حارث قدیر
پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں گزشتہ ایک سال کے تسلسل سے جاری عوامی حقوق تحریک بالآخر فتح یاب ہوئی ہے۔ فیصلہ کن مرحلہ میں عوام نے5روز تک خطے بھر میں ریاست کی رٹ کو مکمل طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا۔ لاکھوں لوگ دارالحکومت مظفرآباد کی جانب روانہ ہوئے اور دارالحکومت پہنچنے سے قبل ہی ریاست کو مطالبات کی منظوری کے نوٹیفکیشن جاری کرنا پڑے۔
جموں کشمیر میں 9مئی سے 14مئی تک 5ایام میں انتہائی غیر معمولی واقعات دیکھنے کو ملے ۔ ایک بار پھر یہ واضح ہوا کہ عوامی طاقت کے سامنے کوئی ریاستی جبر اور کوئی حربہ فتح یاب نہیں ہو سکتا۔ جب عام عوام کشتیاں جلا کر نکلتے ہیں تو وہ کسی بھی ظلم کیساتھ ٹکرانے سے نہیں کتراتے ۔ ظلم و جبر کی ایک حد ہوتی ہے، جس سے تجاوز خوف پر فتح مندی کا موجب بن جاتا ہے۔ طاقت کا ایک حد سے زیادہ استعمال ایک وقت میں طاقت کو بے معنی کر کے رکھ دیتا ہے۔ اس کا عملی مظاہرہ جموں کشمیر میں مسلسل ایک سال تک پر امن جدوجہد جاری رکھنے کے باوجود مطالبات منظور کرنے کی بجائے طاقت سے دبانے کی ریاستی کوشش کے نتیجے میں آنے والے عوامی رد عمل کی صورت نظر آیا۔
عوامی حقوق تحریک کی بنیاد اور مطالبات
5اگست 2019ء کے بعدبننے والے ابھار کی ناکامی کے بعد اس خطے کی مزاحمتی قوتوں نے عوامی حقوق کی بازیابی ، نوآبادیاتی جبراور نیو لبرل سرمایہ دارانہ پالیسیوں کے خلاف جدوجہد کا آغاز کیا۔ یوں نظریاتی طور پرنہ سہی، لیکن عملی طور پر قومی آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر استوار کرنے کا عمل شروع ہوا۔ اس کی ایک بڑی وجہ کورونا وباء کے بعد سرمایہ دارانہ نظام کے بحران میں آنے والی شدت اور معاشی بحران سے نمٹنے کیلئے نیو لبرل پالیسیوں کا تیزی سے اطلاق بھی تھی۔ بحران سے نمٹنے کیلئے توانائی اور خوراک کی قیمتوں میں بے تحاشہ اضافہ اور نئے ٹیکسوں کا نفاذ ہو رہا تھا۔
اس عمل کے خلاف شروع ہونے والی جدوجہد مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے نوآبادیاتی جبر سے نجات اور وسائل پراختیار کی جدوجہد میں تبدیل ہوتی گئی۔ اگست 2022میں ‘عوامی حقوق تحریک’ کی بنیاد رکھی گئی ۔ بجلی کی قیمتوں میں کمی، آٹے پر سبسڈی کی فراہمی اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کے مطالبات کو چارٹر آف ڈیمانڈ کا حصہ بنایا گیا۔ مطالبات کی منظوری تک بجلی کے بلوں کے بائیکاٹ کا اعلان کیا گیا۔ تاہم یہ تحریک لمبا عرصہ نہیں چل پائی۔
