طلبہ نے مطالبہ کیا کہ یونیورسٹی فیس بالکل ختم کی جائے اور ملک کے تمام حصوں میں انٹرنیٹ کی مفت فراہمی یقینی بنائی جائے۔
Month: 2020 مئی
ایک تذویراتی سبق: جو آگ کابل میں لگائی جاتی ہے اسکا دھواں پاکستان سے اٹھتا ہے
افسوس اس بات کا ہے کہ پاکستانی حکمران طبقے کی سفارت کاری سے اس شرمناک لا علمی کی بھاری قیمت عوام کو ادا کرنا پڑتی ہے۔ اس لئے جب کابل کے کسی زچہ بچہ وارڈ پر یا جلال آباد میں کسی جنازے پر حملہ ہو تو افغان شہریوں اور سول سوسائٹی سے زیادہ پاکستان کے شہریوں اور سول سوسائٹی کو احتجاج کرنا چاہئے۔ کابل اور جلال آباد میں لگنے والی آگ کے دھوئیں کو پشاور اور لاہور پہنچنے میں دیر نہیں لگتی۔
سپین: نئی تحقیق نے ہرڈ امیونٹی پر سوال اٹھا دئیے، صرف 5 فیصد میں اینٹی باڈی پائے گئے
ہرڈ امیونٹی سے مراد یہ ہے کہ اگر آبادی کے ستر فیصد لوگوں میں ایک وبا کے خلاف مدافعت پیدا ہو جائے تو پھر وہ وبا باقی تیس فیصد کے لئے بھی خطرناک نہیں رہتی۔
کابل سے مولانا طارق جمیل کے نام خط
ممکن ہے تبلیغی بھائیوں کے پیسوں سے بنے ہسپتال پر طالبان حملہ نہ کریں۔
بیرونی قرضے واپس کرنے سے انکار کیا جائے
عمران خان اُن سے قرضوں کی ری شیڈولنگ کی اپیل کر رہے ہیں۔ یہ تو ننگی تلوار کو ایک دو سال کے لئے استعمال نہ کرنے والی بات ہے۔ یہ وقت ہے بولڈ معاشی ترجیحات کا۔ قرضہ جات ادا کرنے سے انکار کیا جائے۔ فوجی اخراجات کم کئے جائیں۔ صحت اور تعلیم کا بجٹ بڑھایا جائے۔
زرعی پیکیج کا براہ راست فائدہ چھوٹے زمین دار اور کسان کو پہنچایا جائے: پاکستان کسان رابطہ کمیٹی
پاکستان کسان رابطہ کمیٹی نے حکومت کے زرعی شعبہ کے اعلان شدہ 50 ارب روپے کے پیکیج کو رد کیا ہے
گیارہ ستمبر: حملہ آوروں کی مدد کرنے والے مشتبہ سعودی سفارتکار کا نام سامنے آ گیا
ٹرمپ انتظامیہ دو سال سے قومی سلامتی کے نام پر مسید بن جراح کا نام ظاہر کرنے سے انکار کر رہی تھی۔
پاکستانی صحافت کے اصل ہیرو!
’روزنامہ جدوجہد‘ان چاروں بہادر صحافیوں کو خراج ِعقیدت پیش کرتا ہے اور یہ عہد کرتا ہے کہ ان چاروں کی شروع کی ہوئی جدوجہد کو جاری رکھا جائے گا۔
عمر 4 گھنٹے، نام امید، انجام موت
یہ نام افغانستان کے بہتر مستقبل کی امید میں اورماں کے آنے والے اچھے دنوں کا سوچ کر امید رکھا گیا۔
خون ِ خاک نشیناں تھا رزق خاک ہوا؟
عالمی اور مقامی میڈیا کی سرفنگ کرنے کے بعد مجھے وہ نسل پرست برطانوی صحافی یاد آیا جس نے کہا تھا کہ اخبار کے لئے ہزار مینڈکوں (مراد افریقی) کے مرنے کی اتنی اہمیت ہوتی ہے جتنی پچاس بھوروں (مراد ایشین) کی اور پچاس بھوروں کے مرنے کو اتنی کوریج ملتی ہے جتنی ایک انگریز کی موت کو۔