علی مدیح ہاشمی
انسان محض شمع کے تصور سے روشن خیال نہیں بن جاتا۔ روشن خیالی کے لئے اندھیروں کوشعور سے آشنا کرنا پڑتا ہے: کارل جنگ
حال ہی میں شائع ہونے والا ایک اخباری کالم میری نظر سے گزرا، اس کالم میں ایک سادہ سا سوال پوچھا گیا ہے: اگر ہم تحریک طالبان پاکستان نامی ایک بے ترتیب مگر متشدد گوریلا تنظیم کو شکست دینا چاہتے ہیں تو ہم اس کے بارے میں سچ کیوں نہیں بول سکتے؟ بہ الفاظ دیگر ہم اپنی پولیس فورس، فوجی جوانوں اور افسروں یا سکیورٹی اداروں کے دیگر اہل کاروں کو، جو طالبان سے لڑ رہے ہیں، یہ بتانے پر تیار کیوں نہیں کہ وہ یہ لڑائی کیوں لڑ رہے ہیں؟
یہ سوال محض دانش وارانہ نوعیت کا حامل نہیں۔ کوئی مخبوط الحواس شخص ہی معیشت کی موجودہ زبوں حالی سے بے خبر ہو گا، جسے یہ خبر نہ ہو کہ ملک بلکہ عالمی سطح پر مہنگائی اور بے روزگاری کے کیا اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ گذشتہ سال ہنگامہ خیز تھا تو یہ سال اور بھی برا ثابت ہو سکتا ہے۔ مہنگائی اور بڑھتی ہوئی بے روز گاری کے نتیجے میں سماجی بے چینی میں اضافہ ہو گا۔ اس پر طرہ یہ کہ دہشت گردی، بم دھماکے، سکولوں، مساجد اور سڑکوں پر حملے! یہ سب کچھ چند سال پہلے ہی تو ہم نے دیکھا ہے۔
دوسری عالمی جنگ کے دوران برطانیہ نے ہندوستان سے سپاہی بھرتی کئے جنہیں جرمن نازیوں سے بھی لڑنا تھا اور جاپانی فوج سے بھی (متحدہ پنجاب اور موجودہ خیبر پختونخواہ سے خوب بھرتیاں کی گئیں)۔ مسئلہ تاج برطانیہ کے لئے یہ تھا کہ ہندوستانی سپاہی پر بھروسہ کرنا مشکل تھا۔ 1857ء کی ’بغاوت‘ کے بعد سے ہندوستانی سپاہی کو شک کی نظر سے دیکھا جاتا تھا۔
ہندوستانی سپاہیوں کی وفاداری کو یقینی بنانے کے لئے برطانیہ نے ایک حل نکالا۔ ہندوستانی سپاہیوں کو بتایا گیا کہ وہ سلطنت برطانیہ کی رعایا ہیں، وہ ’سرکار‘کا ’نمک‘ کھاتے ہیں اس لئے انہیں ’نمک حلال‘ بننا ہو گا۔
فیض احمد فیض 1941ء میں فوج میں بھرتی ہوئے۔ فوج میں جانے کا فیصلہ کمیونسٹ پارٹی آف انڈیا کی اس قرارداد کے بعد کیا کہ دوسری عالمی جنگ ہندوستان کی قومی آزادی کی جنگ بن گئی ہے۔ یہ قرارداد اس پس منظر میں منظور کی گئی کہ برما پر جاپانی قبضے کے بعد جاپان ہندوستان کی سرحد تک آ گیا جبکہ دوسری جانب نازی جرمنی نے روس پر حملہ کر دیا۔ فیض احمد فیض فوج میں بھرتی ہوئے تو ان کی تعیناتی ’مورال ڈائریکٹوریٹ‘ میں کی گئی جس کا مقصد تھا کہ سپاہیوں کا حوصلہ بند رکھنے کے لئے پراپیگنڈہ کیا جائے۔
جب فیض صاحب نے دیکھا کہ ہندستانی سپاہی کی اس جنگ میں وفاداری مشکوک ہونے کا مسئلہ درپیش ہے تو انہوں نے مندرجہ ذیل حل تجویز کیا:
وفاداری کو یقینی بنانے کے لئے ’نمک حلال‘ ہونے کا پراپیگنڈہ احمقانہ ہے۔ فیض صاحب کا کہنا تھا ”میں نے انہیں بتایا کہ یہ نمک حلال والی بات احمقانہ ہے۔ ہندوستان ان کا اپنا وطن ہے اور وہ اپنی ہی دھرتی کا نمک کھا رہے ہیں۔ یوں ہندوستانی سپاہی کی وفا داری نہیں جیتی جا سکتی۔ ہندستانی سپاہی کو بتانا ہو گا کہ ان کے وطن کو جاپان سے کیا خطرہ لاحق ہے اور اگر ہندوستان پر جاپان نے قبضہ کر لیا تو کیا نتیجہ نکلے گا۔ سپاہیوں کو باور کرانا ہو گا کہ یہ جنگ وہ اپنی دھرتی اور اپنے خاندانوں کی حفاظت کے لئے لڑ رہے ہیں“۔