9مئی 2023میں آٹے کی قیمتوں میں اضافے کے خلاف انجمن تاجران اور سول سوسائٹی کی جانب سے ایک دھرنا دیا گیا۔ مطالبات منظور نہ ہونے کی صورت عوامی حقوق تحریک کے دوران بنائے گئے چارٹر آف ڈیمانڈ پر ہی احتجاجی دھرنے کو مسلسل جاری رکھنے کا فیصلہ کیا گیا اور چند دیگر مقامات پر بھی احتجاجی دھرنے شروع کر دیئے گئے۔ دو ماہ بعد بجلی کی قیمتوں میں اضافے نے اس تحریک کو اس خطے کے دیگر اضلاع تک پھیلا دیا۔ یوں عوامی حقوق تحریک پھیلتی گئی اور 16ستمبر 2023کو مظفرآباد میں ‘جموں کشمیر جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی’کا قیام عمل میں آنے کے بعد یہ ریاست گیر تحریک بن گئی۔ مطالبات میں بھی اضافہ ہوا اور بجلی کے بلوں کا بائیکاٹ بھی ریاست گیر سطح پر پھیلتے ہوئے 70فیصد سے تجاوز کر گیا۔
طویل مذاکراتی عمل سے لانگ مارچ کے فیصلے تک
خود رو انداز میں پھیلتی تحریک کی سامنے آنے والی قیادت میں تاجر رہنماؤں کی بڑی اکثریت کے ساتھ قوم پرست اور ترقی پسند رہنماؤں کی ایک محدود تعداد بھی شامل تھی۔ شٹر ڈاؤن اور پہیہ جام ہڑتالوں کے علاوہ بجلی کے بل جلانے، دریا میں بہانے اور ہوا میں اڑانے کے عمل کے بعد ریاست نے جبر کے ذریعے تحریک کو کچلنے کی کوشش میں گرفتاریاں کیں۔ تاہم عوام کی بڑی طاقت نے نہ صرف دھرنے دوبارہ قائم کئے بلکہ ریاست کو مکمل طور پر مفلوج کر کے رکھ دیا، جس کے بعد پہلی بار اس تحریک کے سامنے ریاست کو جھکنا پڑا اور مذاکراتی عمل کا آغاز ہوا۔
اس طویل اور تھکا دینے والے عمل کے دوران حکومت نے مذاکرات کے ذریعے تحریک کو زائل کرنے کا ہر حربہ اپنایا، تاہم کامیابی نہیں ہو سکی۔ قیادت نے اگر کہیں لغزش دکھائی تو عوامی طاقت نے قیادت کو بھی اپنے فیصلوں پر نظر ثانی کرنے پر مجبور کیا۔ بالآخر اس تحریک کے فیصلہ کن مرحلے کے طور پر 11مئی2024کو بھمبر سے دارالحکومت مظفرآباد کی جانب لانگ مارچ کا اعلان کیا گیا۔
ریاستی جبر اور عوامی مزاحمت
لانگ مارچ کو روکنے کیلئے ریاست نے آہنی ہاتھوں نمٹنے کی پالیسی اپنائی۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کے اراکین اور کمیٹیوں میں متحرک سیاسی کارکنوں کی پروفائلنگ کی گئی، تحریک کو غیر ملکی ایجنڈا اور بھارتی سازش قرار دیا گیا ، اور فرنٹیئر کانسٹیبلری(ایف سی) اور پنجاب کانسٹیبلری(پی سی) کی نفری طلب کر کے شہریوں کو دھمکانے کی بھرپور کوشش کی گئی۔
مارچ کے آغاز سے دو روز قبل ہی 9مئی کی صبح گرفتاریوں کا عمل شروع ہوا۔ میرپور ڈویژن میں 70سے زائد رہنماؤں کی گرفتاریوں کے خلاف مختلف شہروں میں احتجاجی مظاہرے کئے گئے۔ڈڈیال میں احتجاج کو کچلنے کیلئے ریاستی طاقت کا استعمال کیا گیا۔ تشدد اور لاٹھی چارج کے رد عمل میں مظاہرین نے شہر پر قبضہ کر لیا۔
