آج فیض احمد فیض کا 37 واں یوم وفات ہے۔ اس موقع پر ماضی کے معروف ترقی پسند صحافی اور مارکسی دانشور حمید اختر کا یہ مضمون از سر نو پیش کیا جا رہا ہے۔
حمید اختر
کوئی ایک ماہ بعد میں کراچی گیا تو ان سے ملنے ان کے گھر پہنچا۔
اس وقت عبداللہ ہارون ٹرسٹ کی روح و رواں ڈاکٹر شوکت ہارون اور فیض کے درمیان زبردست بحث جاری تھی۔ پہلے تو میں سمجھا کہ شاید یہ لوگ فیض کو کم تنخواہ دے رہے ہیں مگر بعد میں پتہ چلا کہ ٹرسٹ کی انتظامیہ نے ان کی تین ہزار روپے ماہوار تنخواہ مقرر کی ہے۔ ڈاکٹر شوکت اصل میں انہیں یہی بتانے آئیں تھیں۔فیض نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا یہ تنخواہ بہت زیادہ ہے۔ انہیں صرف اٹھارہ سو روپے ماہوار چاہئیں، بحث اس بات پر ہورہی تھی۔ ڈاکٹر شوکت کے جانے کے بعد میں نے کہا ”انتظامیہ نے قواعد کے مطابق جو مشاہرہ کیا ہے وہ آپ کو قبول کر لینا چاہئے۔“
کہنے لگے ”بھئی ہم نے حساب لگایا ہے اور ہماری ضرورتیں اس رقم میں پوری ہو سکتی ہیں۔ باقی پیسے یہ لوگ کسی اور بہتر کام میں لگاسکتے ہیں“ چنانچہ وہ جتنا عرصہ کراچی میں اس کالج کے پرنسپل رہے یہی تنخواہ وصول کرتے رہے۔ مزدور بستی میں تعلیمی سرگرمیوں کے اجراء سے وہ حقیقتاً بہت خوش تھے۔ یوں بھی پاکستان کے ہر شہر اور علاقے میں ان کے شاگرد مل جاتے تھے۔ ایم او کالج امرتسر میں چند برس وہ لیکچرر رہے تھے‘ اس زمانے کے شاگرد اکثر مل جاتے۔ اب کراچی آنے کے بعد شاگردوں کی نئی کھیپ تیار ہونے لگی۔
پرانے شاگردوں سے دوستی اور ان میں فیض کی مقبولیت کا ایک اور واقعہ یاد آرہا ہے۔ اٹھارہ بیس برس پرانی بات ہے کہ سوویت روس سے وہاں کے ادیبوں کی انجمن کی سیکرٹری اور فیض کی نظموں کے مترجم مریم سلگا نیک لاہور آئیں۔ ایک شام فیض اور مریم کو کھانا کھلانے میں اپنے کلب لے گیا۔ باتوں باتوں میں مریم نے مادام نور جہاں سے ملنے کی خواہش ظاہر کی۔ میں نے وہیں سے مادام کو فون کیا۔ نور جہاں نے پہلے تو معذرت کی، اس لئے کہ بقول اس کے وہ اٹھ کر استقبال کرنے کے قابل نہیں تھیں اور تین چار ہفتے بعد بچے کو جنم دینے والی تھیں۔ میرے اصرار پر وہ رضامند ہوگئیں اور ہمارے منع کرنے کے باوجود اس حالت میں باہر آکر ہم لوگوں کا استقبال کیا۔
رات دس گیارہ بجے تک بڑی شاندار محفل رہی۔ نور جہاں نے فیض کی بہت سی نظمیں اور غزلیں گا کر سنائیں۔ وہ شاید واحد گلوکارہ ہیں جو ساز کی محتاج نہیں، میں نے متعدد گھریلو اور نجی محفلوں میں اسے گاتے اور گنگناتے سنا ہے اور کبھی ساز کی کمی محسوس نہیں کی۔ فیض کو سمجھ کر اور محسوس کرکے گانے والوں میں مادام نور جہاں اور اقبال بانو سرفہرست ہیں۔
