سیف الرحمان رانا
17 جنوری 2022ء کو صوبہ پنجاب میں ہونے والے ضمنی انتخابات کے نتائج نے ملک میں گذشتہ چند سالوں میں جنم لینے والے نئے سیاسی رجحانات اور فکر انگیز رویوں کی نہ صرف توثیق و تصدیق کی بلکہ یہ بھی ثابت کر دیا کہ دور حاضر میں سب سے زیادہ موثر ذریعہ برائے پراپیگنڈ ا غالباً سوشل میڈیا ہی ہے۔
2018ء کے عام انتخابات کے دوران پاکستان تحریک انصاف عمران خان کی سربراہی میں سوشل میڈیا اور اسٹیبلشمنٹ کی مدد سے سب بڑی پارٹی ابھر کر سامنے آئی۔ اس وقت شاید لوگوں کو اندازہ نہیں تھا کہ پاکستان تحریک انصاف سوشل میڈیا کو پراپیگنڈہ اور سیاسی حمایت حاصل کرنے کا سب سے موثر اور طاقتور ذریعہ بنا لے گی۔ ان انتخابات کے دوران سوشل میڈیا نے جس انداز میں اپنا کردار ادا کیا اس کے سامنے الیکٹرانک و پرنٹ میڈیا کی اہمیت کم ہو کر رہ گئی۔ سوشل میڈیا نے بہت کم وقت میں جن نئے سیاسی رجحانات کو فروغ دیا ان میں سے سب سے اہم فوری عوامی ردعمل کا حصول ہے۔ ادھر آپ نے صحیح یا غلط جو بھی کہا اس پر عام سوشل میڈیا صارف کی طرف سے فوری مثبت یا منفی عوامی رائے سامنے آنے کے علاوہ یہ بھی پتہ چل جاتا ہے کہ آپ کی بات کتنے لوگوں تک رسائی حاصل کرنے میں کامیاب ہوئی۔
دوسرا سب سے اہم رجحان یہ پیدا ہوا کہ زبان کے قواعد و ضوابط کی پابندیوں اور ذخیرہ الفاظ کی ضرورت سے آزادی نصیب ہوئی اور آپ جو کہنا چاہتے ہیں کھل کر بیان کریں۔ سیاسی رائے عامہ کو ہموار کرنے کے لئے یہ سب سے اہم پہلو ہے۔
اخبار نویسی کے رجحان میں کمی بھی اسی وجہ سے پیدا ہوئی کہ اب عام آدمی نہ صرف خود لکھ سکتا ہے بلکہ اسے ملنے والا فوری ردعمل بھی اس کی ذہنی تسکین کا باعث بنتا ہے۔ سوشل میڈیا پر کسی بھی موضوع پر رائے عامہ کو اپنے حق یا کسی کے خلاف ہموار کرنے کے لئے منظم مہم چلانے کے رجحان نے بہت تیزی سے فروع پایا۔ سیاسی جماعتوں نے اجتماعی طور پر اس رجحان سے فائدہ اٹھایا۔ ہر بڑی جماعت نے باقاعدہ پیشہ وارانہ مہارت کے حامل افراد کی خدمات حاصل کیں اور دن رات اپنے پروگرام اور منشور کو عوام تک پہنچانے کے ساتھ ساتھ سچا اور جھوٹا پراپیگنڈہ کرنے لگیں۔
وقت کے ساتھ ساتھ سیاسی جماعتوں کے ہمدردان اور کارکنان نے بھی اپنی پارٹی کے پروگرام اور پراپیگنڈہ کو عام کرنے کے لئے اپنا اپنا حصہ ڈالنا شروع کر دیا۔ یوں بظاہراب چند لمحات ہی میں سیاسی رائے عامہ ہموار کر لی جاتی ہے۔
سوشل میڈیا کا ایک منفی پہلو بھی ہے۔
زبان و قید، ادب و آداب کی پابندی چھوٹے بڑے کے لحاظ سے ماورا سوشل میڈیا نے سیاسی کارکنوں سے اختلاف رائے برداشت کرنے کی صلاحیت چھین لی ہے۔ اگر آپ بغور سیاسی قیادتوں اور کارکنان کی گفتگو اور بول چال پر غور کریں تو بدتمیزانہ رویہ اور گھٹیا قسم کے الفاظ ان کی شخصیت کا خاصہ بن چکے ہیں۔ حالیہ ضمنی انتخابات کے دوران، دونوں بڑی سیاسی جماعتوں کی جانب سے چلائی گئی مہم کے دوران کی جانیوالی تقاریر اس کا منہ بولتا ثبوت ہیں۔ بالخصوص عمران خان اور مریم نواز نے اپنے اپنے کارکنان کے جذبات کو مدنظر رکھتے ہوئے انتخابی مہم کے دوران چور اور ڈاکو جیسے فضول الفاظ کو موضوع سخن بنائے رکھا۔ کاش یہ دونوں اپنے اپنے ادوار میں رونما ہونے والے کسی علمی سائنسی و ٹیکنالوجی و معاشی میدان میں حاصل کردہ کامیابی کا ذکر کرتے۔
