حارث قدیر
برصغیر کی سامراجی تقسیم کے نتیجے میں وجود میں آنیوالی دونوں ریاستوں کے کشیدہ تعلقات جہاں بلواسطہ سامراجی تسلط کیلئے ہمیشہ اہمیت کے حامل رہے ہیں وہاں سامراجی ضرورتوں کے پیش نظر ہی نام نہاد امن عمل کا آغاز اور بیک ڈور ڈپلومیسی کا سلسلہ بھی ایک لمبی تاریخ رکھتا ہے۔ سامراجی کاسہ لیسی کی بنیاد پر اقتدار کی ڈورسے بندھے اس خطے کے حکمران طبقات 73 سالہ تاریخ میں کبھی بھی نہ تو پائیدار امن قائم کر سکے ہیں اور نہ ہی کسی بڑی جنگ کے متحمل ہو سکے ہیں۔ ماضی میں 4 چھوٹی، بڑی محدود جنگوں کے تجربات بھی کئے گئے ہیں لیکن جوں جوں بحران گہرا ہوتا گیا ہے اس دشمنی میں واضح جنگ کا امکان بھی محدود سے محدود ہو تاگیا ہے۔
گزشتہ چند سال سے لائن آف کنٹرول پرجاری کشیدہ صورتحال اور حکمران طبقات کی لفظی جنگ کی وجہ سے ایک جنگی ماحول قائم رہا ہے، لیکن گزشتہ ایک ماہ کے دوران یہ جنگی ماحول یک لخت تبدیل ہو کر ایک امن عمل کا آغاز ہوتا ہوا نظر آ رہا ہے۔ یہ امن عمل جتنا اچانک نظر آرہا ہے، اتنا اچانک نہ تو ہوا ہے اور نہ ہی اتنی جلدی برف پگھل سکتی ہے۔ یکدم ٹی وی چینل پر بیٹھے منہ سے جھاگ نکالتے ٹی وی اینکروں اور دفاعی تجزیہ نگارو ں کی زبانیں نرم ہو گئی ہیں۔ حکمرانوں کی طرف سے جذبہ خیرسگالی کے پیغامات کا تبادلہ شروع ہو گیا ہے۔ موجودہ امن عمل کا آغاز گزشتہ ماہ 25 فروری کو میڈیا کیلئے دونوں اطراف سے جاری کئے گئے ایک بیان سے ہوا ہے، جس میں ڈی جی ایم اوز کے مابین ہاٹ لائن رابطے میں لائن آف کنٹرول پر جنگ بندی معاہدے پر سختی سے عملدرآمد کو یقینی بنانے اور ایک دوسرے کے تحفظات اور خدشات کو دور کرنے کے وعدے کئے گئے ہیں۔ سندھ طاس معاہدے کے سلسلہ میں مذاکرات کا آغاز، یوم پاکستان پر بھارتی صدر و وزیراعظم کے تہنیتی پیغامات، کرکٹ ڈپلومیسی، مشترکہ فوجی مشقوں سمیت سیکرٹری خارجہ سطح کی ملاقاتوں اور بھارتی وزیراعظم کے دورہ پاکستان کی راہ ہموار ہوتے ہوئے نظر آ رہی ہے۔ ایسا لگ رہا ہے کہ 1998ء سے 2007ء تک جاری رہنے والے امن عمل، جس میں کنٹرول لائن پر جنگ بندی معاہدہ، آر پار بس و ٹرک سروس سمیت متعدد اقدامات شامل تھے، کا دوبارہ آغاز ہونے جا رہا ہے۔
سندھ طاس معاہدے پر مذاکرات کیلئے پاکستانی وفد اس وقت بھارت میں موجود ہے، بھارتی میڈیا کے مطابق شنگھائی تعاون تنظیم (ایس سی او) کے زیر سایہ پاکستان میں منعقد ہونے والی انسداد دہشت گردی کی مشترکہ مشقوں میں بھارت بھی شرکت کرے گا۔ بھارت کے علاوہ چین، روس اور دیگر شنگھائی تعاون تنظیم کے رکن ممالک کے فوجی دستے بھی ان مشقوں میں شامل ہونگے۔
یہ امن عمل اتنا اچانک ہر گز نہیں ہے، اس پر گزشتہ لمبے عرصہ کی بیک ڈور ڈپلومیسی اور امریکہ سمیت دیگر طاقتور ملکوں کی مداخلت بھی شامل ہے۔ واضح طور پر کہا جاسکتا ہے کہ اس ریجن میں امریکہ، چین اور دیگر سامراجی طاقتوں کے مابین بگڑتے طاقت کے توازن کے پیش نظر یہ سامراجی کھیل از سرنو ماضی سے مختلف شکل میں شروع کیا جا رہا ہے۔ کشمیروالا کی ایک رپورٹ کے مطابق ”پاک فوج نے امریکی خفیہ ادارے سی آئی اے کے توسط سے عسکریت پسندوں کے حملوں سے متعلق انٹیلی جنس ان پٹ بھارت کے ساتھ شیئر کیااور 2019ء کے پلوامہ حملے کے بعد بھارت کے ساتھ بیک چینل مذاکرات کیلئے راستہ ہموار کیا۔“