اس طریقہ کار کا آغاز 1917ء کے انقلابِ روس کے بعد سویت روس کی سرخ فوج نے کیاتھا۔ ہر فوجی یونٹ میں سیاسی کومیسار مقرر کئے گئے تھے جن کی ذمہ داری تھی کہ وہ محاذ پر لڑتے سپاہیوں کی نظریاتی تربیت کریں، سپاہیوں کو باور کرائیں کہ وہ کیوں یہ جنگ لڑ رہے ہیں، سب سے اہم عام سپاہیوں کو یہ بتانا تھا کہ وہ اپنی جان کیوں خطرے میں ڈال رہے ہیں۔
برطانوی ہائی کمانڈ کو تو لگا کہ فیض صاحب نے کسی کفر (بلکہ کمیونسٹ سازش) کا ارتکاب کر دیا ہے۔ فیض احمد فیض اور ان کے ساتھیوں نے اپنی تجویز پر زور دیا۔ بات ہوتی ہوتی فیلڈ مارشل جان آکنلیک تک پہنچی کہ ہر فوجی یونٹ میں ’جوش‘ گروپ تشکیل دئیے جائیں جن کا مقصد سپاہیوں کی تربیت ہو۔ فیلڈ مارشل آکنلیک ہندوستانی آرمی کے سربراہ تھے۔ انہوں نے تجویز منظور کر لی۔ ’جوش‘ نامی یہ گروپ ہندوستانی سپاہیوں کو محاذ پر بے جگری سے لڑنے میں اہم عنصر ثابت ہوئے۔
ہماری موجودہ فوجی قیادت اور پولیس کمانڈ کو جنگ اور متشدد تنازعات کے بارے میں اس بنیادی عنصر پر غور کرنا ہو گا۔ حب الوطنی اور وفاداری بارے تجریدی حوالے دے کر فوجی جوانوں کو قائل نہیں کیا جا سکتا۔
اگر تو ہماری سویلین اور فوجی قیادت پاکستانی طالبان کی شکل میں ریاست کو لاحق وجودی خطرے سے نپٹنے میں سنجیدہ ہے تو پھر طالبان کے خلاف لڑے والے سکیورٹی اہل کاروں کو یہ سمجھانا ہو گا کہ ملک پر طالبان کے قبضے کا نتیجہ ملکی و عالمی سطح پر کیا نکلنے والا ہے۔
کیا ہم اسلام آباد میں ایک ایسی سرکار چاہتے ہیں جو جو عورتوں اور لڑکیوں کی تعلیم پر پابندی لگا دے؟ کیا ہم چاہتے ہیں کہ بغیر کسی قانونی چارہ جوئی کے نام نہاد ’اخلاقی‘ جرائم کی پاداش میں سر عام ہاتھ کاٹے جائیں اور کوڑے مارے جائیں؟ ملک میں موجود توہین مذہب کے قوانین کا جس طرح سے استحصال کیا گیا ہے اس کو پیش نظر رکھا جائے تو ہم کہہ سکتے ہیں کہ اخلاقی جرائم کے نام پر کس طرح بے دھڑک سزائیں دی جائیں گی۔ کیا ہم یہ چاہتے ہیں کہ پاکستان دنیا میں مزید تنہا ہو جائے؟ اگر ایسا چاہتے ہیں تو اس سے حاصل کیا ہو گا؟
اب تو سعودی عرب جو مسلم دنیا میں بہت سے مسلمانوں کے لئے اخلاقیات کا ایک معیار سمجھا جاتا ہے، لبرلائز ہو ریا ہے، مغربی طرز زندگی کی طرف بڑھ رہا ہے۔ باقی مسلم اور عرب دنیا میں بھی یہ رجحانات دیکھے جا سکتے ہیں۔ اگر ہم ان رجحانات کے ساتھ چلنے کی بجائے طالبانائزیشن کی طرف جاتے ہیں تو نتیجہ کیا نکلے گا۔ ویسے ہمارے پاس کوئی منصوبہ ہے کہ ہم پانچ یا دس سال بعد کہاں کھڑے ہوں گے؟
یہ سوالات اٹھائے جانے چاہئیں تا کہ اہل اقتدار کا ضمیر جھنجھوڑا جا سکے۔ جب جوان اپنی جانیں خطرے میں ڈال رہے ہوں، مقصد چاہے کوئی بھی ہو، تو اس سوال کا جواب ہمیشہ اہم ہوتا ہے کہ وہ اپنی جان خطرے میں کیوں ڈالیں۔ اس سوال کا جواب دینا قیادت کی بنیادی ذمہ داری ہوتی ہے۔ جو لوگ اپنی جانیں خطرے میں ڈالتے ہیں،ان کا حق ہے کہ انہیں اس سوال کا جواب دیا جائے۔