فاروق طارق
لاہور کے دل کے ہسپتال پر وکلاکے حملے، توڑ پھوڑ، ہلڑ بازی، املاک کو نقصان پہنچانے، پولیس وین کو آگ لگانے اور بلاجواز ہسپتال میں گھس کر ڈاکٹروں اور پیرا میڈیکل سٹاف سمیت مریضوں کو ہسپتال چھوڑ جانے پر مجبور کرنے کے واقعات کے بعد سے عوام میں وکلا کے خلاف غم وغصے کی لہر میں کمی نہیں آرہی۔ ایسا کبھی ہوا نہ تھا کہ اس طرح ایک ہسپتال کو یرغمال بنا کر غصے کا اظہار کیا گیا ہو۔
وکلا کے پاس اس اقدام کے دفاع میں کچھ بھی نہیں اور نہ ان کے کسی جواز کو درست مانا جا رہا ہے۔ وکلاقیادت اس واقعہ پر معافیاں مانگ رہی ہے لیکن یہ کہنے کی بھی کوشش کر رہی ہے کہ اس کا کوئی جواز تھا اور ان کے موقف کو بھی سمجھا جائے۔
وکلا کے بعض گروہوں کی ہلڑ بازی کی ایک پوری تاریخ ہے۔ ججوں کو ہراساں کرنا اور پولیس والوں کی کچہریوں میں پٹائی معمول بن چکے ہیں۔ وہ وکیل کے طور پر ہر جگہ اپنا ترجیحی حق لینے کی کوشش کرتے ہیں۔
وکیلوں کے ایک گروہ نے اس وقت مرحومہ عاصمہ جہانگیر کے معاون وکیلوں پر حملہ کیا جب وہ ایک بڑے وکیل کی جانب سے ایک مظلوم عورت کے خلاف اقدامات کو عدالت میں چیلنج کر رہے تھے۔
وکلا کے ان گروہوں نے عدلیہ بحالی تحریک میں کامیابیوں کے بعد اپنے گروہی مفادات کے لئے ہلڑ بازی اور دبدبے کے ذریعے کام کرانے کو معمول بنایا ہوا تھا۔ وہ کچہریوں کے اندر بے تاج بادشاہ بنے ہوئے تھے۔ وکلاسیاسی بنیادوں پر کم‘ذات، برادری اور علاقائی بنیادوں پرزیادہ منظم ہو رہے تھے۔
پارٹیوں میں شمولیت ان کی اصولی سیاست کی بجائے ان سے مفادات اور عہدے لینے کی بنیاد پر کی جا رہی تھی۔ مشرف آمریت کے خاتمے میں اہم ترین فتح حاصل کرنے والا یہ پروفیشنل گروپ اب رجعتی اور دائیں بازو کی بنیادوں پر منظم نظر آتا تھا۔
اس پس منظر میں اپنی فیوڈل انا کی تسکین کی خاطر دل کے ہسپتال پر حملہ کسی اچانک واقعہ کا نتیجہ نہ تھا بلکہ یہ ان کی تہوں میں دائیں بازو کے رجعتی گروہی نظریات کے فروغ کا ایک اظہار تھا۔ چناچہ ریاست کو اس مضبوط پروفیشنل گروپ کی طاقت کو ختم کرنے کاموقع مل گیا ہے۔
اگرچہ ڈاکٹروں کی ایک اشتعال انگیز طنزیہ تقریر نے جس میں وکلاکا مذاق اڑایا گیا‘نے جلتی پر تیل ڈالنے کا کام کیا۔ یہ ڈاکٹروں کے لئے بھی سبق ہے کہ ان کی اشتعال انگیز تقریر سے اور وکلا کے غیر ضروری ردعمل سے دل کا ہسپتال تاریخ میں پہلی دفعہ بند ہو گیا۔ پانچ سو سے زائد ہسپتال داخل مریضوں کو وہاں سے نکال دیا گیا۔
اب سینکڑوں وکلا کے خلاف دہشت گردی کے مقدمات درج کئے گئے ہیں۔ ان کے گھروں میں چھاپے مارے جا رہے ہیں اور گرفتاریاں کی جا رہی ہیں۔ ریاست نے اس واقعہ سے پہلے شعوری طور پر وکلا کے جلوس کو روکنے کی کوشش نہ کی۔ اب سارا ملبہ وکلا کے گروہوں پر ڈالا جا رہا ہے۔ پولیس اب وکلاپر تشدد کر رہی ہے۔ ان کے سروں پر کالے کپڑے ڈال کر عدالتوں میں پیش کیا جا رہا ہے۔ اب ان کی تذلیل کرنے کا کوئی موقع ہاتھ سے جانے نہیں دیا جا رہا۔
وکیلوں کو پٹیاں باندھ کر دہشت گردی کی عدالتوں میں پیش کرنے سے معاملہ اور بگڑے گا۔ وکلا کے تمام گروپ اب مل کر ملک گیر ہڑتال کر رہے ہیں۔ وکیلوں پر دہشت گردی کے ہول سیل مقدمات قائم ہونے سے وکلا کے وہ حلقے جو اس واقعہ کے بعد اپنی کمیونٹی کے خلاف بیانات دے رہے تھے وہ بھی خاموش ہو گئے ہیں۔
دو پروفیشنل گروہوں کے درمیان اس تنازعہ کی وجہ سے عام لوگوں کانقصان ہو رہاہے۔ ریاست اس کو جان بوجھ کر موجودہ حکومت کی کوتاہیوں سے نظریں ہٹانے کے لئے خوب استعمال کر رہی ہے۔ اس واقعہ سے عوامی اور پبلک سیکٹر کی تحریکوں کو بہت کچھ سیکھنے کی ضرورت ہے۔