حارث قدیر
ڈاکٹر سید عرفان اشرف کہتے ہیں کہ طالبان مالاکنڈ ڈویژن سے کبھی گئے ہی نہیں تھے، انکی محفوظ پناہ گاہیں آج بھی موجود ہیں۔ سرحداور باڑ بھی عام لوگوں کیلئے رکاوٹ ہیں، دہشتگرد جب چاہیں آ اور جا سکتے ہیں۔ افغانستان میں طالبان کے اقتدار کے بعد انہیں لایا بھی گیا ہے لیکن اہم چیز انہیں سرگرمیوں کی اجازت دی گئی ہے۔ ریاست کی پشت پناہی نہ ہو تو طالبان کو مقامی عوام چند لمحوں میں ختم بھی کر سکتے ہیں اور ان کی دہشت کا بھی خاتمہ کیا جا سکتاہے۔ اب لوگ تنگ آ چکے ہیں، اب اس قتل عام کو دوبارہ پنپنے نہیں دیا جائے گا۔
وہ پشاور یونیورسٹی کے جرنلزم ڈپارٹمنٹ میں اسسٹنٹ پروفیسر ہیں کے ساتھ مصنف اور مضمون نگار ہیں۔ ایک لمبے عرصہ تک ملکی اور بین الاقوامی جریدوں کے ساتھ منسلک رہے ہیں۔ ڈیورنڈ لائن کے آر پار کی تاریخ، سیاست، ثقافت اور معیشت پر عبور رکھتے ہیں۔ گزشتہ روز ’جدوجہد‘ نے ان کا انٹرویو کیا جو ذیل میں پیش کیا جا رہا ہے:
مالاکنڈ ڈویژن میں طالبان کی واپسی کی خبریں بھی منظر عام پر آ رہی ہیں اور عوامی احتجاج بھی ہو رہا ہے، کتنے ایک طالبان واپس آئے ہیں اور کس طرح کی سرگرمیاں ہو رہی ہیں؟
عرفان اشرف: طالبان کی واپسی کے حوالے سے دو طرح کا موقف موجود ہے۔ پہلا سرکاری بیانیہ قرار دیا جا سکتا ہے، جو یہ ہے کہ افغانستان میں طالبان کے اقتدار میں آنے کے بعد ٹی ٹی پی کے لوگ جو افغانستان میں تھے ان کی واپسی ہوئی۔ اس حوالے سے یہ بھی کہا جاتا ہے کہ ریاست نے یا ریاست کے کسی ایک دھڑے نے مذاکرات کے نام پر طالبان کو یہ موقع فراہم کیا کہ وہ دوبارہ یہاں منتقل ہوں اور یہاں پر مین سٹریم کا حصہ بن کر آباد ہو جائیں۔ اس موقف میں کسی حد تک صداقت بھی ہے۔
تاہم میرا اپنا نقطہ نظر اس سے الگ ہے، میرا ماننا یہ ہے کہ یہ یہاں سے کبھی گئے ہی نہیں تھے۔ ان کے اپنے سلیپنگ سیلز ہیں، یہ آتے جاتے رہتے ہیں، سرحدوں پر انہیں کوئی روکنے والا نہیں ہے، یہ باڑ وغیرہ عام لوگوں کیلئے لگائی گئی ہے۔ البتہ انہیں دوبارہ سرگرم ہونے اور فعال ہونے کی اجازت دی گئی ہے۔ اس بات کا اظہار انہوں نے مقامی لوگوں سے بھی کیا ہے کہ ہمیں اب اجازت مل گئی ہے، یہیں رہیں گے اور شریعت کے نفاذ کیلئے کام کرینگے۔
طالبان کے افغانستان میں اقتدار پر قبضے کے بعد تین جیلیں ٹوٹیں، جن میں قندھار، کولی چرخی اور بگرام شامل تھیں، ان جیلوں سے 3 سے 5 ہزار کے درمیان ٹی ٹی پی کے لوگ رہا ہوئے، وہ سب بھی پاکستان آئے اور مختلف علاقوں میں چلے گئے۔ اس وقت ریاست خاموش تھی، ان کی کوئی حکمت عملی نہیں تھی۔ اس وقت کے وزیر داخلہ شیخ رشید نے تو ایک آف دی ریکارڈ ملاقات میں یہاں تک کہا کہ ایک مرتبہ طالبان کو اقتدار میں آ جانے دیں پھر سب ٹھیک ہو جائے گا۔
اب جو طالبان کا دوبارہ ابھار ہو رہا ہے، یہ اشارے سے ہی ہوا ہے، خودبخود نہیں ہوا۔
