دنیا

’افغان لڑکیوں کے سکول جلانے والے طالبان اپنی بیٹیوں کو بیرون ملک پڑھا رہے ہیں‘

یاسمین افغان

15 اگست 2021ء کو طالبان کی اقتدار میں دوبارہ واپسی کے بعد 7 ویں جماعت اور اس سے بڑی کلاس کی لڑکیوں پر تقریباً پورے افغانستان میں سکول جانے پر پابندی عائد کر دی گئی۔ اگرچہ کچھ اطلاعات تھیں کہ کچھ علاقوں میں کچھ سکول دوبارہ کھول دیئے گئے ہیں، لیکن حقیقت کا علم نہیں ہے۔ خاص طور پر سخت سنسرشپ کے اوقات میں طالبان نے بھی بارہا کہا ہے کہ سکیورٹی سے نمٹنے کے بعد وہ سکولوں کو دوبارہ کھول دینگے۔ وہ اسکولوں کے لئے ایک نئے نصاب پر کام کر رہے ہیں اور اطلاعات ہیں کہ نئے نصاب میں زیادہ تر اسلامی علوم پر توجہ دی جائیگی۔ ایک حالیہ میڈیا رپورٹ میں بتایا گیا ہے کہ طالبان قطر اور پاکستان میں مقیم اپنی بیٹیوں کو اسکول بھیج رہے ہیں، جبکہ افغان لڑکیاں گزشتہ تقریباً 6 ماہ سے سکول نہیں جا پا رہی ہیں۔

کابل کی رہائشی وحیدہ (فرضی نام) کہتی ہیں کہ ”میری 8 ویں جماعت کی بیٹی سکول نہیں جا سکی، لیکن انہیں (طالبان کو) دیکھو اپنے بچوں کو بہترین سکولوں میں بھیج رہے ہیں۔“

کابل کے مکروریان علاقے کی رہائشی فہیمہ (فرضی نام) کا کہنا ہے کہ ”مجھے بہت غصہ ہے۔ یہ اسکول میں میرا آخری سال تھا۔ میں اب تک ہائی سکول سے فارغ التحصیل ہو چکی ہوتی۔ میرے تمام خواب طالبان نے چکنا چور کر یئے اور دیکھیں وہ خود اتنے لمبے عرصے سے کیا کر رہے ہیں اور اپنی بیٹیوں کو تعلیم حاصل کرنے کیلئے بھی بھیج رہے ہیں۔“

جلال آباد کی ایک رہائشی نسرین (فرضی نام) نے مجھے بتایا کہ ”کئی سالوں سے طالبان نے ہمارے سکولوں کو جلایا، اسکولوں پر حملے کئے کہ یہ اسلامی نہیں ہیں۔ حال ہی میں مختلف بہانے اور وعدے کر کے ہمارے سکول جانے پر پابندی لگا دی گئی ہے۔ ہم نے ان سے کبھی کسی چیز کی توقع نہیں رکھی، لیکن ان سے صرف ایک سوال ہے کہ اپنی بیٹیوں کو سکول جانے دے رہے ہیں تو ہمارے سکول جانے پر پابندی کیوں لگائی گئی ہے۔ آپ نے ہمارے سکول کیوں جلائے اور اب اپنی بیٹیوں کو بہتریین تعلیم دے رہے ہیں۔“

افغانستان سے باہر میڈیا کے کچھ حصے اس کہانی کے ذریعے یہ دکھانے کی کوشش کر رہے ہیں کہ طالبان بدل چکے ہیں، کیونکہ وہ اپنی بیٹیوں کوسکول بھیج رہے ہیں۔ مجاہدین نے بھی خواتین کیلئے سخت قوانین متعارف کروائے تھے لیکن میڈیا کوریج کی ترقی سے یہ بات واضح ہو گئی کہ جب وہ کابل اور دیگر جگہوں پر سکولوں پر گولہ باری کر رہے تھے تو ان کی بیٹیاں اور بیٹے بہترین سکولوں اور یونیورسٹیوں میں جا رہے تھے۔

صوبہ فراہ سے تعلق رکھنے والی ہادیہ (فرضی نام) نے بتایا کہ ”افغان لڑکیوں کو یرغمال بنا کر رکھا جاتا ہے۔ ہو سکتا ہے کہ مغرب کی طرف سے ان کے مطالبات مانے جانے کے بعد طالبان سکولوں کو دوبارہ کھول دیں لیکن بدلے ہوئے نصاب کیساتھ جو جدید دنیا میں کسی کام کا نہیں ہو گا۔“

انکی بہن نے اپنا نام ظاہر نہ کرنے کی شرط پر بتایا کہ ”وہ (طالبان) افغان خواتین پر سودے بازی کر رہے ہیں لیکن وہ افغان لڑکیوں کو جدید تعلیم حاصل کرنے سے کبھی نہیں روک سکیں گے۔ ہم ان سے لڑیں گے۔“

صوبہ ہرات سے تعلق رکھنے والی وزمہ (فرضی نام) نے بتایا کہ ”طالبان کی اپنے جہادی پیشروؤں کی طرح افغانوں کیلئے دو مختلف حکمت عملیاں ہیں۔ ایک حکمت عملی جس سے وہ اپنے بچوں کو بہترین سکول میں بھیجیں اور ایک افغانوں کیلئے ہے، جہاں ہمیں ہر گزرتے دن کے ساتھ اندھیروں کی طرف دھکیل دیا جاتا ہے۔ وہ درحقیقت اس نسل اور آنے والی نسلوں سے سخت گیر افراد پیدا کرنے کی کوشش کرتے ہوئے مستقبل کیلئے اپنے وارثوں کو تعلیم دینا چاہتے ہیں۔“

مزار شہر سے تعلق رکھنے والی فاطمہ نے مجھے بتایا کہ ”میں اب تک اپنا ہائی سکول مکمل کر چکی ہوتی۔ طالبان نے ہمیں سکول جانے سے روک کر ہمیں توڑنا چاہتے ہیں، لیکن ہم مزاحمت کریں گے۔ وہ چاہتے ہیں کہ ہم امید کھو دیں، لیکن ہم امید نہیں ہاریں گے اور زیادہ محنت سے لڑیں گے۔“

طالبان کے قبضے کے بعد بہت سے زیر زمین سکولوں نے کام کرنا شروع کر دیا ہے اور اسی طرح مفت رضاکارانہ آن لائن کلاسوں کا سلسلہ بھی شروع ہے۔ ان زیر زمین اور ورچوئل کلاسوں میں داخلہ بہت زیادہ ہے اور ان لڑکیوں کو جدید تعلیم اور معلومات فراہم کی جا رہی ہے۔

Yasmeen Afghan
+ posts

’یاسمین افغان‘ صحافی ہیں۔ وہ ماضی میں مختلف افغان نیوز چینلوں کے علاوہ بی بی سی کے لئے بھی کام کر چکی ہیں۔ سکیورٹی صورتحال کی وجہ سے ان کا قلمی نام استعمال کیا جا رہا ہے۔