پاکستان

بزدلوں کی سامراج مخالفت

فاروق سلہریا

بزدلوں کا سپہ سالار بھٹو بننا چاہتا ہے لیکن پھانسی گھاٹ تو کجا، بندی خانے تک جانے سے خوفزدہ ہے۔

ادہر بزدلوں کی سپاہ پاکستانی فوج کو للکار رہی ہے مگر ٹوئٹر ہینڈل کی مدد سے، یورپ اور امریکہ میں بیٹھ کر۔ ’انقلاب‘کے ان ننھے ’سپاہیوں‘ کو تو اتنا بھی معلوم نہ ہو گا کہ شاہی قلعہ کس چیز کی علامت تھا، مساوات تحریک کیا تھی، رزاق جھرنا کون تھا؟ الذوالفقار کس رومانس کا نام تھا۔ ’لیبیا سازش کیس‘ کس جھوٹ کا پلندہ تھا؟ سوشلسٹ مجلہ ’جدوجہد‘ ایمسٹرڈیم سے کس نے کیوں نکالا یا 10 اپریل کو جب بے نظیر بھٹو واپس آئی تو وہ نظم کس نے لکھی تھی جو بی بی نے مینار پاکستان پر کھڑے ہو کر پڑھی تھی:

میں باغی ہوں
میں باغی ہوں

پاکستان کے سامراج مخالف انقلابیوں کے لئے بھٹو کوئی غیر متنازعہ شخصیت نہ تھا لیکن ’شان سلامت رہتی ہے‘ اگر کوئی بہادری سے پھانسی گھاٹ پر کھڑا ہو کر بولے: ناؤ فنش اِٹ (Now Finish It)۔

جب سوچ یہ ہو کہ اگر پولیس ہمیں مارے گی تو ہم انقلاب کیسے لائیں گے تو پھر اسد قیصر اور سوری جیسے مسخرے ہی سامنے آتے ہیں۔ ناصر زیدی، اقبال جعفری، مسعود اللہ خان اور خاور نعیم ہاشمی نہیں۔

ویسے کیا یہ بزدل ’سامراج مخالف‘وہی لوگ نہیں جنہوں نے کل تک جنرل باجوہ کی ڈی پی بنا رکھی تھی اور خڑکمر کے شہیدوں کو را کے ایجنٹ قرار دے رہے تھے؟ یہ بزدل سامراج مخالف نہیں، وینا ملک سنڈروم کا شکار ہیں۔

جب عوام مہنگائی سے بلبلا اٹھے تھے تو یہ بزدل ’سامراج مخالف‘پاکستان کے موازنے برطانیہ اور امریکہ سے کر رہے تھے، یہ ثابت کرنے کے لئے کہ امریکہ اور برطانیہ میں تیل کی قیمت پاکستان سے کہیں زیادہ ہے۔

جب بلوچ نوجوان اور طالب علم لاپتہ کئے جا رہے تھے تو یہ بزدل ’سامراج مخالف‘ بغلیں بجا رہے تھے اور ان کا سپہ سالار بے گناہ ہزارہ شہریوں کو، جو اپنے پیاروں کی لاشیں سڑک کنارے رکھ کر احتجاج کر رہے تھے، بلیک میلر قرار دے رہا تھا۔

خواتین صحافیوں کے خلاف غلیظ ترین ٹرینڈز چلانے والے یہ بزدل ’سامراج مخالف‘ کل تک ہمیں بتا رہے تھے کہ عمران خان پوری دنیا میں، بالخصوص مغرب میں، بہت مقبول ہے، وہ پاکستان کا امیج بہتر کر رہا ہے۔ اب ہمیں بتا رہے ہیں کہ سارا مغرب اس کی حکومت گرانے کی سازش میں ملوث ہے۔

ان بزدل ’سامراج مخالف‘مڈل کلاسیوں، برگر بچوں اور فیس بکیوں سے عرض ہے کہ سرمایہ داری کی مخالفت تو خیر تمہارے بس کی بات نہیں، کم از کم اپنے گھروں میں چائلڈ لیبر ہی ختم کر دو یا کم از کم اپنے گھر میں ملازم ’نوکروں‘ کو انسان سمجھ کر کم از کم بنیادی تنخواہ ہی ادا کرنا شروع کر دو، اس سے تو تمہیں کسی سامراج نے نہیں روک رکھا۔

بزدل ’سامراج مخالف‘ قوم یوتھ کی حالت یہ ہے کہ امپورٹڈ حکومت کا نعرہ لگا رہے ہیں مگر امپورٹر کا نام لینے کی ہمت نہیں ہو رہی۔

اس میں حیرت کی کوئی بات نہیں کہ قوم یوتھ نے سیاست، ثقافت، تعلیم، معیشت، تہذیب، شائستگی اور انسانیت کو تار تار کرنے کے بعد اب سامراج مخالفت کو بھی بدنام کر کے رکھ دیا ہے۔

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