خبریں/تبصرے

اوکاڑہ تحریک: 16 کسان شہید ہوئے، 16291 کیخلاف مقدمے بنے، 1236 گرفتاریاں ہوئیں

فاروق طارق

تحریک انصاف حکومت کی انٹیلی جینس ایجنسیوں نے اوکاڑہ میں چلنے والی انجمن مزارعین پنجاب تحریک کے رہنماؤں اورارکان کے خلاف تحریک کے آغاز 2001ء سے لے کر اکتوبر 2018ء تک درج ہونے والی کل مقدمات کی تعداد اکٹھی کی تو ان کی اپنی آنکھیں کھلی کی کھلی رہ گئیں۔

ان کی یہ دستاویز اب ہمارے ہاتھ آئی ہے تو ہمیں بھی اندازہ ہوا کہ ایک ضلع اوکاڑہ میں مزارعوں کی تحریک کو کچلنے کے لئے ریاستی ادارے ایک دوسرے سے تعاون کرتے ہوئے کتنا آگے جا سکتے ہیں۔ تحریک کے دوران 16 مزارعین شہید ہوئے، جبکہ ریاستی اداروں کے کسی فرد کی خوش قسمتی سے جان نہیں گئی اور یہ ہماری شعوری پالیسی اور حکمت عملی کا نتیجہ تھا کہ جوابی کاروائی جلسے جلوسوں، دھرنوں اور مظاہروں سے کی جائے گی۔ گولی کا جواب گولی سے نہیں دیا جائے گا۔اس مضمون میں پہلی دفعہ تحریک کے خلاف ریاستی کاروائیوں کی مکمل رپورٹ پیش کی جا رہی ہے۔

رپورٹ کے مطابق اوکاڑہ کے 19 دیہاتوں میں بسنے والے مزارعین میں سے 16291 کے خلاف مقدمات درج کئے گئے۔ ان میں 4432 افراد کے ناموں پر ایف آئی آر کاٹی گئیں۔ ان افراد کے خلاف کل 357 ایف آئی آر کاٹی گئیں، جو کہ کسی ایک ضلع میں ایک سیاسی اور طبقاتی تحریک کے خلاف ریاستی جبر کی ایک نئی مثال ہے۔ نامعلوم افراد جن کے خلاف مقدمات قائم ہوئے ان کی تعداد 11852 ہے۔ اس نامعلوم لسٹ میں کسی کو بھی نامزد کر کے گرفتاری ڈال لی جاتی تھی۔

نامزد ملزمان میں 1236 افراد کو باضابطہ گرفتار کیا گیا۔ ان میں صرف 114 کو بے گناہ قرار دیا گیا۔ عام طور پر وہ مک مکا کر کے کچھ حصہ دینے کے نام پر رقم ادا کرتے تھے اور ’بے گناہ‘ قرار پاتے تھے۔ 801 مزارعین کو اشتہاری قرار دیا گیا تھا۔

مہر عبدالستار جنرل سیکرٹری انجمن مزارعین پنجاب کے خلاف 36 مقدمات درج کئے گئے تھے۔ ان کی ان تمام مقدمات میں یا تو ضمانت کنفرم ہے یا پھر انہیں باعزت بری کیا گیا۔ ان کو گرفتار کرنے کے لئے 16 اپریل 2016ء کو ٹینکوں سے ان کے گاؤں کا محاصرہ کیا گیا۔ ان کے گھر کی دیواریں پھلانگ کر اندر گھسا گیا۔

ان کے خیال میں شائد مہر عبدالستار کے پاس ٹینک شکن توپیں ہیں مگر ایک پستول بھی ان کے گھر سے برآمد نہ ہوا۔ ان کی گرفتاری کے ایک ماہ بعد لاہور کی انسداد دہشت گردی عدالت میں ان کی آنکھوں پر کالا کپڑا ڈال کر پیش کیا گیا۔ میں بھی اس دن عدالت میں تھا ہماری درخواست پرجج صاحب نے وہ کپڑا وقتی طور پر اٹھوایا۔

تحریک کے رہنماؤں میں سب سے زیادہ مقدمات محمد سلیم جھکڑ کے خلاف درج ہوئے جن کی تعداد 88 ہے، ان میں 23 کو منسوخ کر دیا گیا تھا، باقی مقدمات میں وہ یا تو ضمانت پر ہیں یا بری کر دیے گئے ہیں۔

ملک سلیم جھکڑ کو دہشت گرد ثابت کرنے کے لئے ان کے ڈیرہ کے سامنے 6 افراد کو صبح صبح پولیس مقابلہ میں مار کر الزام عائد کیا گیا کہ وہ ان کے ڈیرہ پر تھے۔ میرا اس وقت بیان درست ثابت ہوا کہ پولیس ان کو باہر سے لائی تھی اور یہ کہ اوکاڑہ کی کسان تحریک مذہبی دہشت گردوں کے سخت خلاف ہے۔

رینالہ خورد کے مزارع رہنما ندیم اشرف کے خلاف 32 مقدمات درج کئے گئے۔ وہ مقامی منتخب ناظم بھی تھے اور ان کے نئے تعمیر شدہ مکان میں پولیس نے زبردست توڑ پھوڑ کی۔ وہ تین سال جیل کے بعد ان مقدمات سے بری ہوئے یا ضمانت ہوئی۔

چوھدری شبیر ڈولی کے خلاف 12 مقدمات درج ہوئے، یہ بھی دو سال جیل میں رہے۔ صلاح الدین ناصر کے خلاف 10، محمد شفیق کے خلاف 35، عبدالغفور کے خلاف 11 اورحافظ جبار کے خلاف 12 مقدمات درج ہوئے۔

