Day: فروری 13، 2024


بایاں بازو اور الیکشن: انتخابی ناکامی سے بڑی شکست حکمت عملی کا فقدان ہے

پہلی بات: جب تک بایاں بازو ملک بھر میں امیدوار کھڑے نہیں کرے گا،تب تک وہ کوئی ایک حلقہ بھی نہیں جیت سکے گا۔یہ حکمت عملی کہ ہم ایک حلقہ میں چند سماجی کام کر کے الیکشن جیت جائیں گے، احمقانہ حد تک غلط حکمت عملی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ ساری جدوجہد ایک شخص کے گرد گھومنے لگتی ہے۔یوں ایک حد تک بورژوا جماعت اور سوشلسٹ جماعت کا فرق ہی ختم ہو جاتا ہے۔نظریات پیچھے چلے جاتے ہیں۔
بایاں بازو اس وقت تک ابتدائی انتخابی کامیابیاں حاصل نہیں کر سکے گا جب تک وہ ملک بھر میں،ہر حلقے سے امیدوار کھڑے نہیں کرے گا۔ اس صورت میں کہ جب بائیں بازو کو ملک گیر سطح پر چار پانچ فیصد ووٹ پڑے گا، تب ہی دو چارحلقوں سے کامیابی ملے گی۔
اپنی موجودہ تنظیمی شکل میں اس کے اندر یہ سکت نہیں کہ وہ ہر حلقے سے امیدوار بھی کھڑے کر سکے اس لئے ضروری ہے کہ ترقی پسند،سیکولر قوم پرست جماعتوں سے انتخابی اتحاد (جس کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں،مثلا سیٹ ایڈجسٹ منٹ وغیرہ) بنایا جائے۔ قوم پرست پہلے سے اس حیثیت میں ہیں کہ چند نشستیں جیت سکتے ہیں۔ یہ صورت حال قوم پرستوں کے بھی مفاد میں ہے اور بائیں بازو کے لئے بھی سود مند۔ زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں کہ اس پت کئی بار بات ہو چکی ہے۔پاکستان میں بایاں بازو تب ہی طاقتور ہوا جب قوم پرست قوتوں سے اتحاد بنایا گیا۔ اس اتحاد کے لئے یہ بھی ضروری ہے بایاں بازو قوم پرستی بارے لینن وادی موقف اختیار کرے اور اپنی نظریاتی گومگو کو ترک کرے۔