دونوں نے بدتمیزی کی، جھوٹ بولا اور ڈھٹائی سے بولا۔ بعد ازاں سوشل میڈیا پر دونوں جماعتوں کے کارکنان بھی اسی رو میں بہتے چلے گئے اور ایسا محسوس ہونے لگا کہ شاید ہماری سیاسی اقدار اخلاقیات سے محروم ہو چکی ہیں۔ سوشل میڈیا کے صارفین کی اکثریت ایک دوسرے کو ذاتی طور پر جانے بغیر باہمی روابط قائم کر رہی ہے۔ ایک دوسرے کو قریب سے نہ جاننے کے باعث وہ سوشل میڈیا پر ہونے والی فقرے بازی یا ویڈیو ز کی مدد سے دوسرے شخص کے متعلق رائے قائم کرتے ہیں۔ اس رجحان کی وجہ سیاسی ماحول بہت زیادہ منفی صورتحال کا سامنا کر رہا ہے۔
ایک فرد ایک ووٹ کے تصور کے تحت ہر شخص سیاسی قیادت کا چناو کا مکمل حق رکھتا ہے۔ یہ جمہوریت کا حسن بھی ہے اور ایک طرح سے ایک مسئلہ بھی، بالخصوص جب سیاسی تربیت اور معلومات جمہوری بنیادوں پر منظم نہ ہوں۔ اس لئے یہ ممکن نہیں کہ یر شخص کی رائے برابر اہمیت کی حامل ہو۔ ہمارے ہاں تعلیم کی شرح بہت کم ہے۔ ویسے بھی جن کو ہم پڑھا لکھا سمجھتے ہیں وہ بھی غیر معیاری تعلیم کی وجہ سے عملی طور پر ذہنی پسماندگی کا شکار ہو کر احساس برتری یا کمتری میں مبتلا ہیں۔ اب یہ لوگ سوشل میڈیا پر جو اودھم مچا رہے ہیں اس نے اچھے برے کی تمیز بھی چھین لی ہے۔ اوپر سے ظلم یہ کہ سوشل میڈیا کا استعمال اس قدر بڑھ گیا ہے کہ یہ ایک باقاعدہ فوبیا بن چکا ہے۔
اس نفسیاتی بیماری میں مبتلا لوگ جو کچھ کر رہے ہیں وہ سب کے سامنے ہے۔
دوسری جانب سوشل میڈیا کی وسعت اور اثر پذیری کی وجہ سے ہر فرد اپنے شہری اور سماجی رتبہ و مقام سے بخوبی آگاہ ہو چکا ہے۔ ان پڑھ ہو یا پڑھ لکھا اب ہر شہری سوشل میڈیا کے ذریعہ مختلف شعبہ ہائے زندگی سے تعلق رکھنے والوں کے ساتھ روابط قائم کر رہا ہے۔ ان روابط کے نتیجہ میں وہ شعور و آگاہی کی نئی منازل سے روشناس ہو رہا ہے۔ شعور و آگاہی کے اس سفر میں ہمارا عام شہری بہت دلچسپ سیاسی تبدیلیوں کا سبب بن رہا ہے۔
ماضی قریب میں یہ روایت عام تھی کہ حکمران جماعت کسی بھی ضمنی انتخاب میں باآسانی کامیابی حاصل کرلیتی تھی۔ لیکن 2018ء کے انتخاب کے بعد ضمنی انتخاب کے حوالے سے پائی جانیوالی یہ عمومی سوچ یکسر الٹ ہو کرہ رہ گئی ہے۔ اب مہنگائی، بدعنوانی، بدانتظامی اور علاقائیت، لسانیت، بین الاقوامی امور، معاشی اونچ نیچ جیسے عوامل روزانہ کی بنیاد پر حکومت وقت کی کارکردگی کو ناپنے کا پیمانہ بن چکے ہیں۔ ہمارے ہاں 2018ء کے بعد سے لے کر اب تک دو حکومتیں عمران خان اور شہباز شریف کی قیادت میں قائم ہوئیں۔ عمران خان کے دور حکومت کے دوراں جتنی بھی نشستوں پر ضمنی انتخابات ہوئے ان میں سے 16 پر پاکستان تحریک انصاف صوبہ اور مرکز میں حکومت ہونے کے باوجود بری طرح ہاری۔ یعنی لوگ حکومت کی اچھی یا بری کارکردگی یا اس کی جانب سے عوامی امنگوں پر پورا نہ اترنے کے باعث فوری فیصلہ کرتے ہیں۔
جب اپریل میں شہباز شریف حکومت قائم ہوئی تو عام لوگوں کی ان سے یہ توقع وابستہ تھی کہ وہ مہنگائی پر قابو پائیں گے لیکن عملی طور پر اس کے برعکس ہوا تو اس حکومت کو 17 جولائی کو ضمنی انتخاب کے دوران بری طرح ہار کا سامنا کرنا پڑا۔ اوپر مذکور رجحانات و روئیے سیاسی جماعتوں اور سنجیدہ کارکنوں کے لئے واقعی آزمائش بن چکے ہیں۔ سوشل میڈیا کے ذریعہ پیدا شدہ سماجی و معاشرتی اثرات سے نمٹنے کے لئے سیاسی قائدین کو باقاعدہ لائحہ عمل تشکیل دینے کی ضرورت ہے۔ اگر سوشل میڈیا کو بہتر انداز میں استعمال کرنے کے لئے منصوبہ بندی نہ کی گئی تو آنے والے دنوں میں کسی کی بھی عزت محفوظ نہ ہو گی اس پر مزید ظلم یہ کہ ہماری نوجوان نسل اختلاف رائے برداشت کے تصور سے بھی آگاہ نہیں ہو پائے گی۔