ربیعہ باجوہ
کامریڈ لال خان دنیا بھر کے بائیں بازو سے تعلق رکھنے والے سیاسی کارکنوں کو اداس کر کے اس دنیا سے رخصت ہو گئے۔ ان کی وفات پر ہر انسان دوست شخص صدمے کی کیفیت میں ہے۔ ڈا کٹر لال خان نے اپنی تمام زندگی مارکسی نظریات کے لیے وقف کئے رکھی اور اپنی انقلابی جدوجہد کے دوران جرات سے ہر وہ سچ عوام کے سامنے رکھتے رہے جسے چھپانے کے لیے سامراج ہر طرح کی طاقت کااستعمال کرتا ہے۔
ڈاکٹر لال خان نے نہ صرف سامراجی نظام کے تضادات اور بدصورتی کو بے نقاب کیا بلکہ لوٹ کھسوٹ کے استحصالی نظام کو مارکسی اصولوں کے تحت چیلنج کرتے رہے اور اس کٹھن ترین جدوجہد کو اپنے جیون کا اوڑھنا بچھونا بنا لیا جس کے لیے انتھک محنت اور بے پناہ جرات کی ضرورت ہوتی ہے۔
کامریڈ لال خان کہتے تھے ”لڑیں گے، خون کے آخری قطرے، آخری سانس تک انقلاب کو دینے کو فخر سمجھتے ہیں۔ سب سے بڑی جدوجہد زندگی سے بڑے مقصد کے لئے جینا اور مرنا ہے۔ نسل انسان کے ارتقا کا بنیادی فریضہ تسخیر قدرت ہے جسے ہم تسخیر کائنات کے عمل میں بدل ڈالیں گے“۔
عصرحاضر کی تاریخ گواہ ہے کہ ڈاکٹر لال خان جبر و استحصال کے فرسودہ نظام کے خلاف ڈٹے رہے۔ انھوں نے مارکسی نظریات کے خلاف ہر پروپیگنڈے کا سائنسی بنیادوں پر جواب دیا۔ انقلاب روس اور ردِ انقلاب کا جس علمی اور فکری انداز سے تجزیہ کیا وہ عالمی سامراج کی طرف سے کئے جانے والے مارکسی اور سوشلسٹ نظام کے خلاف مہم جوئی کا بھر پور جواب ہے۔
گزشتہ ہفتے میں ان کی عیادت کیلئے ہسپتال گئی وہ بڑی جرات مندی سے کینسر کا مقابلہ کر رہے تھے۔ ایک عظیم انقلابی کی طرح جو کبھی زندگی کے کسی محاذپر شکست نہیں مانتا۔ ان کی اہلیہ نے بتایا کہ وہ انتہائی علیل ہونے کے باوجود کسی کو تکلیف نہیں دیتے اور اپنے آپ کو سنبھالنے کی پوری کوشش کرتے ہیں۔ میرے نزدیک انقلابی ایسا ہی ہوتا ہے۔ اسی دوران کامریڈ نیند سے جاگے جب مجھے دیکھا تو ہاتھ ہلا کرسرخ سلام کرنیکی کوشش کی۔ میں ان کے چہرے کے اطمینان کو دیکھ کر فخر محسوس کر رہی تھی کہ یہ اطمینان صرف ایسے بڑے انسان کے چہرے پر ہی ہو سکتا ہے جس نے زندگی اپنے آدرشوں کے ساتھ محبت کرتے گزاری ہو اور نظریہ انسانی ہی اس کی جدوجہد کا مرکز ہو۔
کامریڈ لال خان رہتی دنیا تک مارکسزم کا فخر رہیں گے۔ ہمیں یقین ہے کہ ان کی علمی اور عملی جدوجہد سے انقلاب برپا ہو گا اور اس دنیا سے بقول فیض:
ظلم و ستم کے کوہِ گراں روئی کی طرح اُڑ جائیں گے
ہم محکوموں کے پاؤں تلے، یہ دھرتی دھڑ دھڑ دھڑکے گی
ہم دیکھیں گے!
کامریڈ لال خان اپنی سوچ، سیاسی فکر اور مارکسی نظریات کے ساتھ ہمیشہ ہمارے ساتھ رہیں گے۔ ہم کسی قیمت پر ان کے متعین کئے ہوئے راستے سے نہیں ہٹیں گے اور جس سرخ پرچم کو سینے پر سجا کر وہ وداع ہوئے اسی لال پرچم کو بلند کئے ہم جئیں گے اور اسی کے ساتھ مریں گے۔
ان کے آخری سفر اور تدفین کے موقع پر جو انقلابی نعرے لگائے گئے وہ ان کی جدوجہد کے تسلسل کا دو ٹوک اعلان ہیں:
مارکسی نظریات سے، لینن کے افکار سے
سر خ ہو گا! سرخ ہو گا! ایشیا سرخ ہو گا
کامریڈ لال خان کو سرخ سلام