پاکستان


سکولوں کے دورے امیج بلڈنگ کی افسوسناک کوشش ہیں

پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنتے ہی مریم نواز شریف نے اپنی امیج بلڈنگ کے لئے وہی گھسے پٹے طریقے آزمانے شروع کئے ہیں جو اکثر حکمران،بالخصوص شریف فیملی والے، اقتدار سنبھالتے ہی کچھ دن آزماتے ہیں۔ ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مریم نواز کچھ سکولوں کے دورے کرتی ہیں اور بچوں سے کچھ سوال جواب کرتی ہیں۔

شہباز حکومت آخری سانس لیتی ہوئی جمہوریت کا ماتم ہے

اسی سوچ کے تحت شہباز شریف نے اپنا پہلا دور وزارت گزارا۔ اس کا صلہ انہیں دوسری باری کی صورت میں ملا۔ شریف خاندان نے ممکن ہے گذشتہ دو سالوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے کاروباری معاملات بھی درست کر لئے ہوں مگر یہ طے ہے کہ پنجاب کا تخت بھی ایک مرتبہ پھر ان کے زیر پایہ ہے۔ خاندان بھر کے افراد جن مقدمات کا سامنا کر رہے تھے، وہ بھی ختم ہو گئے۔ پیپلز پارٹی بھی ایک عرصے سے سندھ میں اپنی حکومت بچانے کے لئے فوج کی ہر بات پر لبیک بولتی ہے۔

اچھرہ، الیکشن اور عظیم تجزیہ نگار

ووٹ مولوی کی مقبولیت کا بھی پیمانہ نہیں۔ ووٹ پی ٹی آئی کو ملے یا مسلم لیگ کو، یہ ملتا بہرحال مولوی اور فوجی کو ہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کا معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے۔ دونوں کا ریکارڈ یہ ہے کہ مولوی کے پاؤں پڑے رہتے ہیں، اس کی ہر بات مانتے ہیں مگر مولوی ان دونوں کو دائرہ اسلام سے خارج ہی سمجھتا ہے۔ قصہ مختصر، مولوی فوجی کی طرح سب سے طاقتور سیاسی جماعت بھی ہے اور سب سے مقبول بھی۔

’ہم جہالت ختم نہیں کر سکتے، بہتر ہے آپ اس لاعلمی پر معافی مانگ لیں‘

اس ریاست نے ایک بار پھر یہ واضح کیا ہے کہ لوگوں کے جان، مال اور عزت کے تحفظ کی ذمہ داری کا بوجھ اٹھانے کا حوصلہ اس ریاست کے ناتواں کندھوں میں نہیں ہے۔ لہٰذا جہاں لوگ کچھ بھی لکھنے اور بولنے سے قبل یہ سوچنے پر مجبور ہوتے ہیں کہ کہیں ان کی بات ریاست کے مقدس اداروں کی طبیعت پر گراں نہ گزر جائے، وہیں انہیں یہ بھی خود ہی سوچنا ہوگا کہ ان کی کہی یا لکھی گئی بات کسی ہجوم کی طبیعت پر بھی گراں نہ گزر جائے۔

ملک ریاض بطور چاہت فتح علی خان

اس اشرافیہ کی خوش قسمتی یہ ہے کہ اس کے پاس خود سے بھی زیادہ رجعتی،جعلی،سوچ دشمن درمیانہ طبقہ موجود ہے جو بڑے فخر سے بحریہ میں رہتا ہے اور ہاوس وارمنگ کے موقع پر دوستوں رشتے داروں کو دعوت پر بلائے تو پڑوس والے بلاک کی سیر بھی کراتا ہے جہاں ملک ریاض نے ایفل ٹاور بنا رکھا ہے۔

الیکشن 2024ء: بغاوت لیکن کس کے خلاف؟

پاکستان کے معاشی مسائل کو اگر دو لفظوں میں سمویا جائے تو وہ ہیں: داخلی و خارجی قرضوں کی دلدل اور ملکی وسائل پر حکمران اشرافیہ کا مکمل کنٹرول۔ جس ملک میں قرضوں کا سود ادا کرنے کیلئے مزید قرضے لینا پڑیں اور اصل قرضوں کے حجم میں مسلسل اضافہ ہو رہا ہوں، وہاں اسی نظام کے اندر رہتے ہوئے اسی طریقہ کار کے تحت اصلاح احوال کی کوئی بھی کوشش کیونکر کامیاب ہو سکتی ہے؟

سوشلسٹ نظریات کا دفاع اور موقع پرستوں کی تنقید

پاکستانی زیر انتظام جموں کشمیر میں بجلی کی پیداواری قیمت پر فراہمی، آٹے پر سبسڈی فراہم کر کے قیمت گلگت بلتستان کے برابر مقرر کرنے اور حکمران اشرافیہ کی مراعات کے خاتمے کے لیے گزشتہ 9 ماہ سے جاری تحریک مختلف مراحل سے گزرتے ہوئے پانچ فروری کے بعد ایک نئے مرحلے میں داخل ہو چکی ہے۔ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت نے 4 فروری کو رات گئے مذاکرات کرتے ہوئے عوامی مطالبات میں ردوبدل اور حکمران اشرافیہ سے سمجھوتا کیا تو 5 فروری کو محنت کش عوام نے ہزاروں کی تعداد میں سڑکوں پر آ کر نہ صرف حکمرانوں کو پیغام دیا بلکہ جوائنٹ عوامی ایکشن کمیٹی کی قیادت کو بھی ٹارگٹڈ سبسڈی نامنطور کے نعروں کے ذریعے یہ باور کروایا کہ عوامی مطالبات پر کسی قسم کا سمجھوتا قبول نہیں کیا جائے گا۔