رات کے گیارہ بجے کے بعد ہم نور جہاں کے گھر سے نکلے تو معلوم نہیں کیسے پیشہ ور گانے والیوں اور ان سے متعلق ہماری تہذیبی روایات کا ذکر چل نکلا۔ مریم نے کہا۔ ”تمہارے ہاں ناچنے گانے والوں کا بازار بھی چل رہا ہے‘ جو میں دیکھنا چاہتی ہوں“۔ ہم دونوں نے اس کو ٹالنے کی بہت کوشش کی مگر وہ مصررہی اور آخر کار ہم اسے اس بازار میں لے گئے۔ وہاں کے حالات کے بارے میں فیض صاحب اور میری معلومات صفر کے برابر تھیں البتہ وہاں کی ایک رقاصہ کو جو فلموں میں ناچتی گاتی تھی میں نام سے جانتا تھا اور سٹوڈیو میں دو چار بار اسے مل بھی چکا تھا۔ ہم پوچھتے پوچھتے اس کے اڈے پر پہنچ گئے۔ اندر سے طبلے کی تھاپ اور گھنگھروؤں کے چھنکنے کی صدائیں آرہی تھیں۔ دروازے بند تھے اور تماشائی نعرے لگارہے تھے۔ باہر کے حاشیہ برداروں نے بتایا کہ اندرکوئی خاص پارٹی آئی ہوئی ہے۔ دروازہ کھولنے کی اجازت نہیں ہے۔ ہم نے کسی طرح اندر پیغام بھجوایا۔ یہ ڈر بھی تھا کہ مہمان عزیز کے سامنے بے عزتی نہ ہوجائے۔ اندر کے لوگ جس موڈ میں تھے‘ کچھ بعید نہ تھا کہ بے ہودگی پر اتر آتے مگر ہوا یہ کہ پیغام پہنچتے ہی دروازے کھل گئے۔ تماش بین جو رقص و سرور کی محفل سجائے بیٹھے تھے، اٹھ کر کھڑے ہو گئے۔ کسی نے فیض صاحب کا ہاتھ چوما، کوئی پاؤں پر گرا۔ کسی نے گلے میں بانہیں ڈالیں اور اس طرح ہم تینوں کو بڑی عزت سے بٹھایا۔ ناچ شروع ہوا تو یہ لوگ باری باری پانچ پانچ دس دس روپے کے نوٹ کبھی فیض صاحب کے سر پرکھتے، کبھی مریم کے اور کبھی میرے۔ اب صورت یہ ہوئی کہ آدھ گھنٹے کے بعد ہم اٹھنا چاہتے ہیں مگر میزبان اٹھنے نہیں دیتے، مشروبات کی بھرمار ہے، ویلیں دی جارہی ہیں، گھنٹے ڈیڑھ گھنٹے کے بعد بڑی مشکل سے وہاں سے بھاگے۔ پہلے تو مریم نے سوال کیا”نوٹ سر پررکھنے اور وہاں سے رقاصہ کے اٹھالے جانے کی رسم کیا ہے اور اس کی تہذیبی اہمیت پر روشنی ڈلوا اور تاریخی عوامل کی رُو سے اس رواج کو تم کس طرح بیان کرو گے۔ ”ہم نے کچھ اینٹ شنٹ بے تکی سی بات کر کے اس بی بی کو بڑی مشکل سے چپ کرایا اور فیض صاحب سے پوچھا۔ ”یہ کوٹھے پر آپ کے چاہنے والے کون لوگ تھے۔“
”بھئی یہ سب ہمارے پرانے شاگرد تھے۔ ایم اے او کالج امر تسر کے زمانے کے‘ بڑی مدت کے بعد آج یہاں مل گئے۔“