آج دنیا بھر کی بیشتر خواتین خواہ وہ یورپ، امریکہ یا دیگر ترقی یافتہ ممالک سے ہی کیوں نہ تعلق رکھتی ہوں، ان کی آزادی ادھوری ہے اورپسماندہ ممالک میں تو عورت کی حالت اذیت ناک اور کئی گنا بدتر ہے۔ کہیں رسموں رواجوں کی آڑ میں اور کہیں ثقافتی روایات کے جبر سے عورت کو تابعدار بنا کر رکھا گیا ہے۔ اجرتوں سے لے کر سماجی رویوں تک ہر شعبے میں مردوں کی نسبت خواتین دوہرے جبر کا شکار ہیں۔ اس بدبودار نظام میں کہیں خواتین کو ہوس کا نشانہ بنایا جا رہا ہے تو کہیں غیرت کے نام پر قتل تک کر دیا جاتا ہے۔ کہیں کنویں سے لاشیں برآمد ہو رہی ہیں اور کہیں تیزاب پھینکنے کے واقعات معمول بن چکے ہیں۔
Month: 2023 مارچ
جموں کشمیر: 8 مارچ پر حکومت کا تحفہ، حجاب پہننا لازمی قرار دے دیا
محکمہ تعلیم کی جانب سے جاری ہونے والے سرکلر میں کہا گیا ہے کہ ’مشاہدے میں آیا ہے کہ جن ادارہ جات میں مخلوط نظام تعلیم رائج ہے، ان میں طالبات اور معلمات کو حجاب کی پابندی نہیں کروائی جاتی۔‘
پنجاب یونیورسٹی میں ’ہولی‘ منانے والے طلبہ پرجمعیت کا حملہ، متعدد زخمی
یہ واقعہ پیر کے روز پنجاب یونیورسٹی کے شعبہ قانون کے سامنے پیش آیا، جہاں 30 کے قریب ہندو طلبہ ہولی منانے کیلئے جمع تھے۔ اسلامی جمعیت طلبہ کے کارکنوں نے ان طلبہ کو زبردستی ہولی منانے سے روک دیااور انہیں لاٹھیوں، ڈنڈوں کے ذریعے تشدد کا نشانہ بنایا گیا۔
محنت کش خواتین کا عالمی دن: این ایس ایف جموں کشمیر میں پروگرامات منعقد کریگی
مظفرآباد، راولاکوٹ، باغ، ہجیرہ اور راولپنڈی سمیت مختلف شہروں میں ”خواتین کا سیاست میں کردار“ کے عنوان سے سیمینارز کا انعقاد کیا جائے گا۔ ان سیمینارز کے دوران تاریخ میں خواتین کے سماجی و سیاسی کردار اور عہد حاضر میں جدوجہد کے تقاضوں پر سیر حاصل مباحثے تربیتی عمل کا حصہ رہیں گے۔ اس طرح خواتین کی سیاست کے میدان میں عملی شمولیت اور سیاسی تربیت کے حوالہ سے یہ سیمینارز اہم سنگ میل ثابت ہوں گے۔
عورت مارچ لاہور کی اجازت سے انکار: لاہور ہائیکورٹ سے رجوع
عورت مارچ لاہور کے منتظمین نے کہا ہے کہ عورت مارچ لاہور اپنے چھٹے سال 8 مارچ 2023ء کو ناصر باغ میں دوپہر 2 بجے سے شام 6 بجے تک کام کرنے والی خواتین کا عالمی دن منانے کا ارادہ رکھتا ہے۔ 6 مارچ، پیر کو اپنی سالانہ پریس کانفرنس میں، عورت مارچ کے رضاکاروں کا کہنا تھا کہ ان کے مارچ کو سہولت فراہم کرنے کی ذمہ داری لاہور کی شہری انتظامیہ پر ہے کیونکہ یہ آئین کے آرٹیکل 16 کے تحت ان کا آئینی حق ہے۔
اسلام آباد انتظامیہ نے عورت مارچ کیلئے اجازت دینے سے انکار کر دیا
