علی رضا
ملک بھر میں اس بات پر غم و غصے کا اظہار کیا جا رہا ہے کہ ایف سی اہلکاروں نے بلوچستان کے علاقہ تربت میں شک کی بنیاد پر 25 سالہ نوجوان حیات بلوچ کو تشدد کے بعد گولیاں مار کر سر عام قتل کر دیا۔
تفصیلات کے مطابق جمعرات کو تربت کے علاقے میں ایف سی اہلکاروں کی گاڑی کے سامنے دھماکہ ہوا۔ اس دھماکے کے کچھ دیر بعد خبر سامنے آئی کہ دھماکہ کرنے والا شخص گولیوں کے تبادلے میں گولی لگنے سے جاں بحق ہو گیا ہے۔
کچھ دیر بعد عینی شاہدین کے ذریعے واقعہ کا دوسرا رخ سامنے آیا جس کے مطابق واقعے کے وقت نوجوان حیات بلوچ کچھ فاصلہ پر باغیچے میں کام کر رہا تھا۔ ایف سی اہلکاروں نے طیش میں آ کر اس پر تشدد شروع کر دیا۔ ایک عینی شاہد کے مطابق جب بھی حیات ایف سی اہلکاروں سے بات کرنے کے لیے سر اٹھاتا، اس پر مزید تشدد شروع کر دیا جاتا اور پھر کچھ دیر بعد اس کو سڑک پر لا کرسر عام گولیاں مار کر ہلاک کر دیا گیا۔
متعدد عینی شاہدین کے منظرعام پر آنے کے بعد محکمہ پولیس نے اپنی غلطی کا اعتراف کر لیا ہے۔ ایس ایس پی تربت نجیب پندرانی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ ایف سی اہلکاروں نے جلد بازی کا مظاہرہ کیا اور طیش میں آ کر نوجوان کو گولی مار دی جو کہ نہیں ہونا چاہیے تھا۔
مقتول کے بھائی نے میڈیا سے بات کرتے ہوئے بتایا کہ حیات کراچی یونیورسٹی میں فارمیسی کا طالب علم تھا اور یونیورسٹی سے چھٹیوں کی وجہ سے گھر آیا ہوا تھا اور کھجور کے باغ میں کام میں ہاتھ بٹا رہا تھا۔
ملک بھر کی طلبہ اور دوسری انسانی حقوق کی تنظیموں کی جانب سے واقع کی مذمت کا سلسلہ جاری ہے۔ اس حوالے سے پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو کے رہنمارائے علی آفتاب نے’جدوجہد‘سے بات کرتے ہوئے کہا کہ یہ واقعہ انتہائی افسوس ناک ہے اور اس سال کئی بلوچ طالب علموں کے ساتھ سکیورٹی اداروں کی جانب سے یہ سلوک کیا گیا ہے۔
انھوں نے کہا کہ پروگریسو سٹوڈنٹس کولیکٹو اس ہلاکت کی شدید مذمت کرتی ہے اور ہمارا مطالبہ ہے کہ نہ صرف اس سانحہ میں ملوث اہلکاروں کے خلاف کاروائی کی جائے بلکہ سکیورٹی اداروں کے اختیارات بھی محدود کئے جائیں تاکہ مستقبل میں اس طرح کے واقعات سے بچا جا سکے۔