ریاست نے اس تحریک کو کچلنے کیلئے ایک سال کے دوران جبر و تشدد کا ہر حربہ اپنایا ، تاہم تحریک مکمل طور پر پرامن رہی۔ ریاست کے ہر ظلم کے جواب میں پرامن احتجاج کیا گیا اور ایک گملا تک نہیں ٹوٹا۔ ڈڈیال میں ریاستی تشدد البتہ وہ پہلا موقع تھا، جب عوام نے طاقت کا جواب طاقت سے دینے کا فیصلہ کیا۔ ڈڈیال میں ریاستی تشدد کے خلاف ریاست گیر پہیہ جام اور شٹر ڈاؤن ہڑتال کا اعلان کیا گیا اور لانگ مارچ کی کال واپس لینے کا بھی اعلان کیا گیا۔تاہم لانگ مارچ کی منسوخی کی کال بھی عوامی رد عمل کے باعث قیادت کو واپس لینا پڑی۔
تمام شہروں میں دفعہ144نافذ کرتے ہوئے حکومت نے اس ہڑتال کو ناکام بنانے کی کوشش کی۔ مظفرآباد میں پولیس تشدد کا سلسلہ شروع ہوا۔ دو روز تک مظفرآباد میدان جنگ بنا رہا، کئی لوگ گرفتار ہوئے، متعدد زخمی ہوئے۔11مئی کو لانگ مارچ کو روکنے کی منصوبہ بندی میں مختلف مقامات سے سڑکیں حکومت کی جانب سے بند کر دی گئیں۔ پولیس نے مظاہرین کو تشدد کے ذریعے روکنے کی کوشش کی۔ متعدد مقامات پر پولیس اور مظاہرین کے مابین تصادم ہوئے ۔ ہر جگہ پولیس کو شکست دیتے ہوئے مظاہرین آگے بڑھتے رہے۔ پولیس کی فائرنگ کے سامنے مظاہرین ڈٹ گئے ،ڈنڈوں اور پتھروں کے ذریعے سے بندوقوں سے لیس پولیس اہلکاروں کو پچھاڑتے ہوئے یہ قافلے پونچھ میں داخل ہوئے تو ریاست کے اعصاب جواب دے گئے۔ دارالحکومت کو محفوظ کرنے کیلئے پنجاب رینجرز کی بھاری نفری طلب کر لی گئی۔
فیصلہ کن مذاکراتی دور
لانگ مارچ کے شرکاء کی بڑھتی تعداد اور مزاج کو بھانپتے ہوئے ریاست نے ایک بارپھر مذاکراتی عمل شروع کرنے کا فیصلہ کیا۔ یہ البتہ ایک ایسا فیصلہ کن موڑ تھا کہ مظاہرین مذاکرات کے حق میں نہیں تھے، ریاستی نمائندگان مطالبات تسلیم کئے بغیر لانگ مارچ ختم کروانا چاہتے تھے اور قیادت کے پاس کسی قسم کے کمپرومائز کی کوئی گنجائش نہیں تھی۔ یوں 12مئی کو راولاکوٹ میں ہونے والے مذاکرات ناکام ہو گئے اور قافلے شام گئے دھیرکوٹ کیلئے روانہ ہو گئے، جہاں ایک بار پھر مذاکراتی عمل شروع ہوا۔ مطالبات کی منظوری کے نوٹیفکیشن جاری نہ کئے جانے پر ایک بار پھر لانگ مارچ مظفرآباد کی طرف روانہ ہو گیا۔ مارچ کے مظفرآباد پہنچنے میں جتنا وقت زیادہ لگ رہا تھا، اس دوران ریاستی امنگوں کے برعکس شرکاء لانگ مارچ کی تعداد کم ہونے کی بجائے مسلسل بڑھتی ہی جا رہی تھی۔
ہزاروں گاڑیوں اور موٹر سائیکلوں پر مشتمل لانگ مارچ کے شرکاء کے صبر کا پیمانہ لبریز ہو چکا تھا۔ وہ ہر طرح کے خوف پر فتح حاصل کر چکے تھے۔ فیصلہ کن لڑائی کیلئے تیار شرکاء ڈنڈوں سے لیس تھے۔ اس قافلے میں مختلف سیاسی جماعتوں کے گروپوں کے علاوہ ایسے لوگ بھی شامل تھے، جو کسی طرح کی بھی مہم جوئی کیلئے تیار تھے۔ اگر لاکھوں افراد کی بے خوف طاقت ساتھ ہو تو اس کو استعمال کر کے کوئی بھی مہم جوئی بڑے خون خرابے کا باعث بن سکتی تھی۔ یہ قیادت کا امتحان تھا کہ وہ مارچ کو پرامن اختتام تک بھی لے جائے اور مطالبات کو بھی تسلیم کروائے۔ ریاست کے پاس بھی اور کوئی راستہ نہیں تھا کہ وہ بڑے قتل عام کی راہ پر گامزن ہونے کی بجائے مطالبات تسلیم کرے ۔