ڈپٹی کمشنر اسلام آباد نے عورت مارچ کے انعقاد کیلئے این او سی دینے سے انکار کرتے ہوئے منتظمین کو عورت مارچ کا پروگرام ایف نائن پارک میں منعقد کرنے کی تجویز دے دی ہے۔
جرمنی: ٹرانسپورٹ پالیسیوں کے خلاف ماحولیاتی کارکنان سراپا احتجاج
جرمن دارالحکومت برلن اور دیگر شہروں میں جمعے کو ہزاروں کی تعداد میں موسمیاتی مظاہرین جمع ہوئے تاکہ گلوبل وارمنگ کے خلاف، خاص طور پر ٹرانسپورٹ کے شعبے میں گرین ہاؤس گیسوں کے اخراج کو روکنے کے لیے حکومت سے سخت کارروائی کا مطالبہ کریں۔
اسلام آباد: قائد اعظم یونیورسٹی میں ملٹرائزیشن اور طلبہ کی گرفتاریوں کیخلاف احتجاج
مقررین نے ملک بھر میں طلبہ کے خلاف یونیورسٹی انتظامیہ کے کریک ڈاؤن کی بھی بھرپور مذمت کرتے ہوئے کہا کہ طلبہ کو جبر اور دھونس کے ذریعے بے اختیار کرنا اور یونیورسٹی کیمپس کو عسکری چھاؤنی بنانے کی کوشش کرنا ہر گز کسی تعلیمی ماحول کی غمازی نہیں کرتا اور اس کے اثرات طلبہ کے لیے ہولناک ہوں گے۔
کرتار پور امن ملاقات: مستقل جنگ بندی اور معاشی ترقی کے اقداما ت کے فروغ پر زور
پاکستان اور بھارت کی امن کیلئے کام کرنے والی تقریباً 50 سے زائد سماجی تنظیموں کے کارکنوں اور رضاکاروں نے کرتارپور امن راہداری کے مقام پر 28 فروری 2023ء کو مشترکہ طور پر مطالبہ کیا کہ جنوبی ایشیائی ممالک بالخصوص پاکستان اور بھارت کے درمیان دوستی کے فروغ کو یقینی بنایا جائے اور تمام ملکوں کو ویزا فری کیا جائے، تاکہ خطے کے لوگوں کو ایک دوسرے سے ملنے کی مکمل آزادی حاصل ہو اور مشترکہ سماجی، ثقافتی اور تاریخی ورثے کو فروغ دیا جا سکے۔
’اشرافیہ کو 2.66 ٹریلین روپے کی سبسڈی ڈیفالٹ کی اصل وجہ‘
یہ معیشت تین بڑے بحرانات پر کوئی روشنی نہیں ڈال سکی۔ 2007-8ء کے بحران کا تناظرنہیں دے سکی۔ یہ بھی نہیں بتا سکی کہ اس بحران کی گہرائی کتنی ہو گی اور یہ کتنی دیر چلے گا۔ ان کے پاس کوئی جواب نہیں تھا۔
دوسری ناکامی یہ تھی کہ موسمیاتی بحران پر کوئی وارننگ ہی نہیں دے سکی۔ وہ تو سائنسدانوں نے ایک رپورٹ لکھی اور انہوں نے بتایا کہ زندگی کو خطرات لاحق ہو گئے ہیں۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں بھی کوئی تناظر نہیں دیا۔
تیسری بڑی ناکامی یہ ہے کہ ملکوں کے اندر اور ملکوں کے درمیان لڑائیاں ہو رہی ہیں، تشدد پھیل رہا ہے۔ معیشت دانوں نے اس بارے میں معاشی پالیسی کے ذریعے نہ کوئی تناظر دیا، نہ حل دے رہے ہیں۔ اس لئے دوبارہ اس پر از سرنو سوچا جا رہا ہے، تاکہ مختلف آئیڈیاز لے کر اس کو آگے لے جایا جائے۔ تاہم پاکستان میں ایسا نہیں ہو رہا ہے۔