Day: اکتوبر 3، 2022

[molongui_author_box]

دانشور طبقہ سوشلزم سے کتراتا کیوں ہے؟ (دوسری قسط)

آڈلر کا یہ تجزیہ تو بالکل درست ہے کہ دانشور طبقے کی اجتماعیت کے لئے حمایت انہیں فوری مادی فوائد دینے کی بنیاد پر حاصل نہیں کی جا سکتی البتہ اس تجزئے سے یہ بھی نہیں پتہ چلتا کہ کیا کسی صورت دانشور طبقے کی حمایت حاصل کر نا کسی طور ممکن ہے بھی سہی۔ نہ ہی آڈلر کے تجزئے سے یہ ثابت ہوتا ہے کہ دانشور طبقے کے مادی مفادات اور طبقاتی بندھن ان ثقافتی و تاریخی امکانات سے زیادہ اہم نہیں جو سوشلزم پیش کرتا ہے۔

دانشور طبقہ سوشلزم سے کتراتا کیوں ہے؟

یورپی دانشور، باوجودیکہ اجتماعیت کے ساتھ ان کا کوئی براہ راست تضاد نہیں بنتا، محنت کشوں کی جدوجہد سے لا تعلق نظر آتے ہیں۔ دانشوروں میں محنت کشوں کی جدوجہد بارے کوئی دلچسپی نہیں پائی جاتی۔ آڈلر بھی اس صورت حال سے نا واقف نہیں مگر آڈلر کی نظر میں ایسا ہونا نہیں چاہئے کیونکہ اس لا تعلقی اور عدم دلچسپی کی کوئی معروضی بنیادیں موجود نہیں۔ آڈلر بھرپور طریقے سے ایسے مارکس وادیوں کی مخالفت کرتے ہیں جن کی نظر میں ایسے عمومی حالات ناپید ہیں جن کے نتیجے میں دانشور طبقہ بڑے پیمانے پر سوشلزم کی طرف راغب ہو جائے۔

دہائیوں بعد برطانیہ میں مزدوروں کی ہڑتال، بیشتر ٹرینیں روک دی گئیں

ریل مزدوروں کا مطالبہ ہے کہ ملازمتوں، پنشن اور اجرتوں میں کٹوتی کا سلسلہ بند کیا جائے۔ مہنگائی کے نام پر محنت کشوں کے خلاف انتقامی کارروائیاں کرنے کی بجائے منافع خوروں کے خلاف کارروائی کی جانے چاہیے۔

ناروے: ٹونی عثمان کے ترجمہ کردہ ڈرامہ ’تاریک ایام‘ کی تقریب رونمائی

ٹونی عثمان دو ثقافتوں اور زبانوں کے درمیان ایک پُل کی حیثیت رکھتے ہیں۔ اس سے پہلے یہ سعادت حسن منٹو کے متعدد افسانوں کے ترجمے نارویجن زبان میں کر چکے ہیں۔ پروگرام کی نظامت شاعر آفتاب وڑائچ نے کی اور تقریب کے اختتام پر، سوشل ورکر نثار بھگت نے ٹونی عثمان کو پھولوں کا گلدستہ پیش کیا اور اُنکے جلد ہی پیش کئے جانے والے نئے اسٹیج ڈرامے ”سو فیصد“ پر پیشگی مبارکباد بھی دی۔