پاکستان


آزادی اور غلامی

آج آپ جیسے نوجوان دنیا کے ساتھ تعلق قائم کرنے اور پاکستان کے بے ہودہ، ناکارہ، غیر فعال نظام کو نظرانداز کرنے کے طرح طرح کے شاندار طریقے وضع کر رہے ہیں۔ کالج کے طلبہ اپنے خاندان کی آمدن میں مدد کرنے کیلئے مغربی کمپنیوں کے لیے آن لائن کام کرتے ہیں، ڈاکٹرز اور نرسیں پاکستان سے مغرب کے کلینک اور ہسپتال چلانے میں مدد کر رہے ہیں اور اس عمل میں پاکستان کیلئے آمدنی اور مہارت لاتے ہیں، انجینئرز اور دیگر آئی ٹی پروفیشنلز پاکستان سے دنیا بھر کی کمپنیوں کو تکنیکی خدمات فراہم کرتے ہیں،اس طرح یہ ایک لمبی فہرست ہے۔ میرے بیٹے وہ پاکستان ہی ہے جس پر یقین رکھتے ہیں۔

پی آئی اے کی نجکاری: مسائل حل ہونے کی بجائے مزید بڑھیں گے

موجودہ حکومت اب پی آئی اے کی نجکاری کا باقاعدہ اعلان کر چکی ہے۔ پی آئی اے کا فلائٹ کچن کا ایک ادارہ پہلے ہی نجی کمپنی ‘کچن کوزین ’کو بیچا جا چکا ہے۔ اب موجودہ حکومت انتظامی امور سمیت 51فیصد شیئرز کسی نجی ادارے کو فروخت کرنے کا ارادہ رکھتی ہے۔ 49فیصد شیئرز تمام تر ذمہ داریوں کے ساتھ حکومت کے پاس رہیں گے۔ اس طرح انتظامی فیصلہ جات سمیت منافعوں اور لوٹ مار کی سرمایہ داروں کو چھوٹ ہوگی، جبکہ تمام تر خسارے اور بوجھ حکومت کے ذمے ہونگے۔

ٹوبہ ٹیک سنگھ میں 22 سالہ ماریہ کا قتل

سرمایہ دارانہ نظام کے بڑھتے ہوئے بحران نے سامراجی طاقتوں میں عدم توازن پیدا کیا ہے جس وجہ سے جہاں خانہ جنگی، پراکسی وار اور جنگوں کے امکانات بڑھ رہے ہیں وہاں ہی تیسری دنیا کے ممالک، خاص کر پاکستان جس میں سرمایہ داری کی تاریخی متروکیت کی وجہ سے جدید قومی ریاست تشکیل ہی نہیں ہو سکی، زیادہ منفی اثرات مرتب ہو رہے ہیں۔ غربت اور بے روزگاری میں خوفناک حد تک اضافہ ہو رہا ہے۔ مہنگائی آسمانوں کو چھو رہی ہے۔ بجلی اور دیگر توانائی کے شعبوں میں آئی ایم ایف کی پالیسیوں کے نفاذ کے ذریعے عوام پر ٹیکسز کی بھرمار جاری ہے۔محنت کشوں کے پاس پہلے سے موجود سہولیات چھینی جا رہی ہیں، پنشن کا خاتمہ اور قومی اداروں کی نجکاری سمیت محنت کشوں پر مختلف حملے جاری ہیں۔ ایسے حالات میں اگر ایک انقلابی سرجری کے ذریعے سماج کو آگے نہیں بڑھایا جاتا تو وحشت و جرائم کا پنپنا ناگزیر ہو جاتا ہے۔

سیاسی ثقافت کی گراوٹ: پیپلز پارٹی کے ’ساتھیو مجاہدو‘ سے ’قیدی نمبر 804‘ تک

پھر یوں ہوا کہ سیاست سے ترقی پسند نظریات غائب ہوتے چلے گئے۔ زوال پزیر اورگراوٹ کا شکار سیاست کا ابتدائی اظہار اگر نواز شریف اورآصف علی زرداری تھے تو اس اس گراوٹ کو اتھاہ گہرائیوں میں پہنچانے کا سہرا عمران خان کے سر باندھا جا سکتا ہے۔
جوں جوں سیاست زوال پزیر ہوئی،توں توں سیاسی ثقافت بھی تباہ ہوتی گئی اور ہوتی جا رہی ہے۔ دلیل کی جگہ اگر گالی لے چکی ہے تو ساتھیو مجاہدو کی جگہ قیدی نمبر 804 جیسی فحاشی نے لے لی ہے۔
1990ء میں جب بے نظیر کی حکومت برطرف ہوئی تو اردو کے مایہ ناز شاعر محسن نقوی نے نظم لکھی ’یا اللہ یا رسول بے نظیر بے قصور‘۔ یہ نظم بچے بچے کو ازبر تھی۔ عمران خان کی حکومت بر طرف ہوئی تو ٹاپ ٹوئٹر ٹرینڈ تھا ’رنڈی‘۔

بھگت سنگھ: وہ تاریخ جو مٹ نہیں سکتی!