کہنے کا مقصد یہ ہے کہ یہ دو موقف یا بیانئے ہیں۔ اس میں بھی صداقت ہے کہ وہ افغانستان سے بھی آئے ہیں، لیکن یہ بھی درست ہے کہ وہ یہاں سے بھی کبھی نہیں گئے تھے۔ انہیں ریاست نے اپنے تحفظ میں رکھا ہوا تھا۔ ہم سے یہ بھی جھوٹ بولا جاتا ہے کہ طالبان قندھار سے اٹھے اور پھر سب جگہوں پر چھا گئے۔ یہ سب کچھ تیار کیا گیا ہے۔ اس کیلئے بنیادی انفراسٹرکچر تعمیرکیا گیا تھا، جس کا ناگزیر اظہار طالبان کی صورت میں ہونا تھا۔ سرحدی علاقوں میں ہزاروں کی تعداد میں مدرسے قائم کئے گئے، انہیں سیاسی قوت کے طور پر پروان چڑھایا گیا تو پھر انہوں نے کسی نہ کسی صورت اپنا اظہار تو کرنا تھا۔
ان کی پناہ گاہیں کہاں اور کب سے ہیں اورضرب عضب کے بعد بھی اگر یہ یہاں موجود تھے،تو انہوں نے کوئی بڑی سرگرمی کیوں نہیں کی؟
عرفان اشرف: 2006ء کے دوران میں ’ڈان‘ کے ساتھ منسلک تھا اور سوات کو کور کرتا تھا۔ اس دوران میں ان کی طاقت کو جانچنا چاہتا تھا۔ 2007میں مجھے پتہ چلا کہ ان کی مرکزی جگہ سوات نہیں ہے۔ اپر دیر اور مٹہ کے ساتھ منسلک گھٹ پیوچار کی وادیاں اور گھاٹیاں ان کا بنیادی گڑھ تھا۔
ہر شخص سوات میں یہ نام تو لیتا تھا کہ گھٹ پیوچار سے یہ سب کچھ کنٹرول ہوتا ہے، لیکن کوئی بھی وہاں جانے کو تیار نہیں تھا، کیونکہ یہ خوف تھا کہ وہ لوگوں کے گلے کاٹتے ہیں اور قتل کردیتے ہیں۔ اس دوران میں نے کچھ لوگوں کے انٹرویوز بھی کئے، جنہوں نے بتایا کہ وہ 90کی دہائی سے وہاں پر پناہ گاہوں میں موجود ہیں۔
1992ء میں بینظیر بھٹو کی حکومت تھی، آفتاب شیر پاؤ وزیر اعلیٰ تھے۔ بینظیر بھٹو کی حکومت ان کے خلاف کارروائی کرنا چاہتی تھی اور اس وقت پیرا ملٹری کے ذریعے آپریشن کیا بھی کیا۔ آپریشن کے نتیجے میں انہیں سوات سے پیچھے دھکیل دیا گیا، تاہم ملٹری کے ان کی پشت پر ہونے کی وجہ سے یہ سوات سے پیچھے جا کر گھٹ پیوچار کے علاقوں میں موجود پناہ گاہوں میں چھپ گئے۔ ان علاقوں میں تربیتی کیمپس بھی قائم تھے۔
مقامی لوگ ان سے بہت زیادہ تنگ تھے، یہ لوگوں کے گھروں سے کھانا تک چوری کرنے، ان کے مویشی زبح کر کے کھا جانے سمیت ہر طرح کی بھتہ خوری میں مصروف رہے ہیں۔ کہنے کا مطلب یہ ہے کہ 90ء کی دہائی سے یہ نیٹ ورک یہیں موجود رہا ہے۔ 2004ء میں انہوں نے پہاڑوں سے نیچے آکر سکیورٹی فورسز کے ایک دفتر پر حملہ کیا۔ تاہم اس واقعہ کو اخبارات میں رپورٹ نہیں کرنے دیا گیا۔ جس صحافی نے وہ خبر چلائی وہ کئی سال تک کراچی میں چھپا بیٹھا رہا۔
یہ مالی وسائل کیلئے بینک لوٹتے تھے، لوگوں کو یرغمال بنا کر تاوان وصول کرتے تھے، بلیک اکانومی کو کنٹرول کرتے تھے، سمگلنگ کرتے تھے، ڈاکے اور بھتہ لینے سمیت دیگر ذرائع سے یہ فنانس اکٹھا کرتے تھے۔ پوست کی کاشت ان کی معیشت کا اہم ذریعہ ہے، جس کا کوئی تذکرہ نہیں کرتا، تمام سرحدی علاقوں میں یہ پوست کی کاشت اور سمگلنگ کا کام بھی کرتے ہیں۔
