مزید پڑھیں...

گلگت بلتستان: کیا انتخابات کچھ دے پائیں گے؟

ماضی میں مسائل کے حل کےلئے بارہا تحریک میں شامل ہونے والے مرد و خواتین محنت کشوں کو اس نظام کے خلاف جدوجہد کا راستہ ہی اختیار کرنا پڑے گا۔ جس جدوجہد کو طبقاتی بنیادوں پر نہ صرف پاکستان کے محکوم و مظلوم عوام کے ساتھ جوڑنا ہو گا بلکہ لداخ، تبت، سنکیانگ و جموں کشمیر کے عوام کے ساتھ طبقاتی بنیادوں پر جوڑتے ہوئے اس نظام کے خلاف فیصلہ کن لڑائی میں پرونا پڑے گا۔ ہمالیہ کے پہاڑوں سے اٹھنے والے بغاوت کے یہ قدم برصغیر جنوب ایشیا کے سوشلسٹ مستقبل کی بنیاد بن سکتے ہیں۔

پاکستان: یہاں سے کہاں؟

ان حالات میں حکمران طبقے کی سیاست دیکھیں تو عوام کے ان انتہائی تکلیف دہ، زندگیوں کو جہنم بنا دینے اور مسلسل بڑھتے جانے والے معاشی مسائل کیساتھ اس کا دور دور تک کوئی تعلق دکھائی نہیں دیتا۔ نام نہاد ’پی ڈی ایم‘ اور حکومت کے درمیان جاری لڑائی میں اگر بیروزگاری، مہنگائی اور غربت جیسے لوگوں کے سلگتے ہوئے مسائل کا ذکر کبھی ہوتا بھی ہے تو وہ بھی انتہائی واجبی اور فروعی انداز میں اور ثانوی مسائل کے طور پر کیا جاتا ہے۔

ٹرمپ کے کلون

ٹرمپ کے کلونوں کی سیاست کے خلاف متحدہ محاذ بنانے کی ضرورت ہے اور مزدوروں اور کسانوں کو متحرک کرنے کی ضرورت ہے کیونکہ صرف مزدوروں اور کسانوں کی تحریک ہی لوگوں کے مخالف ہر قسم کی سازشوں کو ہمیشہ کے لئے ختم کر سکتی ہے۔