آزادی کے بعد ہی امریکی اثرو رسوخ پاکستان کے معاملات میں بے حد بڑھ چکاتھا اور اسی اثر کے تحت ملک میں بائیں بازو کی تحریکوں کو قانونی موشگافیوں کے ذریعے جھوٹے مقدمات میں پھنساکر اورظلم وتشدد کے ذریعے ختم کرنے کی پوری کوشش کی گئی۔
تاریخ
سوشلسٹوں کا فوجی ہیرو: ظفر اللہ پوشنی امر ہو گئے (1916-2021ء)
”میں بذات خود کبھی کمیونسٹ پارٹی کا ممبر نہیں رہا اور پارٹی پالیسیوں کے بہت سے پہلو سے اتفاق نہیں کرتا تھا لیکن مجھے اس پارٹی کے مسلک سے ہمدردی ضرور تھی۔ ہماری دنیا کی بیشتر آبادی اس قدر افلاس، ناداری، بھوک اور پریشانی کا شکار ہے کہ کوئی بھی حساس انسان ایسی صورت حال سے مطمئن نہیں ہو سکتا اور اس کی خواہش ہوگی کہ اس بے مروت استحصالی نظام کو کسی طرح سے بدلا جائے۔ خاص طور پر ایشیا، افریقہ اور لاطینی امریکہ کے غریب ممالک کے رہنے والے لوگ جس کسمپرسی کی حالت میں زندہ ہیں وہ کوئی زندگی تو نہیں“۔
طالبان کے ہاتھوں میرے والد کا بہیمانہ قتل، امریکہ نے مدد کی اپیل نظر انداز کی
رات کے ابتدائی پہر میں جب طالبان دارالحکومت میں داخل ہوئے توانہوں نے ”خصوصی مہمان“ سے ملاقات کرنے کیلئے اقوام متحدہ کے کمپاؤنڈ کے دروازوں پر دستک دی۔ گھنٹوں کے بعدایک بریکنگ نیوز چلنا شروع ہوئی کہ ”سابق افغان رہنما، صدر نجیب اللہ کو پھانسی دے دی گئی۔“ میں نہیں جانتی تھی کہ اس لفظ کا مطلب کیا ہے۔ میں نے اپنی بہن کی طرف دیکھا لیکن اس کے جذبات سے عاری چہرے نے مجھے مزید گھبراہٹ میں دھکیل دیا۔ میں جلدی سے لغت لے آئی اور حرف ’E‘ کا صفحہ کھولا تا کہ ’Execute‘ کا معنی دیکھ سکوں۔
فادر آف ماڈرن پنجاب
دیہی پنجابیوں کے مفادات کے فروغ اور تحفظ کے لیے تعلیم، سیاست اور معیشت کے شعبوں میں اصلاحات متعارف کرانے اور قانون سازی کے اقدامات شروع کرنے کے لیے ان کی انمول خدمات کی وجہ سے انھیں ”فادر آف ماڈرن پنجاب“ کہنا بالکل درست ہو گا۔
عطا اللہ مینگل: بلوچ سیاست کا ایک انقلابی عہد تمام ہوا
سردار عطا اللہ مینگل کی وفات کے ساتھ ہی ایک ایسے سیاسی دور کے کتب خانہ کا خاتمہ ہو گیا ہے جس پر ابھی تحقیق کی جانی باقی تھی۔ انہوں نے کبھی اپنی سوانح عمری نہیں لکھی۔ بقول ان کے بیٹے اختر مینگل کے ایک بار جب ان سے لکھنے کو کہا تو جواب ملا: ”سوانح عمری لکھنے کے لیے سچ لکھنا پڑتا ہے اور مجھے جھوٹ بولنا آتا نہیں“۔
پنجاب میں مزاحمت کی میراث