اب یہ طریقہ ان کے زندہ رہنے کا کاروبار بن چکا ہے۔ ریاست بھی انہیں انہی مقاصد کیلئے استعمال کرتی آئی ہے اور ان کو مالی وسائل جمع کرنے کے راستے مہیا کئے جاتے رہے ہیں۔ جب جنگ ختم ہوگی، امن قائم ہو جائے گا تو ان کا وجود ہی ختم ہو جائے گا اور ریاست بوقت ضرورت ان کا استعمال نہیں کر سکے گی۔ کیونکہ انہیں بنایا افغانستان میں تذویراتی گہرائی کی پالیسیوں کو جاری رکھنے کیلئے گیا تھا۔ افغانستان پر کنٹرول جاری رکھنے کیلئے ان کی ضرورت درکار رہے گی اور اس کیلئے انکی موجودگی بھی کسی نہ کسی صورت میں رکھی جائے گی۔
طالبان کی واپسی کسی ڈیل یا مذاکراتی عمل آگے بڑھانے کیلئے اجازت کے تحت ہے، ریاست کے اندر دھڑے بندی کا شاخسانہ ہے، یا پھر مذاکراتی عمل کے دوران اور افغانستان میں فتح کے حوصلے کیوجہ سے طالبان نے خود ہی اسطرح کی سپیس اپنے لئے حاصل کر لی ہے؟
عرفان اشرف: اس کے پیچھے بھی ایک پورا بیک گراؤنڈ ہے۔ جب ضرب عضب شروع ہوا تو اس کا مقصد یہ تھا کہ ان کو سرحد کے اس پار دھکیلا جائے۔ مقصد یہ تھا کہ نیٹو اور اشرف غنی حکومت کیلئے مسائل پیدا کئے جائیں۔ اس وقت داعش اور طالبان کی لڑائی چل رہی تھی، اس میں طالبان کو مضبوط کرنا تھا۔ آپریشن شروع ہوا تو انہیں کہا گیا کہ آپ سرحد پار چلے جائیں۔ ان سے جب علاقہ چھین لیا جاتا ہے تو انکے معاشی ذرائع چھن جاتے ہیں،اس طرح ان کیلئے مسائل پیدا ہو جاتے ہیں۔ صرف لوگوں کو تحفظ فراہم کیا جائے تو یہ ختم ہو سکتے ہیں۔
اس وقت جب انہیں سرحد پار دھکیلا گیا تو حقانی نیٹ ورک نے انہیں پناہ دی۔ حقانی نیٹ ورک کے سائے تلے یہ اشرف غنی حکومت اور نیٹوفورسز کے خلاف لڑتے رہے اور مال غنیمت جمع کرنے کے نام پر لوٹ مار، ڈاکہ زنی کرتے رہے۔ یہ عورتیں اغواء کرنے کو بھی مال غنیمت جمع کرنا ہی قرار دیتے ہیں۔
پاکستان میں جب یہ نام نہاد ریاست مخالف لڑائی میں موجود تھے تو اس وقت حقانی نیٹ ورک ان کی حمایت نہیں کرتا تھا، کیونکہ حقانی نیٹ ورک کے کاروباریہاں موجود ہیں اور خاندان یہاں آباد ہیں، اس لئے وہ ریاست کے خلاف لڑائی کے متحمل نہیں ہو سکتے تھے۔ تاہم جب ٹی ٹی پی نے سرحد پار حقانی نیٹ ورک کے نیچے پناہ لی تو قبائلی قوانین کے مطابق ان کے لئے کام کرنے لگے۔ انکا یہ کام بھی ریاست کی ضرورتوں کے مطابق ہی تھا۔
اس کے بعد سرحد پر باڑ وغیرہ بنانے کا عمل شروع ہوا۔ را اور این ڈی ایس والا بیانیہ بنایا گیا۔ تاہم بنیادی مقصد عسکریت پسندی کو ریگولیٹ کرنا تھا، باڑ کے ذریعے مقامی لوگوں کی غیر منظم نقل و حرکت کو کنٹرول کیا گیا۔ تاہم عسکریت پسندوں کو راستہ فراہم کیا جاتا رہا ہے، جو اب ریاست کی ایماء پر ہے کہ کب کھولا جائے اور کب بند کیا جائے۔
