Month: 2024 مارچ

[molongui_author_box]

بھارت: امیر و غریب کی تقسیم برطانوی دور حکومت سے بھی بدتر

عالمی عدم مساوات لیب (ورلڈ ان ایکویلٹی لیب) کی ایک نئی تحقیق کے مطابق بھارت میں ارب پتیوں میں بے تحاشہ اضافے کے بعد آمدن میں عدم مساوات آسمان کو چھو رہی ہے۔ یہ عدم مساوات اس وقت دنیا میں سب سے زیادہ ہے اور امریکہ، برازیل اور جنوبی افریقہ سے زیادہ واضح ہے۔

بائیڈن کی فنڈ ریزنگ مہم کے دوران غزہ جنگ کے خلاف ہزاروں کا احتجاج

فلسطین کے حامی مظاہرین نے جمعرات کو صدارتی انتخابی مہم کی تاریخ کے سب سے بڑے ون نائٹ فنڈ ریزر میں خلل ڈالا ہے۔ نیویارک سٹی کے ریڈیو سٹی میوزک ہال میں ہونے والے اس پروگرام میں متعدد مشہور شخصیات شامل تھیں اور صدر بائیڈن نے سابق صدور باراک اوباما اور بال کلنٹن کے ہمراہ ری الیکشن مہم کیلئے 25ملیین ڈالر کا ریکارڈ فنڈ اکٹھا کیا۔

مودی کے شائننگ انڈیا میں 83 فیصد نوجوان بے روزگار

انٹرنیشنل لیبر آرگنائزیشن(آئی ایل او) اور انسٹی ٹیوٹ فار ہیومن ڈویلپمنٹ(آئی ایچ ڈی) کی جانب سے منگل کو جاری کی گئی امپلائمنٹ رپورٹ ظاہر کرتی ہے کہ بھارت کے تقریباً83فیصد نوجوان بیروزگار ہیں اور کل بیروزگار نوجوانوں میں ثانوی یا اعلیٰ تعلیم یافتہ نوجوانوں کی تعداد میں شدید اضافہ دیکھا گیا ہے۔

کمیونسٹ پارٹیوں کا اقتدار: نیپال پسماندگی کے باوجود سیاسی مباحث کا مرکز

نیپال میں اس وقت ایک بار پھر بائیں بازو کی حکومت قائم ہو چکی ہے۔ اس حکومت میں 4بڑی سیاسی جماعتیں شامل ہیں۔ یہ نئی حکومت 25فروری کو وزیراعظم پرچندا کی جانب سے کانگریس سے علیحدگی کے اعلان کے بعد قائم ہوئی ہے۔ نئی بائیں بازو کی اتحادی حکومت میں سب سے بڑی سیاسی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال یونائیٹڈ مارکسسٹ لینن اسٹ (سی پی این یو ایم ایل) ہے، دوسری بڑی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال ماؤسٹ سنٹر(سی پی ایم ایم سی) ہے، وزیراعظم پرچندا کا تعلق اسی جماعت سے ہے۔ تیسریبڑی سیاسی جماعت آر ایس پی ہے، جو پہلے کانگریس کے ساتھ شامل تھی، اب اس نئے اتحاد میں شامل ہے۔ چوتھی بڑی جماعت کمیونسٹ پارٹی آف نیپال یونیفائیڈ سوشلسٹ (سی پی این یو ایس) ہے، جس کی قیادت سابق وزیراعظم مدن کمار نیپل کر رہے ہیں۔