عبداللہ بھٹی عرف دُلہ بھٹی، ان کے والد فرید اور دادا ساندل عرف بجلی نے پنجاب میں مغلیہ حکومت کو چیلنج کیا اور اس مزاحمت کومغلیہ سلطنت کے خلاف تین نسلوں تک جاری رکھا۔ مغلیہ سلطنت کی انتہائی رجعت پسندانہ ٹیکس پالیسیوں کو مسترد کرتے ہوئے بھٹی محنت کش طبقے کے انقلابی رہنماؤں کے طور پر ابھر کر سامنے آئے۔ وہ مقامی برادری میں اپنی بہادری اور سماجی انصاف کے فروغ کی وجہ سے مقبول ہوئے۔ بغاوت کے خوف نے اکبر کو دو بار اپنا دارالحکومت دہلی/آگرہ سے لاہور منتقل کرنے پر مجبور کیا۔ ان سب (بھٹیوں) نے اکبر کے زیر اقتدار طاقتور مغلیہ سلطنت کے خلاف اس جدوجہد میں اپنی جانیں تک قربان کر دیں۔ دُلہ اپنی بیوی کی گرفتاری کی وجہ سے مغل فوج کے سامنے ہتھیار ڈالنے پر مجبور ہوا تھا۔
رائے احمد خان کھرل: پنجاب کا انقلابی ہیرو
اگرچہ پنجاب کے لوگ رائے احمد خان کھرل کو اپنا ہیرو تسلیم کرتے ہیں لیکن بعد از نو آبادیاتی پنجاب کی یکے بعد دیگرے حکومتوں نے ان سے منسوب عمارتوں کو محفوظ رکھنے کے لیے کچھ بھی نہیں کیا۔
افغانستان: ہتھوڑے اور سندان کے بیچ
افغانستان اندر صورتحال لاینفک طور پر غیر مستحکم ہے۔ خیالی پلاؤ پکانے والے ہی اس سے انکار کر سکتے ہیں۔ یہ گمان کہ اتحاد اپنی موجودہ شکل میں چند سال جاری رہے گا تو اسے مضحکہ خیز ہی قرار دیا جا سکتا ہے۔ ’آزاد‘ کابل میں قبضہ بازی کی خاطر پہلے ہی کشمکش شروع ہو چکی ہے گو کھلم کھلا جھڑپوں سے اجتناب کیا جا رہا ہے۔ بہت کچھ داؤ پر لگا ہے۔ مغرب دیکھ رہا ہے۔ سرمائے کا وعدہ کیا گیا ہے۔
چراغ بجھتے ہی رہتے ہیں پر…
انکی شخصیت کا ایک اہم پہلو ان کی بہادری تھی۔ ایک بار لاہور مال روڈ پر جلوس پر پولیس نے لاٹھی چارج کر دیا۔ وہ خواتین کے سامنے ڈھال بن گئے۔ اسی طرح ایک بار بیڈن روڈ پر جس عمارت میں جدوجہد کا دفتر تھا اس پر قبضہ گروپ والے بندوقوں کی مدد سے قبضہ کرنے آ گئے۔ اس عمارت کے مالک حاجی صاحب کا کوئی لین دین کا جھگڑا تھا۔ اس کا خواہ مخواہ خمیازہ ہمیں بھی بھگتنا پڑا۔ قبضے کے دوران کلاشنکوف بردار بدمعاشوں سے شعیب بھٹی الجھ پڑے۔ وہ عمارت خالی کرنے پر تیار نہ تھے۔
طارق علی: تقسیم فیض، منٹو اور امرتا پریتم کی نظر میں
”آج میرا دل افسردہ ہے۔ ایک عجیب سا اضمحلال اس پر چھایا ہوا ہے۔ چارساڑھے چار سال پہلے جب میں نے اپنے دوسرے وطن بمبئی کو خیر باد کہا تھا تو میرا دل اس طرح مغموم تھا۔ مجھے وہ جگہ چھوڑنے کا صدمہ تھا جہاں میں نے اپنی زندگی کے بڑے پُر مشقت دن گزارے تھے۔ ملک کے بٹوارے سے جو انقلاب برپا ہوا، اس سے میں ایک عرصے تک باغی رہا اور اب بھی ہوں لیکن بعد میں اس خوفناک حقیقت کو میں نے تسلیم کر لیا مگر اس طرح کہ مایوسی کو میں نے اپنے پاس تک نہیں آنے دیا۔“