تاریخ

اسلام سے دوری نہیں، بیرونی قرضوں کی وجہ سے مصر برطانیہ کی کالونی بنا

فاروق سلہریا

مطالعہ پاکستان طرز کی تاریخ لگ بھگ ہر مسلمان ملک میں پڑھائی جاتی ہے۔ اسلامی بنیاد پرست اور رجعتی حلقے اس طرح کی تاریخ کو مقبول عام بناتے ہیں۔ تاریخ کی اس توجیہہ کے مطابق،یورپ نے اس لئے مسلمان ملکوں پر قبضہ کر لیا کہ مسلمان اسلام سے دور ہو گئے تھے۔

یہ تاریخ دانی سے مذاق کے سوا کچھ نہیں۔ افریقہ اور ایشیا پر استعماری قبضوں کی وجہ یہ تھی کہ یورپ سر مایہ دارانہ عہد میں داخل ہو چکا تھا۔ سر مایہ داری مسلم علاقوں میں رائج جاگیرداری نما معاشی و سیاسی نظام سے کہیں آگے کی چیز تھی۔نہ صرف سرمایہ دارانہ جدییدیت (تکنیکی، فوجی، جغرافیائی، ابلاغی جدیدیت) نے پس ماندہ جاگیردارانہ سماج کو شکست دی بلکہ نئے معاشی نظام نے بھی یورپ کی حکمرانی قائم کر دی۔ اس معاشی برتری کا ایک بڑا اظہار یہ تھا کہ مسلمان ممالک،بشمول سلطنت عثمانیہ،یورپ کی معاشی غلامی میں چلے گئے۔ استنبول کا بال بال یورپی قرضے میں جکڑا ہوا تھا۔

اگر مذہب پر عمل کی وجہ سے ترقی ہونا ہوتی تو ایران پچھلے چالیس سال میں، سعودی عرب پچھلے سو سال میں اور افغانستان پچھلے تین سال سے ترقی کے زینے طے کر رہے ہوتے۔ حالت یہ ہے کہ مسلم ممالک سے نوکری اور اچھی زندگی کی تلاش میں نوجوان مغرب کا رخ کرتے ہیں نہ کہ سعودی عرب، ایران یا افغانستان کا۔

اس مضمون میں ہم دیکھیں گے کہ قرضوں نے کس طرح مصر کو برطانیہ کی کالونی بنا دیا؟ اس مضمون کا مقصد صرف یہ ثابت کرنا نہیں کہ مسلمان ممالک کی غلامی بارے مذہب سے دوری والے تجزئیے غلط ہیں۔ اس مضمون کا مقصد یہ ثابت کرنا بھی ہے کہ آج اگر یورپ میں خوشحالی ہے تو اس کی وجہ کلونیل عہد کی لوٹ مار بھی شامل ہے۔اس لوٹ مار کی ایک شکل قرضوں کے نام پر ڈالاجانے والا سامراجی ڈاکہ بھی تھا۔ امیر ممالک کی ذمہ داری ہے کہ وہ تیسری دنیا کے قرضے منسوخ کرے تا کہ یہ ممالک بھی ترقی کر سکیں۔اس مختصر مضمون کا ایک اہم مقصد یہ بتانا بھی ہے کہ جب پاکستان کی طرح،کوئی ملک بیرونی قرضوں میں ڈوب جائے تو اس کی آزادی ختم ہو جاتی ہے۔ ممکن ہے آج سامراج براہ راست قبضہ نہ کرے (اس کی ضرورت بھی نہیں) مگر مقروض ملک کو سامراج کی ہر شرط ماننا پرتی ہے۔

قرضوں سے پہلے کا مصر بڑی طاقت بن کر ابھر رہا تھا

انیسویں صدی کی پہلی چار دہائیوں تک،مصر ایک علاقائی طاقت بن کر ابھر رہا تھا۔صنعتی ترقی بھی ہو رہی تھی اور فوجی لحاظ سے مصر،جو کہنے کی حد تک سلطنت عثمانیہ کا حصہ تھا، موجودہ سوڈان، شام اور فلسطین پر قبضہ کر کے اپنی حدود دور دور تک پھیلا چکا تھا۔ جس طرح کی اصلاحات جاپان نے 1860 کی دہائی سے کرنا شروع کیں،اس قسم کی اصلاحات مصر میں محمد علی پاشا متعارف کرا چکے تھے۔ ایک طرح کا سٹیٹ کیپٹلزم متعارف کرایا گیا تھا۔ ریاست صنعت کاری کر رہی تھی۔ انفرا سٹرکچر تعمیر کئے جا رہے تھے۔فوج کو جدید خطوط پر استوار کیا جا رہا تھا۔ مصر عالمی سطح پر کپاس کا تقریباََ سب سے بڑا برآمد کرنے والا ملک بن کر ابھر رہا تھا۔ اہم بات یہ ہے کہ ترقی کے اس سفر پر مصر اپنے ملکی وسائل سے گامزن ہو رہا تھا۔ کوئی بیرونی قرضہ نہیں لیا گیا جیسا کہ لاطینی امریکہ کی اکثر نو آزاد ریاستیں کر رہی تھیں۔