یہ وہاں امریکہ اور افغان حکومت کے خلاف لڑ کر مال اکٹھا کرتے تھے، تاہم طالبان کے آنے کے بعد انکا وہاں رہنا مشکل ہو گیا تھا۔ طالبان خود تین گروپوں میں تقسیم ہیں۔ دو بڑے گروپ قندھاری گروپ اور حقانی نیٹ ورک کے مابین اندرون خانہ لڑائی جاری ہے۔ ایمن الظواہری کا قتل بھی اسی لڑائی کا ہی شاخسانہ لگ رہا ہے۔ قندھاری گروپ مدرسوں کے فارغ التحصیل طالبان پر مشتمل ہے، جبکہ حقانی گروپ مدرسوں سے بھاگے ہوئے جرائم پیشہ لوگوں پر مشتمل گروہ ہے۔ اس لئے یہ اکٹھے چل بھی نہیں سکتے۔ اب حقانی اور قندھاری طالبان میں لڑائی ہوگی تو حقانی کو مضبوط کرنے کیلئے ٹی ٹی پی کو واپس بھیجا جانا ہے۔
اس لئے ان کی واپسی بالکل نیچرل تھی، اسی لئے انہیں مرکزی دھارے میں لانے کیلئے مذاکرات کے بہانے سب کچھ کیا گیا۔ انہیں بتایا گیا کہ آپ کو یہاں لے آئیں گے، جب ضرورت ہو گی تو آپ کو وہاں بھیج دینگے۔ افغانستان کو کنٹرول کرنے کیلئے اس ریجن میں عسکریت کو دائمی رکھنا اور افراتفری رکھنا ضروری ہے۔ یہ افغانستان پر تذویراتی اثرورسوخ قائم رکھنے کیلئے ریاست کی خارجہ پالیسی کا حصہ ہے۔
سکیورٹی فورسز، پولیس اور انتظامیہ طالبان کی سرگرمیوں کے حوالے سے کیا موقف اپناتے ہیں؟پولیس کارروائیاں کیوں کامیاب نہیں ہو پائیں؟
عرفان اشرف: دیانتداری سے بات کی جائے تو ابتدا میں پولیس نے بہت کوشش کی کہ انہیں ختم کیا جائے۔ پولیس کو ابتداء میں بالکل یقین نہیں تھا کہ ریاست اس طرح سے خود اپنے لوگوں کا قتل عام کروا سکتی ہے۔ تاہم یہ سب کچھ وقت کے ساتھ ساتھ ان کے سامنے بھی عیاں ہوتا گیا۔ وہ جب بھی کوئی کامیاب آپریشن کرتے، تواسکے فوری بعد انکا کوئی بہت ہائی پروفائل آدمی ٹارگٹ کر دیا جاتا۔ پولیس سنٹروں میں، سخت سکیورٹی کے دوران لوگوں کو ٹارگٹ کر کے پولیس کاحوصلہ توڑا گیا۔ جب کچھ بڑے افسروں کو قتل کیا گیا تو پھر پولیس کو اندازہ ہونا شروع ہوا کہ مسئلہ کیا ہے۔ اسی طرح جب دہشت گردوں کو گرفتار کیا جاتاتو ملٹری سے رہائی کے احکامات آجاتے۔
ریاستی اداروں میں ان کی سپورٹ بیس اتنی مضبوط تھی کہ اسکا تصور نہیں کیا جا سکتا۔ ہر کنٹونمنٹ میں رابطے اور انفارمیشن کے ذرائع موجود تھے۔ ان کے خلاف ہر کارروائی کی انفارمیشن پہلے ہی لیک ہو جاتی تھی۔ دوسرے لفظوں میں انتظامیہ اور پولیس کو ایک منظم طریقے سے فلاپ کیا گیا اور انہیں عوام پر مسلط کیا گیا۔ مجھے ایک واقعہ یاد ہے کہ میں فضل اللہ سے گفتگو کر رہا تھا کہ اس دوران انہیں ایک فون کال موصول ہوئی، جس کے بعد انہوں نے سخت غصے میں مجھے کہا کہ تم مجھے یہاں درس دیتے ہو،انہوں نے ابھی کھاریاں سے 25گاڑیاں فورسز کی مجھے مارنے کیلئے بھیج دی ہیں۔ اس وقت مجھے سمجھ نہیں آئی لیکن دو روز بعد پتہ چلا کہ واقعی 25گاڑیاں فورسز کی سوات پہنچی ہیں۔