دھیرکوٹ سے لانگ مارچ کے قافلوں کی روانگی کے ساتھ ہی وزیراعظم پاکستان شہباز شریف نے 23ارب روپے کے خصوصی پیکیج کا اعلان کیا، مطالبات کی منظوری کے نوٹیفکیشن جاری ہونے شروع ہو گئے اورپاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر کے وزیراعظم نے مطالبات کی منظوری کی پریس کانفرنس بھی شروع کر دی۔
منظور ہونے والے مطالبات
حکومت نے نوٹیفکیشن کے ذریعے بجلی کا ٹیرف ری اسٹرکچر کردیا۔ گھریلو صارفین کیلئے 100یونٹ بجلی کی قیمت3روپے فی یونٹ، 300یونٹ کی قیمت5روپے اور 300یونٹ سے زائد بجلی کی قیمت6روپے مقرر کردی گئی۔ کمرشل صارفین کیلئے 300یونٹ تک 10روپے اور 300یونٹ سے زائد بجلی کی قیمت15روپے فی یونٹ مقرر کی گئی۔ مذاکراتی عمل میں بنیادی کردار اداکرنے والے جوائنٹ ایکشن کمیٹی کے رکن شوکت نواز میر کے اعلان کے مطابق اس ٹیرف پر کوئی ٹیکس یا سروس چارجز عائد نہیں کئے جائیں گے۔
آٹے کی قیمتوں میں 1100روپے فی چالیس کلو گرام کمی کرتے ہوئے 2ہزار روپے فی 40کلو گرام قیمت مقرر کر دی گئی۔ حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کیلئے سفارشات پیش کرنے کیلئے جوڈیشل کمیشن بنائے جانے کا نوٹیفکیشن بھی جاری کر دیا گیا۔
یاد رہے کہ تحریک کے دوران مزید 7مطالبات بھی چارٹر آف ڈیمانڈ میں شامل کئے گئے تھے، جن سے متعلق حکومت نے 4فروری کی شب نوٹیفکیشن جاری کر دیا تھا۔ تاہم ابھی تک اس نوٹیفکیشن پر عمل درآمد شروع نہیں ہوا۔ اس حوالے سے بھی حکومت نے یقین دہانی کروائی ہے کہ اس نوٹیفکیشن پر عملدرآمد کیا جائے گا۔
لانگ مارچ کا استقبال اور 3جانوں کی قربانی
جہاں لانگ مارچ کے شرکاء کا جوش و خروش اور ایک دوسرے کی مدد کے مناظر دیدنی تھے، وہیں راستوں میں استقبال کے مناظر بھی ایک نئے معاشرے کے جنم کا پتہ دے رہے تھے۔ بچے،بچیاں، مرد و خواتین مختلف مقامات پر گھروں کی چھتوں، پہاڑیوں اور بازاروں پر کھڑے ہو کر لانگ مارچ کے قافلوں کا استقبال نعرے بازی سے کر رہے تھے۔ مختلف جگہوں پر شہریوں نے کھانے کا انتظام کر رکھا تھا، پانی، شربت اور جوس جگہ جگہ پر لانگ مارچ کے شرکاء کو پلایا جا رہا تھا، مختلف مقامات پر لانگ مارچ کے شرکاء کیلئے گھروں اور ہوٹلوں کے دروازے کھول دیئے گئے۔ مظفرآباد شہر نے لانگ مارچ کے شرکاء کے استقبال کیلئے نہ صرف جانوں کا نذرانہ پیش کیا، بلکہ شہر بھر میں موجود شرکاء لانگ مارچ کو کھانا، چائے، فروٹ اور پانی وغیرہ مہیا کیا گیا۔