عبداللہ طاہر کے خلاف 8 مقدمات درج کئے گئے کیونکہ یہ مہر ستار کے ذاتی دوست تھے۔ یہ 2018ء کے انتخاب میں تحریک انصاف کے نامزد امیدوار صوبائی اسمبلی تھے اور ن لیگ سے ہار گئے تھے۔ نوائے وقت کے نمائندہ حافظ حسنین رضا کے خلاف 17 مقدمات درج ہوئے۔ ان کے والد مرحوم سرور بھی اسی تحریک کا حصہ رہے اور کئی بار گرفتار ہوئے تھے۔ جیل میں بیماری کے باعث رہا ہوئے۔ مگر باہر آ کر اسی بیماری کی وجہ سے وفات پا گئے۔ حسنین رضا بھی دو سال سے زیادہ جیل میں رہے۔

خوشی محمد ڈولہ کے خلاف 15 مقدمات درج ہوئے۔ یہ انجمن کے صدر تھے۔ مہر عبدالستار اور انجمن مزارعین کے مقدمات کی پیروی کرنے والے نور نبی ایڈووکیٹ کو بھی گرفتار کیا گیا ان کے خلاف 17 مقدمات درج کئے گئے۔ وہ اسی گاؤں کے رہنے والے ہیں جو مہر عبدالستار کا ہے۔ وہ گرفتاری کے وقت اپنی یونین کونسل کے منتخب چیئرمین بھی تھے۔ ضلع کونسل میں اجلاس کے موقع پر انہیں گرفتار کیا گیا۔ وہ بھی دو سال جیل میں رہے۔

2016ء میں مہر عبدالستار کی گرفتاری سے قبل ان کے قریبی ساتھیوں، محمد شبیر، ملک سلیم جھکڑ اور ندیم اشرف کو گرفتار کیا جا چکا تھا۔ ہمیں معلوم تھا کہ یہ اب مہر ستار کو گرفتار کریں گے لیکن مہر ستار نے ضلع چھوڑنے سے انکار کیا۔ گرفتاری سے قبل دس دن مسلسل مختلف دیہاتوں میں بڑے جلسے کئے۔

یہ تمام جبری اقدامات اس لئے کئے گئے تاکہ مزارعین جو 14000 ہزار ایکڑ زمین ایک سو سال سے بھی زیادہ عرصہ سے کاشت کر رہے تھے اس زمین کی ملکیت کا مطالبہ ترک کر دیں۔ جب 2001ء میں انہیں جنرل مشرف نے مزارع کی بجائے ٹھیکہ دار بنانے کی کوشش کی تو تحریک کا آغاز ہوا جس کا نعرہ تھا: ’مالکی یا موت‘۔ عورتیں اس میں پیش پیش تھیں۔ اس رپورٹ میں یہ نہیں بتایا گیا کہ نامزد ملزمان میں کتنی عورتیں ہیں اور کتنی عورتوں کو گرفتار کیا گیا۔

تحریک نے فیصلہ کیا کہ فصل کا جو 40 فیصد حصہ وہ فوجی ادارے ملٹری فارمز کو ادا کر رہے ہیں، وہ دینے سے انکار کر دیا جائے۔ اس پر اب بھی، 19 سالوں کے بعد بھی، عمل ہو رہا ہے۔ انتظامیہ والے جب کسی کو گرفتار کرتے ہیں، اس سے زبردستی کچھ حصہ وصول کر لیتے ہیں۔ رضاکارانہ طور پر عدم ادائیگی کی یہ تاریخی تحریک آج بھی جاری ہے۔

مزارعین کا موقف ہے کہ یہ زمین حکومت پنجاب کی ہے اور حکومت پنجاب ہم سے حصہ لینا چاہے تو ہم سے بات کرے۔ پہلی دفعہ 2018ء میں نیشنل کمیشن فار ہیومن رائٹس کو اوکاڑہ ملٹری فارمز کے ایک اعلیٰ فوجی افسر نے باضابطہ بتایا کہ یہ زمین حکومت پنجاب کی ہے اور اس طرح مزارعین کے موقف کی تصدیق کی۔

16291 افراد پر مقدمات کے باوجود یہ ملکیت کی تحریک اپنی جگہ قائم ہے۔ مزارعین قربانیوں اور جدوجہد کا راستہ مختلف انداز میں مسلسل جاری رکھے ہوئے ہیں۔ مہر عبدالستار تمام تر ریاستی جبر کو جرات سے برداشت کرتے رہے۔ بالآخر 8 ستمبر 2020ء کو لاہور ہائی کورٹ نے انہیں آخری مقدمہ میں بھی بری کر دیا۔ 12 ستمبر کو ہزاروں مزارعین نے ان کی رہائی پر ان کا والہانہ تاریخی استقبال کیا۔ ان کے ساتھ عبدالغفور بھی بری اور رہا ہوئے۔ 20 سالوں سے جاری اس مسئلے کا ایک ہی حل ہے کہ فوجی ادارہ اس زمین کو مزارعین کے نام کرنے کی جستجو کرے، اسی میں سب کی عزت ہے۔

Farooq Tariq
+ posts

فارق طارق روزنامہ جدوجہد کی مجلس ادارت کے رکن ہیں۔ وہ پاکستان کسان رابطہ کمیٹی کے جنرل سیکرٹری ہیں اور طویل عرصے سے بائیں بازو کی سیاست میں سرگرمِ عمل ہیں۔