اتنی اہم فیصلہ ساز جگہوں سے معلومات لیک ہوجانا اور ان تک پہنچ جانا اس بات کو ظاہر کرتا ہے کہ انہیں حمایت کہاں سے حاصل تھی۔ اسی طرح بینکوں میں موجود بڑے کاروباریوں کے کھاتوں کی معلومات تک لیک ہو جاتی تھی، جس کے ذریعے سے یہ پھر بھتہ وصول کرتے تھے۔ کاروباری لوگوں نے بھی شہروں سے ہجرت شروع کر دی تھی۔ اس لئے اب انتظامیہ اور پولیس کا حوصلہ ٹوٹ چکا ہے۔ انہیں معلوم ہے کہ یہ ریاست کا حصہ ہیں،تو ان کے ساتھ تصادم کس لئے کریں۔ وہ راستہ دے دیتے ہیں، یا پھر اس جگہ جاتے ہی نہیں جہاں یہ رہتے ہیں۔ تھوڑا بہت کنفرنٹ بھی کرتے ہیں، کیونکہ جنگ اس منصوبہ بندی کا حصہ ہے، تاہم جہاں فیصلہ کن موقع آئے تو ریاست انہیں اپنا بھی لیتی ہے اور پناہ بھی دیتی ہے۔یہ مارا ماری اس خونی قتل عام کا حصہ ہے۔
مقامی آبادیوں اورقبائل نے پہلے اس طرح کی مزاحمت نہیں کی، جو اب نظر آرہی ہے۔ کیا طالبان کے خوف کی وجہ سے لوگ مزاحمت نہیں کرتے تھے یا انکی حمایت موجود تھی؟
عرفان اشرف:یہ درست نہیں ہے کہ لوگوں نے پہلے مزاحمت نہیں کی۔ مقامی لوگوں کو بھی پولیس کی طرح یہ باور کروایا گیا ہے کہ ان کے خلاف جانے کا مطلب ریاست کے خلاف جانا ہے۔ 2008کا ایک واقعہ مجھے یاد ہے جب اپر دیر میں لوگوں نے دہشت گردوں کو گھیرے میں لے لیا تھا۔ اس وقت گن شپ ہیلی کاپٹروں کے ذریعے سے لوگوں پر بمباری کر کے انہیں وہاں سے نکالا گیا تھا۔اسی طرح کے بے شمار اور واقعات بھی ہیں۔
یہ بھی ایک متھ(فرضی داستان) ہے کہ طالبان ناقابل شکست یا ناقابل تسخیر ہیں۔ 2007میں تمام گروہوں نے اکٹھے ہو کر ایک شیعہ ’طوری قبیلہ‘ پر حملہ کیا تھا اور اس ایک قبیلے نے طویل مزاحمت کے بعد انہیں بھاگنے پر مجبور کر دیا تھا۔ اس واقعہ کو کہیں رپورٹ نہیں کیا گیا کیونکہ کرم ایجنسی سے راستے کے حصول کیلئے ریاست کی ایماء پر طوری قبیلے پر یہ حملہ کیا گیا تھا۔ اس علاقے میں اونچے پہاڑ ہمیشہ سے طالبان کو ٹرانسپورٹ کرنے کا تذویراتی راستہ رہے ہیں۔ اس لئے یہ تو واضح ہے کہ یہ ناقابل تسخیر نہیں ہیں، قبائل بہت زیادہ طاقتور ہیں۔ تاہم ریاستی پشت پناہی کی وجہ سے یہ اپنی طاقت برقرار رکھے ہوئے ہیں۔
اسی طرح یہ بھی ایک متھ ہے کہ لوگوں نے فضل اللہ کی تحریک کیلئے زیورات اور مالی مدد فراہم کی۔اس متھ کو میڈیا کے ذریعے پھیلایا گیا اور یہ ثابت کرنے کی کوشش کی گئی کہ لوگ طالبان کی شریعت اور طالبانائزیشن چاہتے ہیں۔ حقیقت میں لوگوں میں طالبان کے خلاف سخت غم و غصہ ہے اور اب ریاست کے خلاف بھی غم و غصہ موجود ہے۔ مزاحمتی تحریک اسی غم و غصے کا ناگزیر اظہار ہے۔