محمد علی پاشا البانوی جرنیل تھے جنہیں،مصر پر حملہ آورنپولین کا مقابلہ کرنے کے لئے بھیجا گیا۔ وہ نپولین کو تو نہ روک سکے مگر نپولین کے بعد، مصر کے حقیقی فرمانروا بن گئے۔ جب سلطنت عثمانیہ سے اختلاف بڑھے تو سلطنٹ عثمانیہ کے اوپر بھی حملہ کر دیا۔ قبرص پر بھی حملہ کیا۔ یورپی طاقتیں،بالخصوص برطانیہ اور فرانس مصر کو فکر مندی سے دیکھ رہے تھے۔ مصر کے اس سفر کو روکنے کے لئے،1839-40 میں برطانیہ اور فرانس نے مل کر حملہ کر دیا۔ شام اور فلسطین کا علاقہ مصر سے چھین لیا گیا۔ 1848-49 میں محمد علی پاشا کا عہد ختم ہوا تو ان کے جانشین زیادہ دیر یورپ کے سامنے کھڑے نہ رہ سکے۔ پہلے یورپ سے معاہدے کئے گئے جن کے تحت فری ٹریڈ کی اجازت دی گئی۔ریاستی سرپرستی میں چلنے والے ادارے بیچ دئے گئے یا ریاسری سر پرستی میں صنعت کاری کا یہ سلسلہ ختم کر دیا گیا۔ یورپ سے قرضے لینے کا آغاز ہوا۔

یاد رہے 1820 کی دہائی میں یورپ لاطینی امریکہ کے نئے نئے آزاد ہونے والے ممالک کو دھڑا دھڑ قرضے دے رہا تھا۔ 1850 کے بعد، مصر،تیونس، سلطنت عثمانیہ،اور چین کو قرضے دئیے گئے۔

1862ء کا پہلا قرضہ

1863 میں مصر نے یورپی بنکوں سے.3 3 ملین پونڈ کا قرضہ لیا۔ یہ قرضے بانڈ کی شکل میں ملتے تھے۔ یوں سمجھ لیں کہ یہ بانڈ ایک طرح کا شئیر تھا۔ اب ہوتا یہ تھا کہ جو ملک قرضہ لیتا،اس سے بنک فیس اور کمیشن وصول کرتے۔بنکوں کا یہ کہنا تھا کہ وہ بانڈ جاری کرنے کے لئے خدمات مہیا کرتے ہیں۔ یوں اگر 3.3 ملین پونڈ قرضہ تھا،تو مصر کو فیس اور کمیشن وغیرہ کاٹ کر 2.5 ملین پونڈ ملے۔ یہ بانڈ یورپی مارکیٹ میں بیچے جاتے اور ہر خریدنے والے کو لگ بھگ پانچ فیصد سالانہ سود کی شکل میں منافع ملتا۔ یہ سود قرضہ لینے والے ملک کو ادا کرنا ہوتا تھا۔ اعداد و شمار کے اس ہیر پھیر (جس کی آئندہ مزیدوضاحت کی جائے گی جب تیونس بارے مضمون لکھا جائے گا)کا نتیجہ یہ نکلا کہ مصر نے قرضہ تو لیا 3.3 ملین پونڈ لیا لیکن اسے سود سمیت 30 سال میں چکانا پڑا 8 ملین پونڈ۔

جب پہلا قرضہ ملا تو مصر کی معیشیت ترقی کرنے لگی لیکن اس کی وجہ قرضہ نہیں تھا۔ امریکہ میں خانہ جنگی چل رہی تھی۔ جنوب کی ریاستوں نے شمال کی ریاستوں کو کپاس فراہم کرنے سے انکار کر دیا۔ مصر نے امریکہ کو خوب کپاس بیچی۔ 1865 میں جب خانہ جنگی ختم ہو گئی تو کپاس کی برآمد گرنے لگی۔یوں مصر کی آمدن کم ہو گئی لیکن قرضے تو ہر سال اتارنا تھے۔یوں ملک دیوالئے کی طرف بڑھنے لگا۔ ان حالات میں (موجودہ پاکستان کی طرح) دیوالیہ پن سے بچنے کے لئے مزید قرضے لینے کا فیصلہ ہوا تا کہ پچھلا قرضہ اتارا جا سکے۔

