خبریں/تبصرے

طالب کی بطور چانسلر تعیناتی: پروفیسرز یونین نے فیصلہ واپس نہ لینے کی صورت میں احتجاج کی دھمکی دیدی

یاسمین افغان

ایک طالب، اشرف غیرت، کی بطور چانسلر کابل یونیورسٹی تعیناتی کی وجہ سے سوشل میڈیا پرہی نہیں پورے ملک میں گھر گھر باتیں ہو رہی ہیں۔ ہر طرف زبردست تنقید ہو رہی ہے۔ کابل یونیورسٹی کی فیکلٹی بالخصوص غصے میں ہے۔

اشرف غیرت جنہوں نے افغان نیوز ایجنسی خامہ پریس کے مطابق صرف گریجویشن کر رکھی ہے، ڈاکٹر عثمان بابری کی جگہ نامزد کئے گئے ہیں۔ ڈاکٹر بابری نے جرمنی سے پی ایچ ڈی کر رکھی ہے۔

اشرف غیرت کی تعیناتی کے بعد ان کے بعض پرانے ٹویٹ بھی سامنے آئے ہیں۔ ایک ایسے ہی ٹویٹ میں انہوں نے کہا تھا: ”ایک جاسوس صحافی سو پولیس والوں سے خطرناک ہوتا ہے۔جو لوگ صحافیوں کو قتل کرنے سے گریز کرتے ہیں مجھے ان کی ایمان پر شک ہے۔ جاسوس صحافیوں کو قتل کر دو۔ میڈیا کو قابو کرو“۔

اشرف غیرت کے ایک پرانے ہم جماعت عارف بہرامی نے اپنی ایک تازہ فیس بک پوسٹ میں لکھا ہے: ”بدقسمتی سے یہ بدترین شخص اشرف غیرت شعبہ صحافت، جامعہ کابل میں میرا چار سال تک کلاس فیلو بھی تھا اور ایک سال ہم ہاسٹل کے ایک ہی کمرے میں رہے۔کسی بھی مضمون میں پہلی دفعہ پاس ہونا بھی اس کے لئے مشکل ہوتا تھا۔مجھے یاد ہے یہ شخص خواتین کلاس فیلوز اور اساتذہ کے ساتھ انتہائی بدتمیزی کے ساتھ پیش آتا۔ کیا واقعی طالبان نے اسے کابل یونیورسٹی کا چانسلر تعینات کر دیا ہے؟ میرا دل ٹوٹ گیا ہے۔ایک جاہل، نالائق اور نا اہل شخص کو اتنی مقدس جگہ پر بٹھا دیا گیا ہے۔ اس تعیناتی کا مطلب ہے کہ افغانستان میں اعلی تعلیم کا مستوبل اب تاریک ہے۔کابل یونیورسٹی،جس کی ہم سب کے دلوں میں بہت سی خوبصورت یادیں ہیں، کے ساتھ یہ ظلم ہے۔یوین کیجئے یہ انتہائی دل شکن ہے“۔

اپنی تعیناتی کے بعد ایک تویٹ میں اشرف غیرت نے کہا کہ وہ یونیورسٹی سے مغربی اور کافرانی سوچ کا خاتمہ کریں گے، وہ یہاں سے بے حیائی اور اخلاقی بدعنوانی کا خاتمہ کریں گے اور یونیورسٹی کو ایک مذہبی مقام بنا دیں گے۔

ادہر یونیورسٹی اساتذہ کی یونین نے دھمکی دی ہے کہ کابل یونیورسٹی سمیت اگر دیگر یونیورسٹیوں میں بھی کی گئی ایسی تعیناتیاں ایک ہفتے کے اندر اندر واپس لی جائیں۔

ادہر یہ بھی غیر مصدقہ اطلاعات ہیں کہ کابل یونیورسٹی کے ستر اساتذہ بطور احتجاج مستعفی ہو گئے ہیں۔

Yasmeen Afghan
+ posts

’یاسمین افغان‘ صحافی ہیں۔ وہ ماضی میں مختلف افغان نیوز چینلوں کے علاوہ بی بی سی کے لئے بھی کام کر چکی ہیں۔ سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ان کا قلمی نام استعمال کیا جا رہا ہے۔