ایک وجہ یہ بھی ہے کہ پی ٹی ایم نے جو بیانیہ تعمیر کیا ہے، اس نے ریاست کے سب بیانیے چیلنج کر دیئے ہیں۔ انہوں نے بنیادی کام یہ کیا کہ اپنے موقف کو تحریری طور پر 6مطالبات کی شکل میں سامنے لایا، اس کو آئین کے ساتھ ہم آہنگ کیا اور ملک کے کونے کونے تک لے گئے۔ جس تسلسل کے ساتھ ریاستی بیانیہ کو چیلنج کیا گیا، اس کی ملکی تاریخ میں مثال نہیں ملتی۔ لوگوں کے جذبات کو زبان دی گئی اور انہیں یہ سمجھا دیا گیا ہے کہ جس ریاست کو آپ طاقتور کر رہے ہیں، وہی آپ کی بربادیوں کی ذمہ دار ہے۔ اب لوگ کہتے ہیں کہ وہ کسی سے نہیں لڑیں گے، وہ ریاست کو اس کی ذمہ داری بتا رہے ہیں، وہ کہتے ہیں کہ ریاست اپنی ذمہ داری نبھائے اور اپنے طالبان کو بھی ساتھ لے جائے۔
سوات میں امن کے قیام کیلئے ’اولسی پاثون‘ اورسوات امن جرگہ کے نام سے دو اتحاد سرگرم نظر آتے ہیں، ان میں کون لوگ ہیں اور ان کے الگ الگ ہونے کی وجہ کیا ہے؟
عرفان اشرف: اس کو تاریخی پس منظر میں دیکھنا ہوگا۔ سوات امن جرگہ کی بہت پرانی تاریخ ہے۔ یہ زیادہ تر غیر سیاسی رہنے پر اور صرف امن کے قیام کیلئے بات کرنے تک محدود رہا ہے۔ اس کا کوئی سیاسی ایجنڈا نہیں ہوتا اور اس میں تمام مکاتب فکر کے لوگ شامل ہوتے ہیں۔ اولسی پاثون کا مطلب ’عوامی مزاحمت‘ ہے، یہ پی ٹی ایم کے موقف کے قریب ہے۔ یہ سوات کے نوجوانوں کی شروع کی گئی تحریک ہے۔ البتہ یہ جدوجہد کے دو مختلف مظاہر ہیں۔ اس کو لوگ کوئی بڑا مسئلہ نہیں سمجھتے۔ اس وقت مزاحمت اہم ہے، کون سا طریقہ استعمال کیا جاتا ہے، یہ آپ کی چوائس ہے۔ منظور پشتین کا موقف ہے کہ جب بھی کوئی مزاحمتی تحریک پارلیمان میں آجاتی ہے تو وہ مزاحمتی نہیں رہتی، اس لئے کہ یہ پارلیمان آزادنہیں ہے۔ جب مزاحمتی لوگ پارلیمان میں جاتے ہیں تو پھر مراعات وغیرہ انہیں مزاحمت سے بتدریج الگ کر کے روایتی سیاست کا حصہ بننے پر مجبور کر دیتے ہیں۔ تاہم یہ منظور پشتین کی دلیل ہے۔ البتہ محسن داوڑ کا موقف ہے کہ اگر ملک کے ساتھ مل کر جدوجہد کرنا چاہتے ہیں تو پھر آئین کے نیچے آنا ہوگا۔اس لئے یہ ہو سکتا ہے کہ اس طرح کی تقسیم امن جرگہ اور اولسی پاثون میں بھی ہو۔
بائیں بازو کی تنظیموں اور جماعتوں کا امن تحریک میں کیا کردار ہے، اے این پی اور دیگر اس معاملے پر کیا موقف رکھتے ہیں؟
عرفان اشرف: ماضی میں طالبان کے معاملہ پر لوگ دو حصوں میں تقسیم نظر آتے تھے۔ ایک وہ لوگ تھے جو مطالعہ پاکستان کی طرز پر ریاست کی زبان بولتے تھے۔ جو کچھ میڈیا پر کہا جاتا تھا وہی ان لوگوں کے منہ سے بھی سننے کو ملتا تھا۔ ایسے لوگ مدرسوں سے تعلق رکھتے تھے، یا پھر ایلیٹ سے تعلق رکھنے والے ڈرائنگ روم سیاست کے ذریعے اقتدار کی راہداریوں میں رہنے والے لوگ تھے، جن کیلئے طالبان ہیرو تھے۔ یہ صورتحال اب بھی ہے، لیکن اب اس میں بہت فرق ہے۔ حکومتوں کے ساتھ مفادات جڑے ہوتے ہیں تو سب کچھ جانتے بوجھتے ہوئے بھی ریاست کے بیانیہ کو پروموٹ کرنے کی بھرپورکوشش کی جاتی ہے۔ تاہم جب اقتدار سے باہر ہو تے ہیں تو پھر یا تو خاموش ہو جاتے ہیں یا پھر سچ بولنا شروع کر دیتے ہیں۔