بھارتی میڈیا پر شائع ہونیوالی ایک رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ”پاک فوج نے سی آئی اے کے ذریعے عسکریت پسندوں کی اطلاعات بھارت کو فراہم کیں اورمتعدد عسکری تنظیموں کی قیادت کے خلاف کارروائی کی۔“
رپورٹ میں دعویٰ کیا گیا کہ ”بھارتی ایجنسی را اور پاکستانی آئی ایس آئی کے مابین خفیہ ملاقاتوں کا پہلا دور 2018ء میں لندن کے ایک ہوٹل میں منعقد ہوا۔ اس طرح کی متعدد دیگر ملاقاتوں کو ’لندن ڈائیلاگ‘ کہا جاتا ہے۔“
اگست 2019ء میں بھارت زیر انتظام جموں کشمیر کو دو حصوں میں تقسیم کر کے مرکز کے زیر انتظام علاقے قرار دینے کے بھارتی فیصلے کے بعد پاک بھارت کشیدگی جہاں عروج پر تھی، وہاں مختلف اقدامات سے یہ بات عیاں ہو رہی تھی کہ دونوں اطراف سے رضامندی کے تحت ہی بھارت نے یہ اقدام اٹھایا ہے۔ 5 اگست 2019ء کے بعد جہاں کنٹرول لائن پر کشیدگی کے 7 ہزار سے زائد واقعات پیش آئے وہاں پاکستان میں موجود بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر سے عسکری تربیت کیلئے آنیوالے افراد پر مشتمل حریت تنظیموں کو کسی بھی مسلح سرگرمی کی حمایت نہ ملنے کا واضح پیغام بھی دیا گیا۔ بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں مختلف فوجی کارروائیوں کے دوران مارے جانے والے عسکریت پسندوں کا ڈیٹا عام نہیں کیا گیا، متعدد مبینہ عسکریت پسندوں کو ہلاک کرنے کے بعد خفیہ ٹھکانوں پر انکی تدفین کی اطلاعات بھی موصول ہوتی رہیں۔ بھارتی ریاست اور فوج کی بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر میں ننگی جارحیت کے خلاف انتہائی نرم سفارتی رویہ پہلے سے ہی اندر ہی اندر کچھ نیا سودا پکنے کی طرف اشارے کر رہا تھا۔
پاکستانی ریاست کے سب سے وفادار سپاہی سید علی گیلانی کو شٹ اپ کال دینے، گیلانی کے نمائندہ کو حریت کانفرنس کی سربراہی سے علیحدہ کرنے، متحدہ جہاد کونسل کے سربراہ سید صلاح الدین کو کسی بھی طرح کی عسکری مدد فراہم نہ کرنے کے پیغام اور 1989ء میں بھارتی زیر انتظام جموں کشمیر سے عسکری تربیت کیلئے ہجرت کر کے پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر داخل ہونیوالے نوجوانوں کو صوبہ سندھ کے ضلع سجاول میں مستقل آباد کرنے جیسے اقدامات بھی بہت کچھ عیاں کر رہے تھے۔ مغربی میڈیا کے مطابق اس تمام تر نئی ڈویلپمنٹ میں امریکہ کے علاوہ سعودی عرب اور متحدہ عرب امارات کا بھی کلیدی کردار شامل رہا ہے۔
فوری طور پر دیرینہ دشمنی کو دوستی میں تبدیل کرنے کیلئے اتنی تیزی سے اقدامات کے پیچھے مقاصد کیا ہیں اور یہ دوستی کس حد تک استوار ہو سکتی ہے اور کب تک قائم رہ سکتی ہے؟ ان سوالات کے جواب تلاش کرنے کیلئے دونوں ممالک کی بنیادوں، موجودہ عالمی اور ریجنل حالات کا تجزیہ کرنا ضروری ہے۔ برصغیر کی سامراجی بنیادوں پر تقسیم کے ذریعے وجود پانے والے یہ دونوں ملک کسی قومی جمہوری انقلاب کے ذریعے آزاد نہیں ہوئے تھے بلکہ سامراجی معاہدے کے تحت یہ لولی لنگڑی آزادی فراہم کی گئی تھی جو دراصل سامراج کی بالواسطہ غلامی کی ہی ایک شکل تھی۔ یہی وجہ ہے کہ صحت مند سرمایہ داری پروان چڑھانے میں اس خطے کا حکمران طبقہ تاریخی طور پر نااہل ثابت ہوا ہے۔ قومی جمہوری انقلاب کا کوئی ایک بھی فریضہ سرانجام نہیں دیا جا سکا۔ یہی وجہ ہے کہ دنیا کی 20 فیصد آبادی پر مشتمل اس خطے میں دنیا کی 40 فیصد غربت پلتی ہے۔ دونوں ملکوں کے مابین مسئلہ کشمیر کو ایک ایسے رستے زخم کی طرح سامراج نے باقی چھوڑا تھا کہ جس زخم کو بوقت ضرورت کریدنے اور مرہم لگانے کا عمل جاری رکھا جا سکے۔
موجودہ وقت امریکہ اور چین کے درمیان بڑھتے تضادات کی وجہ سے امریکہ کا بھارت پر انحصار بڑھتا جارہا ہے، پاکستان پہلے دن سے امریکی آشیرباد کا محتاج رہا ہے۔ گہرے ہوتے ہوئے معاشی، سماجی اور سیاسی خلفشار کی وجہ سے جہاں یہ تمام ممالک ایک دوسرے کے بغیر قائم نہیں رہ سکتے وہاں ایک دوسرے کے ساتھ مکمل امن کے ساتھ بھی گزارہ ممکن نہیں ہے۔ باہم مشترک اور متضادات مفادات، تجارتی جنگ اور چپقلش میں ایک دوسرے پر انحصار بھی بڑھتا جا رہا ہے۔ امریکہ، چین اور روس کے حکمران شدید تضادات کے باوجود افغان امن عمل اورماحولیات سمیت دیگر مسائل پر ایک دوسرے کے ساتھ چلنے پر مجبور ہیں، بھارت اور چین کی جہاں دشمنی ہے وہاں تجارتی تعلقات، علاقائی تعاون تنظیموں اور اتحادوں میں مشترکہ شرکت بھی موجود ہے۔ امریکہ، بھارت، آسٹریلیا اور جاپان ایک نئی تذویراتی اتحاد کو بھی مضبوط کرتے جا رہے ہیں جو صرف چین کے خلاف استعمال کرنے کا ارادہ ظاہر کیا جا رہا ہے۔ اسی طرح پاکستان کا جہاں امریکی آشیرباد کے بغیر گزارہ ممکن نہیں، وہیں چین کے ساتھ وابستگی بھی ناگزیر ہے۔ سنجیدہ سفارتکاروں کا کہنا ہے کہ چین پر انحصار جتنا بھی بڑھ جائے پاکستانی حکمران طبقات کی پہلی چوائس ہمیشہ امریکہ رہا ہے اور آئندہ بھی ایسا ہی رہے گا۔
سامراجی کھلواڑ میں اس خطے کے محنت کشوں کے مقدر بدلنے کی بجائے حکمرانوں کی لوٹ مار، سستی محنت، مختصر تجارتی راستوں سمیت دیگر تذویراتی اور مالیاتی مفادات کا حصول ممکن ہے۔ اس کیفیت میں مستقل امن کا قیام صرف ایک سراب ہی معلوم ہوتا ہے۔ سرمایہ دارانہ نظام کی لوٹ مار کے موجود رہتے نہ تو پائیدار امن کا قیام ممکن ہے اور نہ ہی حکمران طبقات کسی بڑی جنگ کے متحمل ہو سکتے ہیں۔ دوستی اور دشمنی کا یہ ناٹک اس وقت تک چلتا رہے گا جب تک یہ نظام موجود ہے، سرمائے کی حاکمیت اور لوٹ مار موجود ہے۔ اس نظام کے اندر رہتے ہوئے مسئلہ کشمیر سمیت کسی بھی مظلوم قومیت کی آزادی بھی محض ایک خواب ہی رہے گی۔ سامراجی ممالک اور سامراجی ادارے حکمران طبقات کی دولت اور لوٹ مار کے تحفظ کیلئے قائم کئے جاتے ہیں۔ سامراجی غلبے اور سرمائے کے تسلط کے خاتمے کے علاوہ پائیدار امن اور مظلوم و محکوم قومیتوں کی آزادی سمیت اس خطے کے محنت کشوں کے مسائل کے حل کا کوئی اور راستہ ممکن نہیں ہے۔ اس خطے کا محنت کش طبقہ ہی اس نظام کو اکھاڑتے ہوئے ایک سوشلسٹ فیڈریشن کے قیام کے ذریعے حقیقی اور پائیدار امن عمل کا آغاز کرے گا۔