا نام دیا ، اُس کو انسانی شخصیت کے ارتقاءکا بنیادی جُز قرار دیا۔
یہ Libidoاسی کشش کا ایک اور روپ ہے جسے فرائڈ نے یونانی اسا طیر کے محبت کے عکس ” ایرو س“Erosکا نام دیا تھا۔ یہ وہ قوت ہے جو زندگی کو فروغ دیتی ہے اور اس کے پھلنے پھولنے میں کار فرما ہوتی ہے۔
فرائڈ کے زمانے کے ”وکٹورین سماج“ (Victorian Society)میں اس کی شدید مذمت کی گئی کیونکہ وہ زمانہ آج کے زمانے کے کچھ معاشروں کی طرح مذہبی اور اخلاقی طور سے بے حد قدامت پسند (Conservative)زمانہ تھا جس میں جنسی کشش کی بات تو کجا، اس کا اعتراف بھی بے حیائی اور فحاشی سمجھا جاتا تھا۔ فرائڈ ایک عقلمند انسان تھے اور ان کو اچھی طرح علم تھا کہ ان کے نظر یات خاص کر جنس سے متعلق نظریات اس سماج میں بم کی طرح پھٹیں گے لیکن ساتھ ساتھ وہ ایک تحقیقی سائنس دان بھی تھے اور انہیں یقین تھا کہ تحقیق اور تفتیش انہیں جس نتیجے پر پہنچائے گی، وہ درست ہو گا۔ اس ضمن میں خاص کر ان کی شیر خوار بچوںکی جنسی جبلت (Infantile Sexuality) پر تحقیق اور مقالوں سے بہت کہرام مچا۔ آج نفسیات میں یہ بات تسلیم شدہ ہے کہ جنسی جبلت پیدائش کے دن سے ہر بچے میں پائی جاتی ہے ۔ والدین کا یہ عام مشاہدہ ہوتاہے کہ شیر خوار بچے بھی اس سے مستثنیٰ نہیں ہیں گو کہ بچوں کی جنسی کشش بالغوں سے قطعی مختلف ہوتی ہے کہ اس کا مرکز کوئی دوسرا شخص یا خاتون نہیں ہوتی ۔ وقت(اور ماں باپ کی بار بار ہدایت) کے ساتھ ،بچوں کی فطری جنسی کشش دب کر ان کے لاشعور میں چلی جاتی ہے او ر عفوانِ شباب کے وقت دوبارہ نمو دار ہوتی ہے۔ یہ عمل کیمیائی اور ہارمونی(Hormonal)تبدیلیوں کے طابع ہوتا ہے اور بڑھتے ہوئے بچے کی شخصیت پر بھی گہرا اثر ڈالتا ہے۔
مختصراً یہ کہ جنسی جبلّت پیدائش سے موت تک انسان کے ساتھ رہتی ہے۔ اس سچ کا اقرار کرنا اور پھر سماجی اور خاندانی رشتوں ناطوں میں اس کا صحیح مقام ڈھونڈنا ہر فرد اور ہر معاشرے کےلئے ایک چیلنج رہا ہے۔ اگر ہم اس معاشرے پر نظر ڈالیں جس میں منٹو جوان ہوئے تو وہ یقینی طور پر اخلاقی اور مذہبی قدامت پسندی کا شکار تھا ( اور بہت سے پہلو ﺅں سے اب بھی ہے )۔ یہ بھی یاد رہے کہ انہیں رویوں کے ردِّعمل میں 1932میں چار نوجوان مصنّفین نے ایک افسانوں کا مجموعہ ” انگارے “ کے نام سے شائع کیا تھا جو بعد میں ترقی پسند تحریک کی ایک مرکزی تحریر بنا۔
ان سب باتوں سے یہ بات ظاہر ہے کہ منٹو کا اپنی تصانیف میں جنسی محرکات کو ایک مرکزی حیثیت دینا اس بات کی دلیل تھی کہ وہ انسانی زندگی میں اس جذبے کی بنیادی حقیقت سے اچھی طرح واقف تھے۔ وہ شعوری طور پر اپنے منجمدمعاشرے کو ہلانا چاہتے تھے اور ایک ایسی حقیقت جو کسی سے چھپی ہوئی نہیں تھی، کو دوبارہ سامنے لانا چاہتے تھے۔ ان کی اس سچی کوشش کی تصدیق اس وقت ہوئی جب تقسیمِ ہند کے زمانے میں زنا بالجبر اور جنسی تشدد کے ہزاروں دل سوز واقعات پیش آئے ۔ 1947کے واقعات نے کم از کم یہ بات تو ثابت کر دی کہ منٹو جن جذبات کی تشریح اپنی تصانیف میں کرتے ہیں ، ان کا وجود ہر سماج کا بنیادی حصہ ہے۔
اب ایک بار پھر دیکھتے ہیں کہ منٹو خود اس بارے میں کیا کہتے ہیں : ”جو لوگ سمجھتے ہیں کہ نئے ادب نے جنسی مسائل کو پیدا کیا ہے، غلطی پر ہیں کیوں کہ حقیقت یہ ہے کہ جنسی مسائل نے اس نئے ادب کو پیدا کیا ہے۔ عورت اور مرد میں جو فاصلہ ہے۔ اس کو عبور کرنے کی کوشش ہر زمانے میں ہوتی رہے گی۔ جو اسے عریانی سمجھتے ہیں، انہیں اپنے احساس کے ننگ پر افسوس ہونا چاہیے۔ “ (۳۲)
