عدنان فاروق
نا اہل حکمرانوں کے مسلط کردہ نظام میں المناک حادثے تو پاکستان کے بد قسمت شہریوں کا آئے روز مقدر بنتے ہی رہتے ہیں…ان حادثوں کے بعد اصل المیہ یہ ہوتا ہے کہ زخموں پر نمک چھڑکنے کے لئے پاکباز فتویٰ گر میدان میں کود کر آ جاتے ہیں۔ انہیں زلزلے یا سیلاب میں مر جانے والے معصوم بچوں کا دکھ نہیں ہوتا۔ انہیں ہماری آخرت کی پڑی ہوتی ہے۔ لاشوں کی تصاویر کو فیس بک پر پوسٹ کر کے بتائیں گے کہ یہ اللہ کا عذاب تھا۔
آپ انہیں کبھی حکمرانوں کے کرتوتوں پر بات کرتے ہوئے نہیں دیکھیں گے جن کی وجہ سے ہر مون سون سیلاب میں بدل جاتا ہے یا ہر زلزلہ ایک آفت بن جاتا ہے۔
مہذب ملکوں نے سیلاب اور زلزلے سے بچاؤ کی ترکیبیں ڈھونڈھ لی ہیں۔ سیلاب اور زلزلے بعض ملکوں میں روز کا معمول ہیں۔ حکمرانوں کی نا اہلیاں بے نقاب کرنے کی بجائے حکمرانوں کے یہ کاسہ لیس شہریوں کو مورد الزام ٹھرائیں گے۔ توبہ اور عذاب کی باتیں کریں گے۔
یہی شرمناک صورت حال پی آئی اے کے حالیہ حادثے کے بعد دیکھنے کو ملی۔ نوجوان ماڈل زارا عابد کی میت ابھی ان کے ورثا کو ملی نہیں تھی کہ مبلغین اور فتویٰ گر انہیں جہنم رسید کر چکے تھے۔ مذہب سے لگاؤ کا یہ کیسا اظہار ہے جس میں انسانیت کی ایک بوند بھی باقی نہیں۔
بجائے اس کے کہ زارا عابد کے گھر والوں کو دلاسہ دیا جائے، ان کی ڈھارس بندھائی جائے، ان کو سر عام بے عزت کیا جا رہا تھا، ان کی ہتک کی جا رہی تھی، ان کو بے غیرت اور بے شرم ثابت کیا جا رہا تھا۔
زارا عابدکو جہنم کی ٹکٹ دینے والوں اور ہندتوابرگیڈ میں کوئی فرق جو جہاز کریش ہونے پر بغلیں بجا رہے تھے؟