جب 1992ء میں وہ لاہور میں خالد جاوید جان کی کتاب ’میں باغی ہوں‘ کی رونمائی کے لئے آئیں تو ہال کے باھر ہمارا جدوجہد کاسٹال لگا ہوا تھا۔ میں ابھی پہنچا نہ تھا کہ وہ سٹال پر تشریف لائیں میرا پوچھا اور پھر لیون ٹراٹسکی کی ایک کتاب ”فاشزم کیا ہے، اس سے کیسے لڑا جائے“ جس کا ترجمہ خالد جاوید جان نے ہی کیا تھا، کی تما م پچاس کاپیاں اور درجنوں دیگر کتابیں خریدیں۔
تاریخ
تاریخ کو کیسے سمجھا جائے؟
آج ہمیں جو تاریخ پڑھائی جاتی ہے،وہ حکمرانوں کی تاریخ ہے۔ یہ وہ تاریخ ہے جس کو فاتحین نے درباریوں سے لکھوایاہے اور آج ہمیں مجبور کیا جاتا ہے کہ دربار کے دلالوں کے ان صحیفوں پر ایمان لایا جائے۔ ان سے تاریخ نے انتقام لیا ہے اور مستقبل میں بھی تاریخ کذابوں سے کڑا امتحان لے گی اور ان کی چمکتی ہوئی تصانیف،جن کو آج باعث فخر سمجھ کر شاہوں سے اعزازات لیے جاتے ہیں، تاریخ کا کچرا دان ان کا مقدر ہے۔اور سرمایہ داری کی موت سے ایک ایسے سماج کا جنم ہوگا،جہاں انسانی تحقیق اور شعور کی راہیں منافع کے زہر سے آلودہ نہیں ہوں گی اور انسانیت حقیقی معنوں میں کائنات کی تسخیر کے عمل کو ممکن بنا سکے گی۔
جنرل مشرف کو رخصت کرانے والا ’مہمان‘ رخصت ہوا
عارف شاہ پروہنا ایوب آمریت کے خلاف چلنے والی عوامی انقلابی تحریک میں سوشلسٹ خیالات سے متاثر ہوئے۔فوج میں سپاہی بھرتی ہوئے مگر فوج چھوڑ کر ایوب آمریت کے خلاف تحریک میں شامل ہو گئے۔ہمیں اکثر ایک واقعہ سناتے تھے:”میں جب جلسوں میں جانے لگا تو میرے سی او نے مجھے کہا کہ فوجی سیاست میں حصہ نہیں لے سکتے۔ میں نے جواب دیا سر جرنل صاب بھی تو لے رہے ہیں“۔
فیض کا آدرش
فیضؔ صاحب کی اچانک وفات پر ملک کے گوشے گوشے میں اور دوسرے ملکوں میں بھی جس گہرے رنج و غم کا اظہار کیا گیا وہ ان کے دشمنوں کے لیے باعث ِ حیرت ہو تو ہو، عام لوگوں کے لیے ہرگز نہیں ہے۔
فیض انکل فیض
فیض صاحب سنجیدہ صفت انسان تھے مگر ان کی سنجیدگی میں بھی ایک عجیب طرح کی خوشگواری اور آسودگی محسوس ہوتی تھی۔
کم تنخواہ لیں گے
فیض نے اسے قبول کرنے سے انکار کیا اور کہا یہ تنخواہ بہت زیادہ ہے۔ انہیں صرف اٹھارہ سو روپے ماہوار چاہئیں، بحث اس بات پر ہورہی تھی۔
فیض گلشن میں وہی طرز بیاں ٹھہری ہے
فیض کی طرز فغاں آج ہماری روایت کا حصہ ہے۔ ہماری شعری تاریخ کا ایک قصہ ہے۔ جو اپنے عہد میں بھی مقبول تھی اور اب بھی کئی جانے پہچانے شاعروں کی آوازوں میں اس کے رنگ و آہنگ کو دیکھا جاسکتا ہے۔
فیض احمد فیض
فیض صاحب، اگر جوش گفتگو میں گاہے گاہے مجھ سے زیادتیاں ہوگئی ہوں تو مجھے معاف کر دیجئے۔ میں نے آپ سے اتنی ہی محبت کی جتنی دوسروں نے کی مگر میں ”اپنا آدمی“ بھی ہوں اور آج آپ سے آخری فرمائش کرنے آیا ہوں۔ ذرا ”نسیم صبح چمن“ سے کہہ دیجئے کہ میرے گھر میں، جہاں آپ کے سانسوں کی خوشبو بسی ہوئی ہے وہاں ”یادوں سے معطر“ تو آئے مگر ”اشکوں سے منور“ نہ جائے۔
مارکس کے آخری سال: تازہ سوانح عمری میں دلچسپ انکشافات
نئے حقائق کی روشنی میں مارکس اپنے نظریات کی از سر نو تشکیل پر ہمہ وقت تیار رہتا۔ یہی وجہ ہے کہ وہ کٹر قسم کا انقلابی نہیں تھا۔ مستو کے خیال میں مارکس کے بعد آنے والے مارکس وادیوں میں یہ خاصیت دیکھنے کو نہیں ملی۔ سوچ میں لچک کی غالباً بہترین مثال وہ جوابی خط ہے جو مارکس نے روسی انقلابی ویرازاسولچ کو لکھا۔ ویرا نے 1881ء میں مارکس کو خط لکھا اور اس خط میں ویرا نے روسی کسان طبقے کے دیہی کمیون (ایک طرح کی پنچائت: مترجم) بارے مارکس کی رائے مانگی۔ ویرا جاننا چاہتی تھی کہ کیا روسی انقلابی کسانوں کو منظم کرنے کی کوشش کریں یا مزدور طبقے میں ہی کام کریں جو حجم میں اس وقت بہت چھوٹا تھا۔
اکتوبر انقلاب اور انسان دوست سماج کا آدرش
اس سماج کی تعمیر کا اک آدرش تھا: ’ہر قسم کے ظلم و استحصال سے پاک سماج‘۔ یہ وہ آدرش تھا جس کے حصول کی خاطر 20 ویں صدی میں لاکھوں کروڑوں لوگوں نے جدوجہد کی اور کئی بے مثال کامیابیاں حاصل کیں۔ یوں 20 ویں صدی کمیونسٹ انقلابوں اور قومی آزادی کی تحریکوں کی صدی قرار پائی۔