آخر میں ہم دیکھتے ہیں آڈلر خود بھی سوشلزم اور دانشور طبقے کے تعلق بارے خیال پرستانہ اور تجریدی کلئے بارے مطمئن نہیں۔ آڈلر کے اپنے پراپیگنڈے کے مطابق اس کے مخاطب وہ ذہنی مزدور نہیں جو سرمایہ دارانہ معاشرے میں پہلے سے خدمات سر انجام دے رہے ہیں بلکہ وہ اس نوجوان نسل سے مخاطب ہے جو یہ پیشہ اختیار کرنے جا رہی ہے یعنی طالب علم۔ اس کا ایک ثبوت تو یہ ہے کہ انہوں نے کتابچے کا انتساب ”ویانا کی آزاد طلبہ یونین“ کے نام کیا ہے بلکہ اس کتابچے یا تقریر کا خطیبانہ اور ایجی ٹیشنل لہجہ بھی اس بات کی چغلی کھاتا ہے کہ وہ طلبہ سے مخاطب ہیں۔ اس قسم کے لہجے میں آپ پروفسیروں، لکھاریوں، وکیلوں اور ڈاکٹروں سے بات نہیں کر سکتے۔ ابتدائی چند الفاظ کے بعد ہی یہ تقریر آپ کے حلق میں اٹک جائے گی۔