1873ء کا قرضہ

1873 میں 32 ملین پونڈ کا قرضہ لیا گیا۔ اب کی بار جو بانڈ جاری کئے گئے انہیں اصل قیمت سے 30 فیصد کم قیمت پر بیچا گیا تا کہ وہ بانڈ یورپ میں بک سکیں۔کم از کم مصر سے یہی کہا گیا۔ یوں مصر کو ان بانڈز کے عوض ملے 20 ملین پونڈ۔ اس قرضے پر مصر کو 11 فیصد سود بھی چکانا تھا۔ اعداد و شمار کے ہیر پھیر کے بعد طے پایا:30 سال میں مصر کو 77 ملین پونڈ چکانا پڑیں گے۔ 1861 میں جو ملک ایک پائی کا مقروض نہ تھا، 1876 تک 68.5 ملین پونڈ کا مقروض ہو چکا تھا۔

لگا ہے بازار مصر

1870 میں یورپی بنکوں نے مصر کے پاشا اسمعیل کو مجبور کر دیا کہ وہ ریاستی اثاثے بیچنا شروع کر دیں۔ اب قرضے اتارنے کے لئے مصر ریاستی اثاثے بیچنے لگا۔ اس کی ایک مثال ہے کہ 1875 میں مصر نے سویز شپ کینال کمپنی میں اپنے پچاس فیصد شئیر (176,602 شئیر) برطانیہ کو بیچ دئیے۔ یاد رہے،نہر سویز کا افتتاح 1869 میں ہوا۔ ستر سال بعد، جب جمال عدبالناصر نے نہر سویز کو قومی ملکیت میں لے لیا تو فرانس،برطانیہ اور اسرائیل نے مل کر مصر پر حملہ کر دیا۔ بہر حال،جمال عبدلاناصر کی قیادت میں آنے والے انقلاب مصر نے نہر سویز واگزار کرا لی۔

برطانیہ نے نہ صرف نہر سویز کے شئیر خرید لئے بلکہ مصر کو مجبور کیا کہ 1894 تک ان شئیرز پر 5 فیصد سود بھی ادا کرے کیونکہ ان شئیرز پر تب تک سویز شپ کینال کمپنی سے کوئی سود نہیں ملنا تھا۔ اپنا حصہ بیچنے کے بعد، مصر کا سویز کینال کمپنی میں حصہ 15 فیصد رہ گیا۔ یہ شئیر بیچ کر بھی مصر کی حالت یہ تھی کہ صرف تین ماہ بعد،مصر تازہ قرضے لینے کے لئے اینگلو اجیپشن بنک اور کریڈٹ فونسئیر جیسے بنکوں کے دروازے پر کھڑا تھا۔

1876ء میں مصر دیوالیہ ہو گیا

سلطنت عثمانیہ، پیرو اور یوراگوئے کی طرح اس سال مصر بھی دیوالیہ ہو گیا۔ اس دیوالیہ ہونے کی وجہ یہ یہ تھی کہ مغربی بنک بحران کا شکار تھے۔اب وہ مزید قرضے نہیں دے رہے تھے۔ مقروض ملکوں کو قرضے نہیں مل رہے تھے۔اس لئے وہ اتار بھی نہیں پا رہے تھے۔ بنکوں کا بحران 1873 میں شروع ہوا۔ نیو یارک،برلن،ویانا سے ہوتا ہوا یہ بحران لندن اور پیرس پہنچا۔ مصر کو زیادہ قرضے پیرس کے بنک دے رہے تھے۔ پیرس یہ بحران ذرا دیر سے پہنچا اس لئے مصر کو قرضہ ملتا رہا مگر 1876 میں جب پیرس سے قرضہ ملنا بند ہوا تو مصر بھی دیوالیہ ہو گیا۔

یاد رہے،بنکوں کا بحران عالمی معاشی بحران کی ایک شکل تھی۔ جب عالمی معاشی بحران پیدا ہوا تو پس ماندہ ممالک سے امیر ممالک کی جانب جانے والی برآمدات کم ہو گئیں۔ یوں مصر جیسے ممالک کی آمدن اور کم ہو گئی۔ سو نہ صرف قرضے ملنا بند ہوئے،آمدن بھی کم ہو گئی۔سو دیوالیہ ہونا پڑا۔