الیکشن کمپئین، نتائج اور آگے کا لائحہ عمل

پی پی 160 میں حقوق خلق پارٹی نے ایک شاندار انتخابی مہم چلائی جس کو علاقے اور قومی میڈیا پر سراہا گیا۔ لیکن اس بھرپور کیمپین کے نتیجے میں ہمیں صرف 1573 ووٹ ملے جو ہماری محنت کی عکاسی نہیں کرتی۔ آخری دنوں میں ووٹوں کی خرید و فروخت، انتظامیہ کی طرف سے پولنگ ڈے پر دھاندلی، انٹرنیٹ کی بندش اور ہماری الیکشن ڈے کی کمزوری کی وجہ سے بھی ہمارا ووٹ ضائع ہوا۔ لیکن پھر بھی کیمپین کی توانائی اور ووٹوں میں فرق کا حقیقت پر مبنی گہرا سیاسی اور نظریاتی جائزہ لینے کی ضرورت ہے تاکہ اس کے پیش نظر ہم باائیں بازو کو آگے بڑھا سکیں۔

بایاں بازو اور الیکشن: انتخابی ناکامی سے بڑی شکست حکمت عملی کا فقدان ہے

پہلی بات: جب تک بایاں بازو ملک بھر میں امیدوار کھڑے نہیں کرے گا،تب تک وہ کوئی ایک حلقہ بھی نہیں جیت سکے گا۔یہ حکمت عملی کہ ہم ایک حلقہ میں چند سماجی کام کر کے الیکشن جیت جائیں گے، احمقانہ حد تک غلط حکمت عملی ہے۔ اس کا ایک نتیجہ تو یہ نکلتا ہے کہ ساری جدوجہد ایک شخص کے گرد گھومنے لگتی ہے۔یوں ایک حد تک بورژوا جماعت اور سوشلسٹ جماعت کا فرق ہی ختم ہو جاتا ہے۔نظریات پیچھے چلے جاتے ہیں۔
بایاں بازو اس وقت تک ابتدائی انتخابی کامیابیاں حاصل نہیں کر سکے گا جب تک وہ ملک بھر میں،ہر حلقے سے امیدوار کھڑے نہیں کرے گا۔ اس صورت میں کہ جب بائیں بازو کو ملک گیر سطح پر چار پانچ فیصد ووٹ پڑے گا، تب ہی دو چارحلقوں سے کامیابی ملے گی۔
اپنی موجودہ تنظیمی شکل میں اس کے اندر یہ سکت نہیں کہ وہ ہر حلقے سے امیدوار بھی کھڑے کر سکے اس لئے ضروری ہے کہ ترقی پسند،سیکولر قوم پرست جماعتوں سے انتخابی اتحاد (جس کی کئی شکلیں ہو سکتی ہیں،مثلا سیٹ ایڈجسٹ منٹ وغیرہ) بنایا جائے۔ قوم پرست پہلے سے اس حیثیت میں ہیں کہ چند نشستیں جیت سکتے ہیں۔ یہ صورت حال قوم پرستوں کے بھی مفاد میں ہے اور بائیں بازو کے لئے بھی سود مند۔ زیادہ تفصیلات میں جانے کی ضرورت نہیں کہ اس پت کئی بار بات ہو چکی ہے۔پاکستان میں بایاں بازو تب ہی طاقتور ہوا جب قوم پرست قوتوں سے اتحاد بنایا گیا۔ اس اتحاد کے لئے یہ بھی ضروری ہے بایاں بازو قوم پرستی بارے لینن وادی موقف اختیار کرے اور اپنی نظریاتی گومگو کو ترک کرے۔

عوام کا ریاستی جبر کیخلاف رد عمل، ایک عوام دشمن حکومت بننے جا رہی ہے

یہ انتخابات بنیادی طور پر آئی ایم ایف کی پالیسیوں کا اطلاق کرنے والوں، مہنگائی کے ذمہ داروں اور ریاستی جبر کرنے والوں کے خلاف ایک واضح آواز بن کر ابھرے ہیں۔ لوگوں کا رد عمل واضح طور پر ان پالیسیوں کے خلاف ہوا ہے، جو پی ڈی ایم کی حکومت 16ماہ کے دوران نافذ کرتی رہی ہے۔ اس کے ساتھ ساتھ نگران حکومت نے جو فیصلے کئے ہیں، ان سے بالکل واضح نظر آرہا تھا کہ یہ نگران حکومت بھی سابقہ پی ڈی ایم کے ہی معاشی فیصلوں کو آگے بڑھا رہی ہے۔