لانگ مارچ کی دھیرکوٹ سے روانگی سے قبل ہی مظفرآباد کی اہم عمارتوں کے دفاع کیلئے رینجرز کے قافلے ایک بار پھر ایبٹ آباد سے مظفرآباد میں داخل ہونا شروع ہوئے۔ تاہم مظفرآباد کے داخلی راستے میں برار کوٹ کے مقام پر ہی شہریوں نے رینجرز کے قافلوں کو روک دیا۔ نوجوانوں نے بندوق بردار رینجرز کے درجنوں گاڑیوں پر پتھر برسا کر انہیں واپس جانے پر مجبور کر دیا۔ اسی اثناء میں رینجرز کی مسلسل فائرنگ کے باعث ایک نوجوان کی گولی لگنے سے موت ہو گئی۔ رینجرز کی کچھ گاڑیاں مظفرآباد میں داخل ہونے میں کامیاب تو ہوئیں، لیکن شہریوں نے رینجرز کو کہیں بھی چھپنے کا موقع فراہم نہ کیا۔
لانگ مارچ کو روکنے کی حکمت عملی کے طور پر ریاست بھر میں انٹرنیٹ سروس معطل کی گئی تھی۔ معلومات تک رسائی کا سلسلہ محدود ہو چکا تھا۔ مظفرآباد کے نوجوانوں کو یہ علم بھی نہیں ہو سکا کہ لانگ مارچ کے شرکاء کو پر امن طور پر مظفرآباد میں داخل ہونے کی اجازت مل چکی تھی۔ ان کا خیال تھا کہ رینجرز کے قافلے لانگ مارچ کو روکنے کیلئے جا رہے ہیں۔ اس لئے لانگ مارچ کے شرکاء کی مدد کرنے کی غرض سے ان نوجوانوں نے اپنی جانوں کی پرواہ کئے بغیر مسلح رینجرز کے قافلے سے نہتے لڑنے کا فیصلہ کر لیا۔ اس دوران مزید دونوجوانوں کی گولی لگنے سے موت واقع ہو گئی۔ ایک نوجوان نے یہ الفاظ ادا کرتے ہوئے جان دی کہ اگر اس تحریک کی کامیابی کیلئے اسے ہزار بار قربان ہونا پڑا ، تو وہ خوشی سے اپنی جان قربان کر دے گا۔ ایک ریڑھی بان کی جانب سے لانگ مارچ کے شرکاء کو مفت فروٹ مہیا کرنے سے لیکر نوجوانوں کی جانب سے جانوں کی قربانی دینے تک ، اس تحریک کو کامیاب بنانے کیلئے قربانی اور ایثار کی ان گنت مثالیں قائم کی گئیں۔
مہم جوئی کی کوششیں اور مایوسی
تحریک میں عوام کی پرجوش شمولیت اور لانگ مارچ میں ہزاروں افراد کی شرکت جہاں تحریک کی کامیابی کی ضامن تھی،وہیں اس لانگ مارچ کے ذریعے سے متعین کردہ مطالبات سے بڑے مقاصد کے حصول کی مہم جوئی پر مبنی کوششوں کی کمی بھی نہیں تھی۔ نظریاتی دیوالیہ پن کا شکار خوش آمدی ، چاپلوس ،موقع پرست اور فرقہ پرور گروہ قیادت کی قربت حاصل کرنے کیلئے خوش آمد کی کسی بھی حد تک چلے جاتے ہیں ، اور اس قربت کو اپنے مذموم مقاصد کیلئے استعمال کرنے کیلئے کوشاں رہتے ہیں۔ تحریکوں کے دوران ابھرنے والی ٹھوس نظریات سے عاری اورحادثاتی قیادتیں خوش آمد پسندی کے ماحول میں پھر تعمیری تنقید کو بھی دشمنی سے تعبیر کرتے دیر نہیں لگاتیں۔ چھوٹے مقاصد کی سیاست کرنے والی سیاسی شخصیات عوامی تحریکوں کی قیادت میں سامنے آنے کے باوجود اپنے گروہی مقاصد کے حصول کیلئے تحریکوں کو قربان کرنے سے بھی گریز نہیں کرتیں۔ یوں موقع پرستوں کو ان کی قربت حاصل کرنے میں کوئی دقت پیش نہیں آتی۔