پبلک ڈیٹ فنڈ

دیوالیہ ہونے کے بعد، یورپ کا قرضہ ری سٹرکچر کرنے کے لئے یورپی طاقتوں (بنکار، سرکاری اہل کار وغیرہ) پر مبنی ’پبلک ڈیٹ فنڈ‘ بنایا گیا۔ اس فنڈ نے ایک تو مصر کے ریاستی ریونیو کو اپنے کنٹرول میں لے لیا(جیسا کہ آئی ایم ایف ایک طرح سے پاکستان کے ساتھ کر رہا ہے،پاکستان کا 58 فیصد ریونیو قرضے اور ان پر سود اتارنے پر خرچ ہو رہا ہے)۔

ایک کام اس فنڈ نے یہ کیا کہ ری سٹرکچرنگ کے نام پر کہا کہ مصر اپنے قرضے اگلے65 سال میں اتار سکتا ہے جبکہ اسے 7 فیصد سالانہ سود ادا کرنا ہو گا۔بظاہر یہ مصر پر احسان تھا کہ تیس کی بجائے 65 سال تک قرض اتارنے کی مہلت دی گئی۔۔۔مگر یہ ایک چالاکی تھی۔ بات یہ ہے کہ قرضہ اتارنے کی مدت جتنی طویل ہو گی، سود اتنا زیادہ ہو گا۔

بنکر بھی خوش بادشاہ بھی

فنڈ کے فیصلوں سے بنک تو خوش ہو گئے۔اب تاج برطانیہ کو بھی کچھ چاہئے تھا۔ نہرسویز کی وجہ سے مصر تاجِ برطانیہ کے لئے اہم تھا۔ نہر سویز کے ذریعے ہندوستان اور خلیج میں پہنچنا آسان ہو گیا تھا۔ 1878 میں برطانیہ سلطنت عثمانیہ سے قبرص تو خرید ہی چکا تھا۔ مصر پر قبضے کی صورت اس پورے خطے میں برطانیہ کی عمل داری قائم ہو جاتی۔ سو برطانیہ نے اپنے اہم حریف فرانس سے کہا کہ وہ تیونس پر قبضہ کرلے (جو اس نے کر لیا) اور مصر کو برطانیہ کے قبضے میں جانے دے۔ جرمنی کو بھی یہ بندر بانٹ منظور تھی۔جرمنی چاہتا تھا کہ تیونس فرانس لے کر خوش ہو جائے اور 1870-71 کی جنگ مین فرانس کے جن حصوں پر جرمنی نے قبضہ کیا ہے،ان کی بات نہ کی جائے۔پھر جرمنی یہ بھی سوچ رہا تھا کہ مصر اور تیونس کی بندر بانٹ کے نتیجے میں وہ بھی افریقہ میں اپنا حصہ مانگ سکتا ہے۔

دریں اثنا قرضے اتارنے کے لئے مصر میں ٹیکس بڑھا دئیے گئے جس کے خلاف فوج کے ایک رہنما کرنل اعرابی نے بغاوت کر دی۔ اس بغااوت کو کافی حمایت حاصل تھی۔ اس بغاوت کو کچلنے کے نام پر برطانیہ نے مصر میں فوجیں اتار دیں۔یوں مصر برطانیہ کے قبضے میں چلا گیا۔

ایک ملک جو ایک اہم عالمی طاقت بن کر ابھر سکتا تھا، قرضوں کے چنگل میں پھنس کر ایک کالونی بن گیا۔

(یہ مضمون ایرک توساں کی کتاب ’دی ڈیٹ ٹریپ‘ کی مدد سے لکھا گیا)

Farooq Sulehria
+ posts

فاروق سلہریا روزنامہ جدوجہد کے شریک مدیر ہیں۔ گذشتہ پچیس سال سے شعبہ صحافت سے وابستہ ہیں۔ ماضی میں روزنامہ دی نیوز، دی نیشن، دی فرنٹئیر پوسٹ اور روزنامہ پاکستان میں کام کرنے کے علاوہ ہفت روزہ مزدور جدوجہد اور ویو پوائنٹ (آن لائن) کے مدیر بھی رہ چکے ہیں۔ اس وقت وہ بیکن ہاوس نیشنل یونیورسٹی میں اسسٹنٹ پروفیسر کے طور پر درس و تدریس سے وابستہ ہیں۔