مقررین نے کہا کہ مزدوروں کی مسلسل محنت اور کاوشوں کی بدولت ہی پاکستان کی ٹیکسٹائل، گارمنٹس، پاورلومز، سائزنگ، بھٹہ و دیگر انڈسٹری ترقی کر رہی ہے جب مزدور ہی بے روزگار اور بھوکا ہو گا تو پاکستان کی ترقی کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟

مقررین نے کہا کہ مزدوروں کی مسلسل محنت اور کاوشوں کی بدولت ہی پاکستان کی ٹیکسٹائل، گارمنٹس، پاورلومز، سائزنگ، بھٹہ و دیگر انڈسٹری ترقی کر رہی ہے جب مزدور ہی بے روزگار اور بھوکا ہو گا تو پاکستان کی ترقی کیسے ممکن ہو سکتی ہے؟
ساڑھے تین سو افراد ہیں پاکستان کی قومی اسمبلی میں۔ صرف ’غدار‘ محسن داوڑ کو خیال آیا افغان زلزلے کے متاثرین کا۔ امہ کے غم میں گھلنے والے باقی کسی ’محب وطن‘ رکن اسمبلی کو شائد معلوم بھی نہ ہو کہ پکتیکا میں ہزار مزید افراد سٹریٹیجک ڈیتھ کا شکار ہو گئے ہیں۔
تین دن قبل علی وزیر نے جب جناح ہسپتال میں بھوک ہڑتال کر دی تو زمین پر براجمان علی وزیر کی تصویر وائرل ہو گئی۔ یہ ممکن نہیں کہ وزیر اعظم شہباز شریف تک یہ تصویر نہ پہنچی ہو۔ وہ بہادر ٹرک ڈرائیور کی وائرل ویڈیو کا نوٹس لے سکتے ہیں تو جناح ہسپتال میں ہونے والی بھوک ہڑتال سے غفلت ممکن نہیں۔ اس کے باوجود کوئی رد عمل سامنے نہیں آیا۔ اتنا سا وعدہ بھی نہیں کیا گیا جتنا بلوچوں سے کیا گیا تھا: ”لا پتہ افراد بارے متعلقہ محکمے سے بات کروں گا“۔
ایک دن شیرو کے منہ سے بسکٹ چھین لیا۔ شیرو نے احتجاج کیا تو بولے: ”آج سے صرف آدھا بسکٹ ملے گا۔ باقی آدھا ارشد شریف کے لئے“۔ ہیں جی۔
تاریخ کے تلخ تجربات ہی محنت کشوں اور نوجوانوں کی درسگاہ ہوتے ہیں۔ بار بار گھاؤ کھانے اور سامراجی مقاصد کی بھینٹ چڑھنے والے یہ جموں کشمیر کے نوجوان اور محنت کش اپنے تجربات اور سامراجی دھوکوں سے سیکھ بھی رہے ہیں اور نتائج بھی اخذ کر رہے ہیں۔ وہ وقت بھی آئے گا جب اس ہمالیائی خطے سے ابھرنے والے بغاوت کے طوفان غلامی اور جبر کی ہر شکل کو بہا لے جائیں گے۔
مجھے یاد ہے جب بھی کوئی زلزلہ یا سیلاب آیا مولوی حضرات نے شور مچایا کہ اس کی وجہ فحاشی و عریانی ہے۔ ایک طرف آپ کے کسی بھائی بند نے کہا کہ زلزلے لڑکیوں کے جینز پہننے کی وجہ سے آ رہے ہیں تو دوسری طرف آپ نے اعلان کیا کہ کو ایجوکیشن کی وجہ سے معاشرے پر عذاب نازل ہو رہے ہیں۔ ہر آفت کے بعد، آپ اور آپ کے بھائی بندے یہ اعلان بھی کرتے تھے کہ ملک میں سودی نظام اور غیر شرعی حکومتوں کی وجہ سے عذاب آ رہے ہیں۔