فاروق طارق
7 اکتوبر کو وزیراعظم نے اسلام آباد میں سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کے ساتھ پبلک پرائیویٹ پارٹنر شپ کرتے ہوئے ایک لنگر خانے کا افتتاح کیا اور اس موقع پر غریبوں کو سالن دینے کی ایک توہین آمیز تصویر بھی شائع کی گئی۔
سیلانی ویلفیئر انٹرنیشنل ٹرسٹ کراچی سے تعلق رکھنے والی ایک بڑی این جی او ہے جس کے صدر یوسف لاکھانی اور اس کے سرپرستِ اعلیٰ محمد بشیر فاروقی ہیں۔
عمران خان نے ملک میں 112 مزید لنگر خانے اس این جی او کے اشتراک سے کھولنے کا اعلان بھی کیاہے۔ اس سے قبل عمران خان کئی شہروں میں بے گھر افراد کے لئے ”پناہ گاہیں“ بھی کھول چکا ہے۔
اس سے زیادہ محنت کش طبقات کی اور توہین کیا ہو سکتی ہے کہ عمران خان جیسا وزیراعظم عوام کو باعزت روزگار فراہم کرنے، مہنگائی کم کرنے اور اسے کنٹرول کرنے کی بجائے، عوام کی ”بھوک“ مٹانے کے لئے ملک بھر میں 112 ”لنگر خانے“ کھول رہا ہے۔
پہلے ملک ریاض جیسے قبضہ گیر یہ کام کرتے تھے، اب ریاست یہ کام کرے گی۔
ایسے وقت میں جب ایک طرف ریاست حقوق پر کام کرنے والی مقامی اور عالمی این جی اوز کے خلاف اقدامات کر رہی ہے، ان پر پابندیاں عائد کر رہی ہے، دوسری طرف وہی ریاست ایک بڑی این جی او کے ساتھ خیراتی کام میں نہ صرف اشتراک کر رہی ہے بلکہ پچھلے بجٹ میں اس تنظیم کو خصوصی طور پر تمام ٹیکسوں سے استثنا بھی دیاگیا۔
ایک خیراتی ادارے کے ساتھ حکومت کا اشتراک شاید پہلے نظر نہیں آیا۔ یہ ہوتا تھا کہ ایسے خیراتی اداروں کو ریاستی امداد دی جاتی تھی، زمین اور ٹیکسوں میں چھوٹ دی جاتی تھی مگر ایک صنعتی ادارے کی طرز پر اس سے پبلک پرائیویٹ اشتراک نہیں کیا جاتا تھا۔
عمران خان حکومت کے اس اعلان سے یہ توبالکل واضح ہو گیا ہے کہ اس کی حکومت کے دوران عوام کو خیرات تو تھوڑی بہت مل سکتی ہے، حقوق نہیں۔ خوراک، رہائش، تعلیم اور صحت کی سہولیات عوام کا حق ہے، مگر اب تو یہ سہولیات ریاست کی جانب سے فراہم کرنے کی بجائے اسے سرمایہ داروں اور انکے ایجنٹوں کے سپرد کیا جا رہا ہے۔ یہ حکومت استحصال کی نئی شکلوں کو سامنے لا رہی ہے۔
عمران حکومت کا یہ قدم غیر ترقی یافتہ ممالک میں سرمایہ دارانہ نظام کی انتہائی گھٹیا شکل کے طور پر سامنے آیا ہے۔ اب اس نظام میں اخلاقی اقدار کی کوئی اہمیت نہیں رہی۔ یہ قدم اس بات کا واضح اعلان ہے کہ اب ریاست کے تمام افراد کو باعزت روزگار اور خوراک فراہم نہیں کی جا سکتی۔ معاشرے کے سب سے کمزور حلقے لنگروں اور پناہ گاہوں پر ہی گزارہ کریں۔
ہم چاہتے ہیں کہ تمام ضرورت مند افراد کو فوری کھانا ملے اور مکان کے بغیر افراد کو رہنے کے لئے باعزت رہائش۔ بجائے اس کے کہ ریاست نادار اور بے گھر افراد کے لئے کوئی ٹھوس اقدامات کرتی، اس مسئلے کو ترجیحی بنیادوں پر حل کرتی اورعبوری دور کے لئے عوام کو ایک دوسرے سے یک جہتی اور مدد کا پیغام دیتی، اس نے بذات خود لنگرخانے کھول کر اپنی ناکامی کا اعتراف کر لیا ہے۔ سیلانی طرز کے خیراتی ادارے عموی طور پر ٹیکس بچانے کے لئے استعمال ہوتے ہیں مگر اب تو اس قدم سے ان کی حیثیت ہی تبدیل کرنے کی کوشش کی گئی ہے۔
یہ ابھی معلوم نہیں ہو سکا کہ اس پبلک پرائیویٹ پارٹنرشپ کا حجم کتنا ہے؟ ریاست کتنے پیسے اس خیراتی ادارے کو دے رہی ہے؟ ہمارا مطالبہ ہے کہ اسے پبلک کیا جائے۔
ویسے سیلانی ٹرسٹ نے اپنی ویب سائٹ پر اپنی خدمات تو بتائی ہوئی ہیں۔ اس میں کام کرنے والے 1600 محنت کشوں کا بھی ذکر ہے لیکن یہ نہیں بتایا گیا کہ اس کا سالانہ بجٹ کتنا ہے؟ اس کے کون لوگ ڈائریکٹرز ہیں؟ یہ تو بتایا گیا ہے کہ اس کے صدر یوسف لاکھانی ہیں مگر کیا اس ادارے کا آڈٹ ہوتا ہے؟ محنت کشوں کو کم از کم تنخواہ ملتی ہے؟ اس کا کوئی ذکر نہیں۔
اس پارٹنر شپ سے عوام کی بھوک تو ختم نہیں ہو سکتی لیکن چند ہزار افراد کو ملازمتیں فراہم کرنے کی بجائے انہیں کھانے پر ٹرخا کے سیاسی فوائد اٹھانے کا دعویٰ کیا جائے گا۔ ہم حقارت کے ساتھ ایسے اقدامات کو رد کرتے ہیں کیونکہ ہم سمجھتے ہیں کہ خیرات کسی مسئلے کا حل نہیں، حل اس نظام کی تبدیلی ہے۔