تاہم فیصلہ کن مراحل میں فرقہ پرور گروہ مہم جوئی کے مقاصد کے حصول کی تگ و دو میں عوامی تحرک کے ان مقاصد کے حصول سے بھی دور لے جاتے ہیں، جن کیلئے عوام لڑائی لڑنے پر تیار ہوتے ہیں۔ نتیجتاً ایک گہری مایوسی پھیلتی ہے اور مستقبل میں دوبارہ تحریک کی تعمیر میں دہائیاں اور کئی بار صدیاں لگ جاتی ہیں۔ معمولی لڑائیوں کی فتح بھی مزید لڑائی کیلئے تیار ہونے کا حوصلہ فراہم کرتی ہے۔ تاہم بڑی سے بڑی لڑائی کی شکست مستقبل میں لڑائی میں کودنے سے پہلے ہزار بار سوچنے پر مجبور کرتی ہے۔
اکثر اوقات طویل جمود کے بعد خود رو عوامی تحرک کومطلوبہ نتائج کے حصول تک محدود رکھنا، مستقبل کی بڑی لڑائی کی تیاری اور انقلابی قیادت کی تیاری کیلئے ناگزیر ہوجاتا ہے۔ خاص کر جموں کشمیر جیسے متنازعہ خطوں میں ،جہاں قرب و جوار میں عدم تحریک کے دوران کی گئی مہم جوئی نہ صرف بڑی قتل و غارتگری کا موجب بن سکتی ہے، بلکہ مستقبل میں قرب و جوار کیلئے بھی نشان عبرت ٹھہر سکتی ہے۔
فرقہ پرور گروہوں کی لانگ مارچ میں شریک عوام کی بڑی تعداد اور تین نوجوانوں کی رینجرز کے ہاتھوں موت کے بعد مظفرآباد کے شہریوں کے جذبات کو استعمال کر کے اقتدار پر قبضے کی خواہش متذکرہ بالا نتائج کا موجب ٹھہرنے کے علاوہ کسی اور نتیجے کا باعث نہیں بن سکتی تھی۔ تاہم تحریک کے مطالبات کی منظوری اور پرامن اختتام مستقبل میں نظریاتی سیاست کی نئی راہیں کھولنے باعث بن سکتی ہے، عوام کو ایک بڑی لڑائی کیلئے تیاری کا اعتماد فراہم کر سکتی ہے ، اور سب سے بڑھ کر متبادل انقلابی قیادت کی تعمیر کا وقت اور موقع فراہم کر سکتی ہے۔ یہ ایک اور خطرہ تحریک کی قیادت کو درپیش تھا، جو مہم جو عناصر کی نااہلی ، قیادت کی بہتر حکمت عملی یا کسی بھی اور وجہ سے ناکام ہوا۔
کیا لڑائی ختم ہو گئی؟
جموں کشمیر میں رونما ہونے والے یہ واقعات غیر معمولی ہیں اور یہ کامیابی تاریخی ہے۔ ایک نوآبادیاتی خطے میں نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف یہ بہت بڑی حاصلات ہیں، جو تقریباً ناممکن تھیں۔ اس کے اثرات نہ صرف اس سماج پر تادیر رہیں گے، بلکہ حقیقی معنوں میں ہمالیہ سے اٹھنے والے یہ طوفان پاکستان سمیت جنوب ایشیاء کے طول و عرص میں نیو لبرل پالیسیوں کے خلاف محنت کشوں کو جدوجہد کا حوصلہ اور طاقت فراہم کریں گے۔
تاہم یہ لڑائی کا اختتام نہیں ، بلکہ یہ اس جدوجہد کے آغاز کا بھی آغاز ہے، کہ جس کی فتح مندی ہر طرح کے استحصال اور غلامی کی ہر شکل کے خاتمے کا باعث بنے گی۔ یہ انقلابی قوتوں کا بھی امتحان ہے کہ وہ مستقبل کی اس جدوجہد کی تیاری کے عمل کو تیز تر کریں، عبوری پروگرام کی بنیاد پر قومی آزادی کی جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر استوار کرنے کے فن سے لیس ہوں اور محنت کشوں اور عام عوام کو اس نظریاتی اوزار سے لیس کریں، کہ جس کا استعمال ان کے مقدر بدل دے۔