یوں جو طالبانائزیشن کی حمایت موجود رہی بھی ہے وہ ریاست کے ساتھ وابستہ مفادات کی بنیاد پر رہی ہے، حقیقی عوامی حمایت کبھی موجود نہیں رہی۔ اسی لئے کچھ مخصوص نعرے اپنائے جانے پر ریاست سخت رد عمل دکھاتی ہے۔ اسی لئے تو کہتے ہیں کہ ہمارے نام مت لئے جائیں۔
دوسری طرف قوم پرستوں اور ترقی پسندوں کا حصہ تھا، وہ سمجھتے تھے کہ یہ سب کچھ غرق کر دینگے۔ تاہم ریاست اور طالبان کی جانب سے مارے جانے کی وجہ سے وہ بیک بنچ پر تھے۔ ریاستی حمایت یافتگان بھی ان کیخلاف سخت پروپیگنڈہ کرتے تھے، انہیں ایجنٹ وغیرہ قرار دیا جاتا تھا۔ ایسی صورتحال میں ایک کنفیوژن بن جاتی تھی، جب میڈیا پر لگاتار یہ پروپیگنڈہ ہو کہ جلال آباد میں بھارت کے 17قونصل خانے کام کر رہے ہیں، تو لوگوں کی اکثریت نے اس پروپیگنڈہ کی زد میں آجانا ہے، لوگ جا کر جلال آباد گنتی تو نہیں کرینگے۔
اس وجہ سے سیکولر سوچ موجود ہونے کے باوجود ریاستی جبر کی وجہ سے کمزور تھی۔ عمران خان کے اقتدار سے باہر جانے اور اسٹیبلشمنٹ کے ساتھ محاذ آرائی کے بعد سیکولر سوچ کو پنپنے کا موقع اس لئے لگا کہ جو منظم ہو کر مزاحمتی قوتوں کے خلاف پروپیگنڈہ کرتے تھے، وہ اب آپس میں دست و گریباں ہیں۔ جو ریاست کی حمایت کرتے تھے، اب وہ یا تو مخالف ہیں یا پھر خاموش ہیں۔ اس وجہ سے ترقی پسند بیانیہ آگے بھی آرہا ہے اور مضبوط بھی ہو رہا ہے۔ انہوں نے بہت سیکھا بھی ہے۔
اے این پی ابھی بھی کھل کر سامنے تو نہیں آئی لیکن وہ مزاحمتی تحریک کی حمایت میں موجود ہے۔ ان کے کارکنان تو ہر جگہ موجود ہوتے ہیں۔ اصل میں جب آپ ریاست کے مقابل آتے ہیں اور آپ اگر وسائل سے لیس ایک منظم گروہ یا شخص ہیں، یا آپ کی پراپرٹی،وراثت وغیرہ ہے،تو پھر سب سے پہلے آپ کے وسائل کو برباد کیا جائے گا، کاروبار ختم کیا جائے گا۔ جب سب کچھ کھو دینگے،تو ریاست کے ساتھ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ اسی طرح کی کیفیت اے این پی کی بھی تھی، طالبان کے خلاف موقف کی وجہ سے ان کی سب تنظیم ختم کی گئی۔ ایک ہزار کارکن اور عہدیدار قتل ہوئے، گراس روٹ حمایت ختم کر دی گئی۔ اس لئے اب وہ کھل کر سامنے اس وقت تک نہیں آئینگے، جب تک لوگ کھل کر بغاوت پر آمادہ نہیں ہو جاتے۔ اب وہ لوگوں کو پیچھے رہ کر گائیڈ کرنے تک محدود رہتے ہیں۔ یوں کہہ لیں کہ اپنی بقاء کی جنگ میں وہ ریاست کے ساتھ دست و گریباں ہونے کے متحمل نہیں ہو سکتے۔
جماعت اسلامی اور جے یو آئی وغیرہ طالبان کی حمایت کرتی رہی ہیں، اب احتجاج میں بھی شامل نظر آتی ہیں۔ اس کی کیا وجہ ہے؟
