ان پر تنقید کی جا رہی تھی کہ وہ ان افغان شہریوں کو بر وقت یا مناسب طریقے سے ملک سے نکالنے کا بندوبست نہ کر سکیں جنہوں نے افغانستان میں تعینات ہالینڈ کی فوک کے ساتھ بطور مترجم یا ہالینڈ کے ساتھ کسی بھی حیثیت میں کام کیا۔

ان پر تنقید کی جا رہی تھی کہ وہ ان افغان شہریوں کو بر وقت یا مناسب طریقے سے ملک سے نکالنے کا بندوبست نہ کر سکیں جنہوں نے افغانستان میں تعینات ہالینڈ کی فوک کے ساتھ بطور مترجم یا ہالینڈ کے ساتھ کسی بھی حیثیت میں کام کیا۔
”طالبان ہم سے مسلسل جھوٹ بول رہے تھے۔ ہم سے کہہ رہے تھے کہ آپ خواتین ملازمین کو اگلے ہفتے بلوایا جائے گا۔ اب کہا جا رہا ہے کہ اس وزارت کو ہی ختم کر دیا جائے گا۔ خواتین کے نام پر کچھ باقی نہیں بچے گا۔ تمام خواتین جو اس احتجاج میں شامل ہیں، ہم سب اپنے اپنے کنبے کا بوجھ اٹھا رہے ہیں۔ ہم میں سے بعض بیوہ ہیں۔ بعض کے شوہر نشہ کرتے ہیں۔ ہم نے تعلیم حاصل کی ہم گھر پر نہیں بیٹھنا چاہتیں۔ وہ ہمیں وزارت میں داخل نہیں ہونے دے رہے۔ ہم تین ہفتے سے یہاں آ رہے ہیں۔ افغانستان میں عورت نام کی کوئی ذات نہیں بچی“۔
بلا تبصرہ!
ملا برادر کا اصرار تھا کہ ایک ایسی حکومت بنائی جائے جس میں غیر پشتون اقوام کی بھی نمائندگی ہو اور غیر طالبان حلقے بھی شامل ہوں کیونکہ دوحہ معاہدے کا یہی تقاضہ تھا اور ایسی حکومت کو دنیا آسانی سے قبول کر سکتی تھی۔
ظہیر جب تھرڈ ایئر میں داخل ہوا تو ایک دن اس نے محسوس کیا کہ اسے عشق ہو گیا ہے…اور عشق بھی بہت اشد قسم کا۔ جس میں اکثر انسان اپنی جان سے بھی ہاتھ دھو بیٹھتا ہے۔
”افغان عوام کو اپنی تاریخ پر فخر ہے اور اسی لیے وہ (طالبان) اسے مٹا دینا چاہتے ہیں۔ وہ ہم سے ہمارا غرور چھین لینا چاہتے ہیں۔“