منٹو کی تصانیف چاہے کچھ روایتی ” ترقی پسند“ فنکاروں کی نظریاتی کسوٹی پر پوری نہ اتری ہوں ، لیکن اپنے زمانے کی بوسیدہ ، زنگ آلود اقدار کو جھنجوڑ کر انہوں نے بہت سے لوگوں کی آنکھیں کھول دیں ۔ وہ اپنے آپ کو انقلابی نہ بھی مانیں، لیکن ان کی سوچ اور ان کا کام انقلابی تھا۔ آج اگر جنسی معاملات کا تذکرہ اور جنسی مسائل کی تشخیص کھل کر کی جاتی ہے تو اس کا سہرا منٹو کے سر بھی ہے۔
” انسان ایک دوسرے سے کوئی زیادہ مختلف نہیں ۔ جو غلطی ایک مرد کرتا ہے ، دوسرا بھی کر سکتا ہے ۔ جب ایک عورت بازار میں دکان لگا کر اپنا جسم بیچ سکتی ہے تو دنیا کی سب عورتیں کر سکتی ہیں۔ لیکن غلط کار انسان نہیں ، وہ حالات ہیں جن کی کھیتیوں میں انسان اپنی غلطیاں پیدا کرتا ہے اور ان کی فصلیں کاٹتا ہے۔“ (۴۲)
ترقی پسندی کا اس سے بہتر بیان مشکل ہے ۔ منٹو ہر عظیم فنکار کی طرح ہمارے سامنے سچ کے موتی پیش کرتے ہیں ۔ اگر حقیقت ہمیں کڑوی لگتی ہے تو اس کے ذمہ دار منٹو نہیں ہیں۔
حوالے
(۱) لُدمیلا وسیئلیوا۔پرورشِ لوح و قلم: فیض، حیات اور تخلیقات۔آکسفورڈ یونیورسٹی پریس، لاہور، ۷۰۰۲ئ۔
(۲) وارث علوی۔ منٹو، ایک مطالعہ۔ الحمرا پبلشنگ، اسلام آباد، ۳۰۰۲۔
(۳) ایضاً
(۴) Culture and Identity: Selected English Writings of Faiz.Comp. Ed. Sheema Majeed.Oxford University Press, Lahore. 2006.
(۵) عائشہ جلال، نصرت جلال (مرتب) منٹو۔ ”ادبِ جدید“، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۱۰۲ئ۔
(۶) سعادت حسن منٹو۔ ”جیبِ کفن“۔ منٹو نامہ، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۷۰۰۲ئ۔
(۷) عائشہ جلال، نصرت جلال (مرتب) منٹو۔ ”سیاہ حاشیے“، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۱۰۲ئ۔
(۸) سعادت حسن منٹو۔ ”شاداں“۔ منٹو رامہ، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۷۰۰۲ئ۔
(۹) سعادت حسن منٹو۔ ”سو کینڈل پاور کا بلب“۔ منٹو رامہ، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۷۰۰۲ئ۔
(۰۱) سعادت حسن منٹو۔ ”گورمکھ سنگھ کی وصیت“۔ منٹو نامہ، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۷۰۰۲ئ۔
(۱۱) وارث علوی۔ منٹو، ایک مطالعہ۔ الحمرا پبلشنگ، اسلام آباد، ۳۰۰۲۔
(۲۱) ایضاً
(۳۱) عائشہ جلال، نصرت جلال (مرتب) منٹو۔ ”باری صاحب“، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۱۰۲ئ۔
(۴۱) شمشیر حیدر شجر،نویدالحسن (مرتب) سعادت حسن منٹو(پچاس برس بعد)، سویرا آرٹ پریس، لاہور، ۵۰۰۲ئ۔
(۵۱) The Craft of Manto, Warts and All. Keki N.Daruwalla. The Annual of Urdu Studies, Vol. 11, 1996.
(۶۱) عائشہ جلال، نصرت جلال (مرتب) منٹو۔ ”ہتک“، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۱۰۲ئ۔
(۷۱) وارث علوی۔ منٹو، ایک مطالعہ۔ الحمرا پبلشنگ، اسلام آباد، ۳۰۰۲۔
(۸۱)عائشہ جلال، نصرت جلال (مرتب) منٹو۔ ”مُرلی کی دھن“، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۲۱۰۲ئ۔
(۹۱) سعادت حسن منٹو۔ ”چچا سام کے نام ایک خط“۔ منٹو رامہ، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۷۰۰۲ئ۔
(۰۲) Freud, S. (1925). "The Resistances to Psycho-Analysis”, in The Collected Papers of Sigmund Freud, Vol. 5, p.163-74. (Tr. James Strachey.)
(۱۲) فیض احمد فیض۔صلیبیں مرے دریچے میں، مکتبہءدانیال، کراچی، ۱۱۰۲ئ۔
(۲۲) سعادت حسن منٹو۔ ”افسانہ نگار اور جنسی مسائل“۔ منٹو نامہ، سنگِ میل پبلی کیشنز، لاہور، ۷۰۰۲ئ۔
(۳۲) ایضاً
(۴۲) ایضاً