عرفان اشرف: دو تین وجوہات ہو سکتی ہیں۔ جماعت اسلامی کو طالبانائزیشن سے بالخصوص سوات میں بہت نقصان ہوا ہے، انکا ٹرف ان سے چھن گیا ہے۔ کراچی کے بعد سوات بالخصوص دیر جماعت اسلامی کا گڑھ تھا۔ مالاکنڈ ڈویژن میں صوفی محمد کے الگ ہونے سے جماعت کو پہلے ہی بہت بڑا نقصان اٹھانا پڑا تھا۔ پھر ان کی سیاسی سپیس بھی طالبان لے گئے تھے، جس کی وجہ سے یہ سوات میں طالبان کی واپسی کے خلاف ہیں۔ تاہم یہ سب کچھ تنظیمی پالیسی کے تحت نہیں ہے۔ سینیٹر مشتاق اور ایک اور رہنما ہیں جو بات کرتے ہیں، کچھ نچلے کیڈر کے لوگ بھی احتجاجوں میں شریک ہوتے ہیں۔ ان کی یہ دو غلی پالیسی ہمیشہ رہی ہے۔
افغانستان میں انہیں طالبان اچھے لگتے ہیں، باقی جگہوں پر بھی اچھے لگتے ہیں، لیکن جہاں یہ موجود ہیں وہاں طالبان کی موجودگی انہیں پسند نہیں ہوتی۔ دوسرا جماعت میں لوگوں کو یہ لگتا ہے کہ اگر ریاست کی پوزیشن پر طالبان کو سپورٹ کی گئی تو جماعت اسلامی طالبان میں ضم ہو جائیگی۔ مقامی لوگ احتجاج اس لئے بھی کرہے ہیں کہ انہیں جماعت اسلامی کی اپنی سیاست کا خاتمہ نظر آرہا ہے۔
امن تحریک کے دوران شہریوں نے امن کمیٹیوں کے ذریعے بزور طاقت طالبان کا راستہ روکنے کے اعلانات بھی کئے ہیں، کیا ریاست یا کوئی ایک دھڑا اگر طالبان کی پشت پناہی جاری رکھتا ہے تو امن کمیٹیوں کے ذریعے طالبان کو روکا جا سکتا ہے؟
عرفان اشرف: ریاست نے بہت ساری جگہوں سے لوگوں سے ہتھیار تو لے لئے تھے۔ انہوں نے گھروں کی چادریں اور سازو سامان نہیں چھوڑا تو ہتھیار کیا چھوڑتے۔ وزیرستان میں گھروں کی چھتیں اور دروازے تک غائب ہیں۔ ٹھیکیداروں کو پورے پورے دیہاتوں کے ملبے فروخت کئے گئے۔ ضرب عضب کے بعد لوگوں نے اسلحہ چھپانے کی کوششیں کی تھیں،لیکن ایسے آلے استعمال کئے گئے جنہوں نے زمین میں دبائے ہوئے ہتھیار بھی کھوج کر نکالے۔ اس لئے اسلحہ مقامی آبادیوں کے پاس نہیں ہے۔ اب کہیں جمع کیاگیا ہو تو مجھے اس کا علم نہیں ہے۔
اس لئے لوگوں کے پاس یہی راستہ ہے کہ اسلام آباد کی طرف نکل آئیں گے، لوگ اب کہتے ہیں کہ جب مرنا ہی ہے تو سامنے آکر ماردو۔ یہ ریاست کیلئے بھی ایک چیلنج ہے۔ ’سٹریٹیجک موو‘کے طور پر ریاست وقتی پیچھے بھی ہٹ جائے گی، تاہم دوبارہ زیادہ خونخوار طریقے سے حملہ آور ہوگی۔
تاہم لوگ آؤٹ سمارٹ بھی کر سکتے ہیں۔ اندرون و بیرون ملک لوگوں کے ساتھ جڑت قائم کر دیتے ہیں،تو پھر یہ کچھ نہیں کر سکیں گے۔ لوگوں کے پاس اب جڑت قائم کرنے کے علاوہ کوئی راستہ بھی نہیں ہے۔ لوگ آہستہ آہستہ سیکھ رہے ہیں۔ اب سوشل میڈیا کے ذریعے سب کچھ سامنے آجاتا ہے، وقت سے پہلے یا وقت پر بھانڈا پھوٹ جاتا ہے۔
اب ماضی جیسے حالات نہیں ہیں، جس طرح فضل اللہ کو تین سال منظم ہونے کا موقع ملا تھا۔ اب لوگ تین سال کا وقت نہیں دینگے۔ جیسا کہ حالیہ عرصہ میں ہوا ہے، لوگ فوری خبردارہوجاتے ہیں۔ اس لئے ریاست کیلئے اتنا آسان نہیں ہوگا، جتنا وہ سمجھ رہے ہیں۔