’’مٹو کی سائیکل‘‘ ترقی کے ایکسپریس وے پر 

پاکستان میں چند ایک بڑے شہروں کو چھوڑ کر مزدور وں اور ورکنگ کلاس کے لیے کوئی ماس ٹرانسپورٹ کا منصوبہ نہیں بنایا گیا ۔دیہات سے شہروں میں مزدور ی کے لیے آنے والا مزدور پرائیویٹ ٹرانسپورٹرز کے رحم وکرم پر ہے ۔شہروں میں اشرافیہ نے علیحدگی کی الگ سے تحریک شروع کر رکھی ہے جس کے تحت وہ اپنے پوش علاقے غریبوں کے علاقوں سے الگ کئے جا رہے ہیں جہاں  تک پہنچنے کے لیے سرکار انہیں انہی غریبوں کے ٹیکس سے بڑی بڑی ایکسپریس ویز بنا کر دی رہی ہے جن پر نان موٹررائیڈ سواریاں آ نہیں سکتیں ۔یہ بڑی بڑی سڑکیں اگرچہ ملک کی ترقی کے نام پر بنائی جا رہی ہیں لیکن ان کا بڑا مقصد اشرافیہ کو بہتر نقل و حمل مہیا کرنا اور پسے ہوئے طبقے کو مرکزی معاشی دھارے کے ہا شیے میں دھکیلنا ہے ۔ مسٸلہ تو یہ ہے کہ اگر مٹو نئی سائیکل لے بھی لے تو پھر بھی  وہ دیش کے وکاس کے نام پر بنی ہوئی ایکسپریس وے پر اسے چلا نہیں پائے گا ۔

بی جے پی کے 180 ملین اراکین، 800 این جی اوز اور 36 ونگ ہیں

انتہائی دائیں بازو کا عروج ایک عالمی رجحان ہے۔ شاید دنیا کے دوسرے سب سے زیادہ آبادی والے ملک بھارت سے زیادہ کہیں اوردایاں بازو اتنامضبوط نہیں ہے۔ وہاں بھارتیہ جنتا پارٹی( بی جے پی) وزیر اعظم نریندر مودی کی قیادت میں 2014 سے اقتدار پر قابض ہے۔
تاہم بی جے پی محض ایک پارٹی نہیں ہے۔ بی جے پی اور ان کی کیڈر آرگنائزیشن ہندو قوم پرست نیم فوجی رضاکار وں پر مشتمل راشٹریہ سویم سیوک سنگھ (آر ایس ایس) کا نظریہ ایک عسکری، جوہری ہتھیاروں سے لیس بھارتی عظمت کا راستہ ہے۔ یہ ایک ایسا ویژن بھی ہے جس میں مسلمانوں کی کوئی تاریخ نہیں ہے اور اس لیے انہیں حال میں بھی یہاں رہنے کا کوئی حق نہیں ہے۔

ایجنسیوں کی اداروں میں مداخلت شدید تشویش کا باعث ہے: ایچ آر سی پی

پاکستان کمیشن برائے انسانی حقوق (ایچ آر سی پی) کے چیئرپرسن اسد اقبال بٹ کی جانب سے جاری پریس ریلیز میں کہا گیا ہے کہ ایچ آر سی پی کو ہائی کورٹ کے چھ ججوں کی جانب سے لگائے گئے الزامات پر گہری تشویش ہے۔ ان ججوں کا دعویٰ ہے کہ ریاست کی انٹیلی جنس ایجنسیوں کی مداخلت اور دھمکیوں نے عدلیہ کی آزادی کو نقصان پہنچایا ہے۔

ترکی: ’اردگان کی مقبولیت برقرار ہے مگر بائیں بازو کو بھی زبردست کامیابی ملی ہے‘

اردگان ترک معاشرے میں شدید پولرائزیشن کا فائدہ اٹھا کر اپنی طاقت کی بنیاد بنانے میں کامیاب رہے ہیں۔ ہمارے ہاں ایک طرف ثقافتی اور مذہبی پولرائزیشن ہے اور دوسری طرف سماجی، طبقاتی پولرائزیشن ہے۔ جمہوریہ کی بنیاد کے بعد (کمال اتاترک، 1923) جس کا ایک مضبوط سیکولر پہلو تھا، مذہبی لوگوں کو طویل عرصے تک اقتدار کے عہدوں سے باہر رکھا گیا۔ اگرچہ قدامت پسند مذہبی سیاسی دھارے بچ گئے، لیکن معاشرے میں غالب نظریہ سیکولر اور شہری تھا اور اس نے ان قوتوں کو خارج کر دیا۔ قصبوں سے باہر دیہی معاشرے میں اور غریب پرتوں میں کہانی الگ ہے۔ یہی وجہ ہے کہ جب بھی انتخابات ہوتے تھے کسانوں اور دیہی علاقوں میں قدامت پسند، مذہبی جماعتوں کی بنیاد ہوتی تھی۔ آپ کے شہروں میں دانشور، محنت کش، شہری پیٹی بورژوا اور بورژوا طبقے تھے۔