بھارتی حکمران طبقے کی جانب سے بھگت سنگھ کی بالواسطہ کردار کشی یہاں کی نسبت زیادہ افسوسناک ہے۔ یہ تاریخ کا المیہ ہے کہ کچھ مہینے پہلے درندہ صفت ہندو بنیاد پرست اور بھارتی سرمایہ داروں کے محبوب سیاستدان نریندرا مودی کو بھگت سنگھ کی آپ بیتیوں پر مبنی ایک کتاب کی تقریب رونمائی میں خصوصی مہمان کے طور پر مدعو کیا گیا تھا۔ اس سے یہ بات بھی ثابت ہوتی ہے کہ اپنی شہادت کی سات دہائیوں بعد بھی بھگت سنگھ نوجوانوں میں مقبول ہے اور دایاں بازو اسی مقبولیت کو کیش کروانے کی کوشش کررہا ہے۔ دائیں بازو کی طرح کانگریس اور اصلاح پسند بایاں بازو بھی ’’تبدیلی‘‘ کی لفاظی اور سیاسی شعبدے بازی کے لئے بھگت سنگھ کے نام کا سہارا لیتا ہے۔ لیکن حکمران طبقے کے مختلف حصوں کی یہ بیہودہ چالبازیاں بھگت کے حقیقی نظریاتی ارتقا پر پردہ نہیں ڈال سکتی ہیں۔ موت کے وقت وہ اپنی سیاسی زندگی کے اس نظریاتی نچوڑ اور نتیجے پر چٹان کی طرح قائم تھا کہ برصغیر کے عوام کی نجات کا واحد راستہ سوشلسٹ انقلاب ہے۔

دریاؤں کا عالمی دن اور کراچی کا ملیر دریا

ہر سال14مارچ دنیا میں دریاؤں کے عالمی دن کے طور پر منایا جاتا ہے۔ دریاؤں اورندیوں کی زندہ حیثیت تسلیم کی گئی ہے اور ان کے حفاظت کے لئے اقدامات کئے جاتے ہیں۔ندیوں کی بدولت دریاؤں کا جنم ہوتا ہے اور اگر ندیاں باقی نہ رہیں تو دریا بھی ختم ہو جائیں گے۔ آج دنیا ندیوں اور دریاؤں کو زندہ حیثیت سے نظام کائنات کا اہم ستون تسلیم کر چکی ہے۔ مگر افسوس کہ آج کراچی کو آکسیجن مہیا کرنے والے ملیر کو زندگی کی علامت دینے والی ملیر ندی کو سرکار کی سرپرستی میں موت کے گھاٹ اتارا جا رہا ہے۔

نواز شریف کا وزیر اعظم نہ بننا عمران خان کے لئے بد شگونی ہے

نوے میں وزیر اعظم بننے کے بعد، نواز شریف نے سچ مچ اپنے لئے ایک سماجی بنیاد حاصل کر لی،گو وہ 1993 کا انتخاب ہار گئے۔ ایک اور مماثلت۔نواز شریف کونکالا تو گیا مگر وہ دو مرتبہ پھر وزیر اعظم ہاوس میں واپس آ گئے۔ ان کے بارے میں مشہور ہوا کہ وہ وزیر اعظم ہاوس میں آتے تو فوج کے ساتھ دوستی کر کے ہیں،جاتے لڑائی کر کے ہیں۔ فوج نے اس کا حل یہ نکالا کہ اب وزیر اعظم کی کرسی پر ان کے بھائی کو بٹھا دیا ہے۔

سکولوں کے دورے امیج بلڈنگ کی افسوسناک کوشش ہیں

پنجاب کا وزیر اعلیٰ بنتے ہی مریم نواز شریف نے اپنی امیج بلڈنگ کے لئے وہی گھسے پٹے طریقے آزمانے شروع کئے ہیں جو اکثر حکمران،بالخصوص شریف فیملی والے، اقتدار سنبھالتے ہی کچھ دن آزماتے ہیں۔ ٹیلی ویژن اور سوشل میڈیا پر دیکھا جا سکتا ہے کہ مریم نواز کچھ سکولوں کے دورے کرتی ہیں اور بچوں سے کچھ سوال جواب کرتی ہیں۔

شہباز حکومت آخری سانس لیتی ہوئی جمہوریت کا ماتم ہے

اسی سوچ کے تحت شہباز شریف نے اپنا پہلا دور وزارت گزارا۔ اس کا صلہ انہیں دوسری باری کی صورت میں ملا۔ شریف خاندان نے ممکن ہے گذشتہ دو سالوں کا فائدہ اٹھا کر اپنے کاروباری معاملات بھی درست کر لئے ہوں مگر یہ طے ہے کہ پنجاب کا تخت بھی ایک مرتبہ پھر ان کے زیر پایہ ہے۔ خاندان بھر کے افراد جن مقدمات کا سامنا کر رہے تھے، وہ بھی ختم ہو گئے۔ پیپلز پارٹی بھی ایک عرصے سے سندھ میں اپنی حکومت بچانے کے لئے فوج کی ہر بات پر لبیک بولتی ہے۔

اچھرہ، الیکشن اور عظیم تجزیہ نگار

ووٹ مولوی کی مقبولیت کا بھی پیمانہ نہیں۔ ووٹ پی ٹی آئی کو ملے یا مسلم لیگ کو، یہ ملتا بہرحال مولوی اور فوجی کو ہی ہے۔ پیپلز پارٹی اور اے این پی کا معاملہ ذرا ٹیڑھا ہے۔ دونوں کا ریکارڈ یہ ہے کہ مولوی کے پاؤں پڑے رہتے ہیں، اس کی ہر بات مانتے ہیں مگر مولوی ان دونوں کو دائرہ اسلام سے خارج ہی سمجھتا ہے۔ قصہ مختصر، مولوی فوجی کی طرح سب سے طاقتور سیاسی جماعت بھی ہے اور سب سے مقبول بھی۔